خواجہ سرا اور معاشرتی رویے

معاشرتی رویے انسانی زندگی پر بڑے گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں یہ اچھے اور برے رویے انسان کے کامیاب اور ناکام بننے میں مدد گار ثابت ہوتے ہیں اسے ناکامیوں کی طرف دھکیل کر ایک ناکام انسان بنا دیتے ہیں۔کچھ لوگ توان معاشرتی رویوں سے سبق سیکھ کر جدوجہد کا راستہ اختیار کر تے ہوے کا میابی کی منزلیں طے کرکے معاشرے کومثبت رویے اپنانے پر قائل کرلیتے ہیں۔خواجہ سرا بھی ایک ایسا طبقہ ہے جو معاشرے منفی رویوں اور ستم ظریفوں کا شکار ہے۔معاشرہ انہیں اپنے برے رویوں کا نشانہ بنا کر نہ صرف اس طبقے کے ساتھ زیادتی کررہا ہے بلکہ وہ اﷲ تعالی کے فیصلوں کا بھی مزاق اڑا رہے ۔انہیں بھی اﷲ تعالی نے دوسرے انسانوں کی طرح پیدا کیا ہے۔اس میں ان کا اور ان کے والدین کا کوئی قصور ہے ۔جب سب کچھ اﷲ کی طرف سے ہے تو معاشرے کی یہ بے حسی اور ستم ظریفی کیوں۔ کومل افریدی کاتعلق اسی صنف سے ہے مگر اسے خواجہ سرا ہونے پر شرمندگی محسوس نہیں کیوں کہ اس میں اس کا کوئی قصور نہیں۔اس نے اس صنف کو اﷲ کا فیصلہ سمجھ کر تسلم کر لیا ہے وہ نہ تو مایوس ہے اور نہ ہی منہ چھپا کر معاشرے کے منفی رویوں کو مزید تقویت دے رہی ہے ا س نے معاشرے میں اپنی پہچان کے ساتھ مثبت کردار ادا کرنے کی کوشش کرنے کی جدوجہد کو اپنا اوڑنا بچھونا بنا لیا ہے اورخواجہ سرا کمیونٹی کیلئے معاشرے میں اچھے مقام کے لیے اپنی این جی او کے پلیٹ فارم سے اپنے ائینی حقوق کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔ کومل کا کہنا ہے کہ خواجہ سرا بھی بالکل عام انسانوں کی طرح ہیں۔ میری طرح کے دیگر خواجہ سرا وں کوزندگی کے ہر قدم پر معاشرے کی بے حسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے مگر پھر بھی میں پراعتماد ہوں اور اپنی برادری کے معاشرے میں بہتر نام اور کردار کے لیے رول ماڈل کے طور پر مصروف عمل ہوں ۔ میں سمجتی ہوں کہ تیسری جنس کے بارے میں شعور و آگاہی کو عام کرنے سے ہماری برادری بھی عام افراد کی طرح زندگی گزارنے کا طریقہ سیکھ سکتی ہے۔حال ہی میں ٹرانس جینڈر پروٹیکشن بل منظور کیا گیا ہے جس کے مطابق ٹرانس جینڈر کو جنس کے تعین کیلئے میڈیکل بورڈ کے سامنے نہیں پیش ہونا پڑے گا اس طرح سے مارجن لائن کمیونٹی کے حقوق کے تحفظ کی طرح ان کی عزت نفس بھی محفوظ رہے گی کمیونٹی کے افراد پاسپورٹ اور ڈرائیونگ لائسنس حاصل کر سکیں گے۔انہیں نادرا کے پاس اپنی جنس کی تبدیلی کا اختیار بھی ہوگا۔ٹرانس جینڈر کو ہراساں کرنے والے افراد کے خلاف بھی کارروائی ہو گی۔تعلیمی اداروں میں ان کے ساتھ کسی قسم کی تفریق رواں نہیں رکھی جائے گی۔ہسپتالوں میں خواجہ سراؤں کو دیگر افراد کی طرح یکساں طبی سہولیات فراہم کی جائیں گی۔پراپرٹی کی خریدوفروخت اور مکان کرایہ پر حاصل کرنے کا انہیں پورا حق حاصل ہوگا۔ حکومت ان کیلئے محفوظ گھر بنانے کے ساتھ ساتھ صحت کی تمام سہولیات فراہم کرے گی۔جیلوں میں خواجہ سراؤں کیلئے الگ بیرکس ہونگے۔انہیں اپنا کاروبار کرنے کیلئے آسان شرائط پر قرض دیا جائے گا۔ واراثت میں بھی انہیں حصہ دیا جائیگا۔ صوبائی و قومی انتخابات میں نہ صرف ٹرانس جینڈر ووٹ دے سکیں گے بلکہ بطور امیدوار حصہ بھی لے سکیں گے۔ٹرانس جینڈر بل کی منظوری کے بعد خیبر پختونخواہ میں 15ٹرانس جینڈرز کو ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ڈرائیونگ لائسنس جاری کئے گئے ہیں۔ٹرانس جینڈر مذکورہ بل کی منظوری کے بعد مطمئن ہیں کہ اب انہیں ان کی شناخت مل چکی ہے جس کے باعث اب وہ معاشرے میں اپنی محنت سے اعلی مقام حاصل کر سکتے ہیں۔

