اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا’’اندھے پر
کوئی رکاوٹ نہیں اور نہ لنگڑے پر کوئی حرج ہے اور نہ بیمار پر کوئی گناہ ہے
اور نہ خود تمہارے لئے (کوئی مضائقہ ہے) کہ تم اپنے گھروں سے (کھانا) کھا
لو یا اپنے باپ دادا کے گھروں سے یا اپنی ماؤں کے گھروں سے یا اپنے بھائیوں
کے گھروں سے یا اپنی بہنوں کے گھروں سے یا اپنے چچاؤں کے گھروں سے یا اپنی
پھوپھیوں کے گھروں سے یا اپنے ماموؤں کے گھروں سے یا اپنی خالاؤں کے گھروں
سے یا جن گھروں کی کنجیاں تمہارے اختیار میں ہیں (یعنی جن میں ان کے مالکوں
کی طرف سے تمہیں ہر قسم کے تصرف کی اجازت ہے) یا اپنے دوستوں کے گھروں سے (کھانا
کھا لینے میں مضائقہ نہیں)، تم پر اس بات میں کوئی گناہ نہیں کہ تم سب کے
سب مل کر کھاؤ یا الگ الگ، پھر جب تم گھروں میں داخل ہوا کرو تو اپنے (گھر
والوں) پر سلام کہا کرو (یہ) اﷲ کی طرف سے بابرکت پاکیزہ دعا ہے، اس طرح اﷲ
اپنی آیتوں کو تمہارے لئے واضح فرماتا ہے تاکہ تم (احکامِ شریعت اور آدابِ
زندگی کو) سمجھ سکو( النور،61)رشتہ داروں ،تعلق داروں کے حقوق سے قبل اﷲ
سبحان تعالیٰ نے اندھے،لنگڑے اور بیماریعنی جسمانی معذورافرادکے حقوق بیان
فرماکرہمیں حکم فرمایاہے کہ معذورافرادکوخصوصی حق حاصل ہے کہ جس طرح ہمارے
والدین،اولاد،بہن بھائیوں سمیت دیگررشتہ داروں کے حقوق ہیں اسی طرح ایسے
معذورافرادکابھی حق ہے جوکسی بھی جسمانی کمزوری کے باعث کاروباریامزدوری
نہیں کرپاتے۔معذور افراد انسانی معاشرے کا وہ حصہ ہیں جو صحت مندافراد کی
نسبت زیادہ توجہ کے مستحق ہوتے ہیں،کوئی بھی باشعور معاشرہ معذوروں کو نظر
انداز کرنے یا انہیں معاشرے میں قابل احترام مقام سے محروم رکھنے کا تصور
نہیں کرسکتا۔دین اسلام تکریم انسانیت کا علمبردار ہے۔اﷲ تعالیٰ کے احکامات
اوررسول اﷲ ﷺ کی تعلیمات کے مطابق معذور افراد معاشرے میں اپنی شناخت کے
لحاظ سے خصوصی توجہ کے مستحق ہوتے ہیں۔یہ بات درست ہے کہ معذورافرادکسی
جسمانی کمزوری کے باعث معاشرتی سرگرمیوں میں توبہتراندازمیں
اپناکردارادانہیں کرپاتے پراﷲ تعالیٰ نے اُن کو بھی عقل، شعور اور صلاحیتوں
سے مالامال کیاہوتاہے۔اکثرمعذور افراد کی صلاحیتیں اور ان میں ملک و ملت کی
خدمت کے لئے کچھ کرنے کا جذبہ نارمل انسانوں سے بھی کہیں زیادہ دکھائی دیتا
ہے۔یہ نہ صرف مذہبی بلکہ انسانی تقاضا بھی ہے کہ معذوروں پر ترس کھاکر نظر
انداز نہ کیاجائے ، ان کو مایوس نہ کیا جائے، اور ان کو معذوری کے سبب
دوسرے انسانوں سے کمتر نہ سمجھا جائے بلکہ ان کو معاشرے کا فعال کا حصہ
بنانے کیلئے زیادہ سے زیادہ مددکی جائے،یہ بھی سچ ہے کہ معذور ی محتاجی کا
دوسرا نام ہے۔ اﷲ کسی دشمن کو بھی اپنی ذات کے سوا کسی کا محتاج نہ کرے ،ہر
حالت میں صبروشکر کی توفیق وطاقت عطا کر کے اپنے ہی در کا سوالی بنائے
رکھے(آمین)3 دسمبرکو معذورافرادکے عالمی دن کے طورپرمنایاجاتاہے ،اس دن کو
منانے کا آغاز دوسری جنگ عظیم کے بعد دوران جنگ معذور ہونے والوں کے ساتھ
ہمدردی،دلجوئی اور ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر کیا گیا۔بعدازاں اس
دن کو معذوروں کی بجائے خصوصی افراد کے عالمی دن کا نام دے دیاگیا۔ہمیشہ کی
طرح مجھے اس سال بھی اس دن کو خصوصی طور پر منانے میں کوئی دلچسپی نہ تھی
کیونکہ میں کسی بھی انسانی رشتے کو صرف ایک دن میں قید کرنے کاحامی نہیں
ہوں۔راقم کا خیال ہے کہ کسی انسانی رشتے کوایک دن میں قید کرنے کامطلب
ہمدردی،دلجوئی اور اظہار یکجہتی تو ہوسکتا ہے پر برابری اورمحبت
ہرگزنہیں،جب تک دوسروں کو اپنے برابر کا انسان نہ سمجھا جائے توکسی بھی دن
کو منانے کا کوئی فائدہ نہیں ،سوائے سستی شہرت کے۔حق تویہ بنتاہے کہ ہم
اپنے اردگردموجودمعذورافرادکوایسے ہی عزیزسمجھیں جیسے اپنے قریبی ،مخلص
رشتہ داروں کوسمجھتے ہیں،ٹھیک اسی طرح اپنے دسترخوان میں شامل کریں جیسے
اپنے بہن بھائیوں کوکرتے ہیں۔آج کل حالات ایسے نہیں کہ اپنے گھرکی
چاردیواری میں جہاں ہم اپنے والدین ،بیوی بچوں کے ساتھ رہتے ہیں وہاں
غیرافرادکوگھسنے کی اجازت دی جاسکے اس لئے ہمیں چاہئے کہ ایسے افرادکی
ضروریات زندگی کاخیال کریں،ادائیگی حقوق انتہائی مشکل کام ہے پھر بھی جہاں
تک ممکن ہواُن کی مددکریں۔اﷲ سبحان تعالیٰ سے دُعاہے کہ کسی انسان کو دوسرے
انسان کی محتاجی نہ ہو،اے اﷲ پاک ہمیں اپنی پاک ذات اوراپنے پیارے محبوب ﷺ
کے درکاہی محتاج رکھ(آمین)
|