ہمارے معاشرے میں ساس بہو کی لڑائی، نند بھاوج کی لڑائی،
دو سوکنوں کی لڑائی معمول کی بات ہے۔ شاید ہی کوئی گھر ایسا ہو جہاں یہ ازل
تا ابد کا مسئلہ در پیش نہ ہو۔ دونوں پل بھر بھی ایک دوسرے کے (نوے فیصد)
قریب پھٹکناتک گوارا نہیں کرتیں۔ وجہ...؟؟ جنریشن گیپ یعنی ساس کو دقیانوسی
اور بہو کو نئے زمانے کی چیز کہا جا تا ہے۔ اگرچہ ابھی بھی کچھ اچھے لوگ
باقی ہیںلیکن اس جہاں میں اکثریت ایویں ہی ہے۔ساس بہو کا پھڈا کس بات پر،
کس وقت ،کس جگہ شروع ہو جائے مری کے موسم اور ہمارے ملک کی سیا ست کی طرح
اس کا بھی کوئی بھروسہ نہیں ۔ ایک ساس نے اتفاق سے یا غلطی سے بہو سے پینے
کا پانی مانگ لیا ،بہو جو پہلے ہی بہت جھمیلوں میں پھنسی، سٹار پلس کے
ڈراموں اور فیشن کے خیالوں میں مگن تھی، ٹکا سا جواب دے دیا کہ خود اٹھ
کرپی لو۔ اب آپ تصور کریں کہ بیچاری اوور ویٹ(Over Weight) بوڑھی ساس،
گھٹنوں کے درد کی ماری اور مزید چھ بیماریوں میں مبتلا بھلا کیسے خود پانی
لے کر پی سکتی ہے ؟ لو جی پھڈا شروع……پھڈا بھی ایسا کہ نہ ختم ہونے والا
یعنی ہمارے مفاد پرست سیاست دانوں جیسا نہیں کہ جیب میں مال ختم تو رات کو
تحفظات کا پھڈا شروع ہوا اور صبح دے دلا کر تمام تحفظات اور پھڈے ختم اور
اب شیروشکر۔ لوجناب!پہلے ساس صاحبہ نے حملہ کیا ’’دیکھو تو آج کل کی
بہوؤںکو،ایک گلاس پانی کیا مانگ لیا کھانے کو ایسے دوڑ پڑیں جیسے سمندر
لانے کو کہہ دیا ہو یا ان کی آبائی جائیداد میں سے حصہ مانگ لیا ہو، کام کی
نہ کاج کی دشمن صرف میرے بیٹے کے مال کی‘‘ وغیرہ وغیرہ۔
یہ جھگڑے جن کی ایک جھلک ہم نے یہاں پیش کی ہے، اکثر گھروں کا معمول ہیں۔
نہایت خوش قسمت ہیں وہ گھر جہاں اخلاقیات زندہ ہیں، چھوٹے اپنے بڑوں کی قدر
کرتے ہیں اور بڑے چھوٹوں سے محبت و شفقت کا سلوک کرتے ہیں۔ اس مزاحیہ خاکے
میں کتنے سبق پوشیدہ ہیں، یہ بات اہل نظر پر مخفی نہیں۔ اگر ہم میں سے ہر
ایک اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرلے اور دوسروں کے حقوق کی ادائیگی کی کوشش
کرتا رہے تو یقین مانئے کہ ہمارے گھر جنت کا نمونہ بن جائیں گے۔ ساس بہو کے
جھگڑوں میں جیت ہوتی ہے تو صرف شیطان کی، یا ان فتنہ پرور لوگوں کی جنہیں
اس طرح کے فسادات سے لطف ملتا ہے۔ |