بلوچستان کی مخلوط حکومت میں شامل اکثریتی پارٹی بلوچستان عوامی پارٹی نے انتخابات سے قبل معاشرے کی کمزو ر طبقے خصوصا خواجہ سراروں کی سماجی اور معاشی حالت بدلنے کے لیے عملی اقدامات اٹھانے کا وعدہ کیا تھا اور خواجہ سراوں کو مین سٹریم میں لانے کے لیے پارٹی میں ٹرانس جنڈر وینگ بنانے کا بھی عندیہ دیا تھا۔اپنی پارٹی کے انتخابی وعدے پر حکومت میں انے کے بعد کی جانے والی پیش رفت بارے بتاتے ہوے پارٹی کے سیکرٹری اطلاحات چوہدری شبیر نے کہا کہ بلوچستان عوامی پارٹی نے حکومت میں اتے ہی خواجہ سراوں کی شناخت اور ویلفیر کے لیے عملی اقدامات کا اغاز کر دیا ہے اس سلسلے میں محکمہ سوشل ویلفیر نے خواجہ سراوں کی رجسٹریشن اور دیگر امور کی انجام دہی کے لیے صوبے کی ٹرانس جنڈر پالیسی بنانے کے کام کا آغاز کردیا ہے صوبائی سطح پر پالیسی بنے کے بعد ویلفیر کی منصوبہ بندی کی جاے گی ۔اس کے ساتھ ہی حکومت بلوچستان نے خواجہ سراوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے اعلی سطحی کمیٹی کانوٹیفیکشن کر دیا ہے۔ انشااﷲ خواجہ سراوں کے معاشی اور سماجی حقوق کی فراہمی کا اغاز بلوچستان عوامی پارٹی کی حکومت کے پہلے سال میں ہی ہوجائے گا ۔

حکومت بلوچستان کے چھ نومبر کو جاری کردہ نوٹیفکیشن نمبر 2-9/SW/2018/675-692( coord)so کے تحت چیف سیکرٹری بلوچستان کی سربراہی میں پندرہ رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے ۔کمیٹی کے سیکرٹری کے فرایض سیکرٹری سوشل ویلفیر ادا کریں گے۔جب کہ ممبران میں سیکرٹری داخلہ اینڈقبائلی امور۔سیکرٹری صحت۔سیکرٹری زکواۃ عشر۔سیکرٹری وومین ڈولپمینٹَ ۔ڈی جی نادرا۔یواین وومین بلوچستان کی ہیڈعایشہ ودود۔ہوم نیٹ پاکستان (بلوچستان )کی کوارڈینٹر صایمہ جاوید۔عورت فاونڈیشن کے عبداﷲ خلجی ۔لیجنڈسوسایٹی کی سینر پروگرام کورڈینٹر رفحت۔قمرانساء ایڈوکیٹ۔نماندہ ٹرانس جنڈر کومل افریدی۔نیشاء بلوچ۔طفیل الیاس عرف غزالہ شامل ہیں ۔یہ کمیٹی بلوچستان میں خواجہ سراوں کوشناختی کارڈ کے حصول کے لیے ون وینڈواپریشن کی سہولت کی فراہمی کو یقینی بنانے کے ساتھ ویلفیرکی حکمت عملی طے کرے گی ۔

