تحریر:سید شاہ زمان شمسی
موجودہ دور کے تقاضے بدل چکے ہیں بوسیدہ کتابوں کو کوئی ہاتھ نہیں لگاتا۔
ان مظلوم کتابوں کی خاک چھاننا شروع کی تو دایاں ہاتھ کتاب کے اوپر والی
سطح کو صاف کرتے وقت مٹی سے بھر چکا تھا۔ کتاب کے صفحات بھی ضعیف تھے عمر
رسیدہ ہونے کے باعث صفحات پلٹتے ہوئے کتاب کی سلائی سے جدا ہونے کو ہی تھے
کہ ہم نے کتاب فوری طور پہ بند کر کے متعلقہ جگہ پہ رکھ دی۔ یہ کچھ دنوں کی
بات ہے کہ علامہ اقبال لائبریری فیصل آباد میں جانے کا اتفاق ہوا۔ میں اس
لائبریری کا پرانا ممبر ہوں جو بہت عرصے بعد کسی کتاب کی تلاش میں کتابی
سفر کی غرض سے ایک خاص جستجو کا مسافر بن کے مختلف الماریوں میں رکھی گئی
کتابوں کو دیکھتے دیکھتے مغموم ہو رہا تھا ۔غم کھانے کے سوا چارہ بھی نہ
تھا۔ آیا کس مقصد کے لیے تھا اور دیکھنے کو عجب مناظر مل رہے تھے۔ کتابوں
کی نوحہ گری نے دل کو عجب بے چین کر رکھا۔
پرانی لائبریری ہے مجھ جیسے نوجوان یہاں کم دیکھنے کو ملیں گے آپ کو، اس کے
علاوہ آپ ان تمام لوگوں کو دیکھ سکتے ہیں جو واقعی کتابوں کے شیدائی اور
عمر کے اعتبار سے بڑی عمروں والے بزرگ جو خاموش طبع ہوا کرتے ہیں انہیں
مطالعہ کرتے ہوئے پائیں گے۔ کہیں کہیں کچھ نوجوان دیکھنے کو بھی ملیں تو وہ
لیپ ٹاپ پر اپنا کام کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔ شاذ و نادر ہی کوئی ایسا
نوجوان ہو گا جو ورق گردانی کرتے ہوئے نظر آئے۔ خیر جس کتاب کی تلاش کے لیے
گیا تھا وہ کتاب تو نہ ملی مگر ہتھیلی پہ جمی ہوئی خاک کی مہک کو سونگھ کے
اپنے اندر ضرور سما چکا تھا کیونکہ میں کتاب کو اپنے طور پہ حیات کا روحانی
زاد راہ تصور کرتا ہوں اور اسی احساس کو اپنے اندر جا گزیں کر کے گھر کو
رخصت ہو گیا۔
زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ ایک عزیز کی طرف سے کتاب کا تحفہ موصول ہوا یہ
کتاب کوئی عام کتاب نہیں ہے۔ مرحوم ممتاز مفتی صاحب کا عظیم شاہکار ہے
حقیقی جذبات کی عکاسی کرتا ایک ایسا سفر نامہ ہے جسے پڑھ کے قاری پوری طرح
اس سفر عشق میں محو ہو جاتا ہے جس کا نقشہ ممتاز مفتی صاحب نے اپنی کتاب
میں کھینچ کر رکھ دیا ہے۔ موجودہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے میدان میں جب کہ
کتابیں انٹرنیٹ میں سمٹ کے قارئین کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں مگر کاغذ میں
سے اٹھنے والی مہک، انگلیوں کو چکھ کر صفحات پلٹنے کا مزہ، تخیلاتی اور
تصوراتی سفر جو اس طرح مطالعہ کرنے سے حاصل ہوتا ہے وہ پی ڈی ایف فائل ڈاون
لوڈ کرنے میں کہاں؟ بلکہ موبائل سے پڑھنے میں کیف و سرور تو نہیں ملتا مگر
اعصابی کمزوری اور دماغی سست روی کی شکایات ضرور سننے کو ملی ہیں لیکن جدید
دور کا ایک المیہ ہے یہ کہ کتاب دوستی بہت کم دیکھنے کو ملتی ہے۔ ہمیں تو
کتاب کا تحفہ وصول کرنے پر جو خوشی اور مسرت ملا کرتی ہے اس کا ٹھکانہ نہیں۔
کتاب کے ذریعے ذہن کی آسودگی، روح کی بالیدگی، اور شعور کی پختگی کو اپنے
استقبال کے لیے منتظر پاتا ہوں۔ لیکن جب یہ دیکھتا ہوں اور اس بات پر دور
اندیشی سے غور و خوض کرتا ہوں کہ ان کا مستقبل کیا ہو گا اس ظالم سماج میں
صنعتی انقلاب کے اس دور پرآشوب میں جبکہ لوگوں نے اپنے کمیونیکیشن ربط کو
مختصر کر لیا ہے آسانیوں کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ ہماری آنے والی نسلوں پر ایک
ایسا نظام مسلط کر دیا جائے گا جس میں رہ کے انہیں الیکٹرونک ڈیوائسز کے
ذریعے تعلیم و تربیت دی جائے گی۔ کتابوں کا الگ ہی عجائب گھر ہو گا۔
کاش کہ ایسا نہ ہو شاید یہ میرا اندیشہ ہو یا میرے تصور کی ان دیکھی آواز
جو سچ بھی ہو سکتی ہے۔ خدا کرے کہ کتابوں کی محبت مہک اور احساس ہمارے بعد
آنے والی نسلوں میں بھی منتقل ہو۔ لیکن وہ بوسیدہ کتابیں جو میں لائبریری
چھوڑ آیا تھا ان کی چیخیں اب بھی کانوں میں گونجتی ہیں۔
کاغذ کی یہ مہک، یہ نشہ روٹھنے کو ہے
یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی
سعود عثمانی حقیقت سے پردہ اٹھا چکے ہیں جس کے آثار مستقبل میں کچھ یوں ہوں
گے کتابوں کی محبت معاشرے سے اٹھ جائے گی۔ افراتفری ہو گی مشینوں کی حکومت
دلوں کو مزید مردہ کر دے گی، انسانوں سے محبت جو آج کے معاشرے میں کہیں
کہیں دیکھنے کو مل رہی ہے مکمل طور پہ ختم ہوجائے گی۔ اﷲ کرے ایسا نہ ہو
خدا کرے کہ ایسی نوبت نہ آئے، وگرنہ قیامت کو دعوت دینے کی ہم خوب تیاری کر
رہے ہیں جس کا محاسبہ کرنا مجھ سمیت ہر شخص کی ذمہ داری ہے۔
|