سیکرٹری سوشل ویلفیئر نورلحق بلوچ نے خواجہ سراؤں کی شناخت اور ویلفیئر کی اہمیت پر بات کرتے ہوئے کہا کہ قومی اسمبلی میں 19مئی2018کوخواجہ سراؤں کی شناخت اور ویلفیئر کے لیے پاس کردہ ایکٹ پر عملدرآمد کو تیز کرنے کے لیے سپریم کورٹ کی قائم کردہ کمیٹی کی جانب سے ارسال کردہ مسودہ کی روشنی میں چیف سیکرٹری بلوچستان کی سربراہی میں پندرہ رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔میں بطور سیکریٹری سوشل ویلفیئر کمیٹی کے سیکرٹری کے طور پر فرائض انجام دوں گا۔کمیٹی میں صحت تعلیم۔داخلہ کے سیکرٹریز سمیت ڈی جی نادرہ۔ہوم نیٹ پاکستان بلوچستان۔عورت فاؤنڈیشن۔لینجڈ سوسائٹی۔اور خواجہ سراؤں کے نمائندوں کو شامل کیاگیا ہے۔کمیٹی صوبے کے تمام خواجہ سراؤں کے شناختی کارڈز بنانے کے لیے ون وینڈو اپریشن کو عملی جامہ پہناے گی۔اس اعلی سطحی کمیٹی ضلعی سطح پر کمیٹیوں کے قیام اور ان کی کارکردگی کی نگرانی کریگی۔شناختی کارڈز بنانے کے ساتھ کمیٹی بلوچستان ٹرانس جنڈر پالیسی بھی مرتب کرئے گی۔پالیسی کی روشنی میں خواجہ سراؤں کی ویلفیئر اور حقوق کے تحفظ پر عملدرآمد کرانے کا طریقہ کار وضع کرے گی۔
ثمینہ سعیدسابق رکن صوبائی اسمبلی کہا کہ : یہ ایک انتہائی اہم یشو ہے

معاشرتی بگاڑکو ختم کرنے کے لیے قانون سازی بہت تاخیر سے ہوئی ہے ۔اس حوالے سے یہ بات بھی بہت افسوس ناک ہے کہ ان کے خاندان والے بھی انکی اہمیت کو نہیں سمجتے اور ان کو لوگوں سے چھپا کر رکھتے ہیں۔ ان کی رجسٹریشن نہیں کراتے اور ان کے ساتھ ناروا سلوک روا رکھا جاتا ہے َا ہراسمنٹ کے بہت سارے واقعات رونما ھو چکے ہیں جس پر ارباب اختیار نے کوئی ایکشن نہیں لیا ۔ اب قانون تو اچھا بن چکا ہے مگر قانوں پر عملدرآمد ایک بڑا چیلنج ہے ا اس کو بھی دیکھنے کی ضرورت ھے اور سب سے اہم بات جو لوگوں کو سمجھانے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ جینڈر کا انتخاب لوگوں کے اپنے بس میں تو نہیں ہوتا یہ اﷲ کی طرف سے ہوتاہے پھر معاشرے کو کیا اختیار اور حق حاصل ہے کہ ان کو برا سمھجا جائے ۔ان پر باتیں کی جاہیں ۔ معاشرے کے دیگر لوگوں کی طرح تیسری صنف کو بھی تعلیم اور روز گار کا حصول ممکن بنانا حکومت کی زمہ د اری ہے ۔ان کے والدین کی کونسلنگ کی جائے اور معاشرے کے تمام طبقات کو بھی یہ بات سمجھائی جائے۔ : ٹرانس جنڈر کو دیگر انسانوں کی طرح معاشرے میں باعزت مقام دیلانے کے لیے تمام زمہ دار حلقوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا ۔ میری سب لوگوں سے یہ گزارش ہے کہ اگر آپ کے گھر خواجہ سرا جنم لیتا ہے تو براہ مہربانی ان کو سمجھئیے. ان پر غصہ نہ کریں اور ان کو نہ مارے ورنہ وہ گھر سے بھاگ جایئں گے۔اور معاشرے کے جبری طے کردہ کردار کو ادا کرنے لگ جائے گے ۔علما ء اکرام کو ان کو اﷲ تعالی کی جانب سے دی گی حثیت اور حقوق کے بارے میں جمعہ کے خطبات میں عوام کو اگاہ کرنا چائے ۔

خواجہ سراوں کی صحت اور رجسٹریشن کے مسائل کو حل کرنے کا پروگرام چلانے والی غیر سرکاری تنظیم لیجنڈ سوسائٹی کی سینر پروگرام مینجر مس رفعت نے بتایا کہ خواجہ سراہمارے معاشرے کا انتہائی ستایا ہوا طبقہ ہے جو معاشرے کے جبری مسلط کردہ کرداروں کو مجبورا نبھا رہاہے ۔ پیدا ہوتے ہی خواجہ سرا وں کو اپنے وا لدین کے غیر انسانی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔عمر بڑھنے کے ساتھ ان کے مسائل میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے ۔تعلیم اور روزگار کے ذرائع نہ ہونے کی وجہ سے ان کے ساتھ ہونے والی نا انصافی میں کمی نہیں ا رہی کوئٹہ میں خواجہ سرا بھیک مانگنتے ہیں ۔ گھروں سے نکالے جانے کے بعد ان کو سر چھپانے کے لیے گروں کا سہارا لینا پڑ تا ہے ۔گرو ان سے طرح طرح کے کام کرواتے ہیں ناچ گانے کے لیے ان کی بکنگ ہوتی ہے ۔ان کی شناخت کرنا مشکل ہے کیوں کہ یہ لوگ میڈکل ٹیسٹ کروانے پر امادہ نہیں ہوتے ۔اس وجہ سے ان کی اڑ میں بے شمار نارمل افراد جعلی طور پر خواجہ سرا بنے ہوے ہیں ۔ہمار ادارہ خواجہ سراوں کے رویوں کوکونسلنگ کے ذریعے تبدیل کرنے کے ساتھ ان کے ٹیسٹ کرواتا ہے ایڈز کی علامات ظاہر ہونے پر ان کا علاج بھی کرایا جاتا ہے۔ ایک سو خواجہ سراوں کے ایڈز کے ٹیسٹ کے بعد دس ایڈز پازٹیو کیس سامنے اے ہیں اب ان کا علاج کروانا بھی ایک چیلنج ہے ۔میں نے خود گلی گلی محلے محلے جا کر ان کو تلاش کیا ہمارے ساتھ 120خواجہ سرا ر رجسٹر ہوچکے ہیں َچیف سیکرٹری کی سرابراہی میں تشکیل دی جانے والی کمیٹی خواجہ سراوں کے شناختی کارڈ بنانے کے عمل میں حائل مشکلات کو ختم کرنے کے لیے معاون ثابت ہوگی ۔

نادرا ایگزیگٹو سنٹر ماڈل ٹاون کے مینجر نے کہا کہ پہلے نادرا کے رولز میں دو جنڈر شامل تھے لیکن اب تیسری جنس کا اضافہ کر دیا گیا ہے ۔اب کو ئی بھی ٹرانس جنڈر کسی بھی نادار رجسٹریشن سنٹر جا کر با اسانی اپنا شناختی کارڈ بنوا سکتا ہے ۔اپنی جنس کے بارے میں ان کو پوری ازادی ہے کہ وہ شی میل یا ہی میل کے طور پر شناخت درج کرواہیں ۔ مجھے نادرا میں کام کرتے ہوے سولہ سال ہوچکے ہیں مگر میرے سامنے اج تک کوئی خواجہ سرا شناختی کاردڈبنوانے نہیں ایا ۔اس کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں ۔ایک تو بلوچستان میں ان کی ابادی انتہائی کم ہے ۔دوسرا ابھی تک ان کو اپنے حقوق اور شناخت کی اہمیت کا علم نہیں ہے ۔

کومل آفرید ی کوئٹہ میں خواجہ سراوں کے تحفظ اور بہتر زندگی کے لیے مصروف عمل ہیں۔ ٹرانس جنڈر کے تحفظ اور بہتر معاشرتی کردار کے لیے کام کرنے والی شی میل کومل آفریدی نے کہا کہ مردم شماری میں پیش کردہ ٹرانس جنڈر اعدادوشمار درست نہیں ہیں۔2017کی مردم شماری میں ملک بھر کے صرف دس ہزار خواجہ سراؤں کی رجسٹریشن کی گی ہے۔جبکہ میرے اندازے کے مطابق پاکستان میں دو لاکھ سے زیادہ خواجہ سرا قومی اسمبلی کے پاس کردہ ایکٹ پر عملدرآمد کے منتظر ہیں۔شناختی کارڈ بنانے کا طریقہ اب بہت آسان ہوچکا ہے نادرا سٹاف اب تعاون بھی کرتاہے ۔یہ کرایڈیٹ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو جاتا ہے جنہوں نے پاکستان کے ٹرانس جنڈر کو پہلی مرتبہ ملک کے شہری ہونے کا آساس دیلایا۔ان کے حکامات کے بعد نادرا نے ہمارے شناختی کارڈ بنانے کا عمل شروع کیا تھا

لیکن حالیہ طریقہ کار میں ترمیم کرنے کی ضرورت ہے آج کل کوئی بھی نارمل شخص بطور خواجہ سرا شی میل یا ہی میل کے اپنی رجسٹریشن کروا سکتا ہے۔جو کہ خواجہ سراؤں کا استحصال کرنے کے مترادف ہے۔این جی او سے گلہ کرتے ہوے کومل نے کہا کہ سب کی اپروچ پروجیکٹ بیس ہے ہماری مسائل کو کم لوگ ہی حل کرنا چائتے ہیں ہمار ا روزگار ابھی تک وہی پرانا ہے ۔لوگوں کے گھروں میں خوشی کے موقع پر جاکر گانا اور ان سے پیسے لینا۔یہ روزگار کرنے پر ہمیں معاشرے نے مجبور کر رکھا ہے۔اس کے علاوہ کسی دوسرے شعبے میں اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے کی ابھی تک ازادی نہیں ہے۔سپریم کورٹ کی کمیٹی کی ہدایت پر چیف سیکرٹری بلوچستا ن کی سربراہی میں پندہ رکنی کمیٹی بنائی گی ہے مگر افسوس محکمہ سوشل ویلفیر نے نیشا بلوچ نام کے خود ساختہ خواجہ سرا کو شامل کیا ہے جس پر میں نے بطور احتجاج کمیٹی کی میٹینگ میں نہ جانے کا فیصلہ کیا ہے ۔اپنیبرادری کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کا حصہ ہرگز نہیں بن سکتی ۔خواجہ سراوں نے ملکی سطح پر بے شمار قربانیاں دے کر اپنی برادری کے مستقبل کو بہتر ی کی طرف لے جانے کی راہیں ہموار کر لی ہیں ۔اب وہ وقت دور نہیں جب ہر شعبے میں خواجہ سرا اپنا متحرک کردار ادا کرتے نظر آہیں گے۔اور وطن عزیز پاکستان اور اپنے صوبے بلوچستان کی ترقی و خوشحالی میں معاشرے کے دیگر خواتین و حضرات کی طرح خواجہ سرا بھی اپنا مثبت کردار کرتے نظر اہیں گے۔

مذہبی اسکالر اور رکن اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان قاری عبدالرشیدنے کہا کہ خواجہ سرا بھی ہماری طرح اﷲ تعالی کی مخلوق ہیں ۔یہ اﷲ تعالی کی قدرت ہے کہ وہ کسی کو لڑکیاں دیتا ہے کسی کو لڑکے دیتا ہے اور کسی کو بے اولاد رکھتا ہے کسی کو لڑکی اور لڑکے دونوں کی خصوصیات والے خواجہ سرا دے دیتا ہے ۔اس میں انسان کا کوئی عمل دخل نہیں ہے ۔یہ سب اﷲ تعالی کی تقسیم ہے۔اﷲ تعالی نے ہی سب انسانوں کو پیدا کیا ہے۔اﷲ تعالی نے تمام انسانوں کی طرح خواجہ سراوں کے بھی حقوق رکھے ہیں ۔اگر خواجہ سرا میں زیادہ صفات لڑکوں والی ہیں تو اسے لڑکوں کے حقوق ملیں گے۔اور اگر زیادہ خصوصیات لڑکیوں والی ہیں تو لڑکیوں کے حقوق ملیں گے۔لیکن ہمارے معاشرے میں قانون کی بالادستی نہ ہونے کی وجہ سے ان کو ان کے شرحی حقوق نہیں مل پا رہے ۔اسلامی نظریاتی کونسل نے اپنی سفارش حکومت کو بجوا دی ہےء جس میں حکومت سے کہا گیا ہے کہ صفات کو دیکھتے ہو ے خواجہ سراوں کو اﷲ تعالی کی طرف سے دیے گے حقوق دیے جاہیں اور اس میں حائل ہونے والوں کو سخت سزاہیں دی جاہیں۔علماء اکرام اور معاشرے کے تمام شعوبوں کی متحرک شخصیات کو ساتھ لے کر ملکی سطح پر اگائی مہم چلانے کی ضرورت ہے ۔میڈیا بھی اس مہم میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔قومی اسمبلی کے ایکٹ میں خواجہ سراوں کو مستقبل میں جعلی خواجہ سراوں کے استحصال سے بچانے کے لیے شناختی کارڈ بنانے کے لیے میڈکل رپورٹ کو ضروری قرار د یا جائے۔19مئی 2018 کو قومی اسمبلی سے پاس ہونے والے( ٹرانس جنڈر پروٹیکشن)ایکٹ کے پاس ہونے کے بعد سینٹ کی پانچ رکنی کمیٹی نے سینٹر کریم خواجہ کی سرابراہی میں ایکٹ کا جائزہ لینے کے بعد ایکٹ کوسینٹ اف پاکستان نے منظور کر لیا۔ سینٹ کی خصوصی کمیٹی میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والی سینٹرز روبینہ عرفان کلثوم پروین سمیت سینڑ ثمینہ سعید اور روبینہ خالدشامل تھیںَ۔خواجہ سراوں کے حقوق کے تحفظ کے ایکٹ کے پاس ہونے سے صدیوں سے معاشرے کے جبر اور غیر انسانی سلوک کا سامنا کرنے والے ملک کے انتہائی کمزور طبقے خواجہ سرا وں کو معاشرے میں اپنا کھویا ہو مقام ملنے کی امید روشن ہو گی ہے ۔امید ہے علما ء اکرام اور سول سوسائٹی کی متحرک تنظیمیں اور شخصیات عوام میں شعور و اگاہی فروغ دینے میں اپنا کردار ادا کریں گی-

Imtiaz Ahmad
About the Author: Imtiaz Ahmad Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.