آج ساری دنیا میں نماز روزہ زکوٰة اور دیگر احکام اسلام
کی اشاعت اور پابندی کے لئے اللہ کے کچھ بندے کوشاں بھی ہیں اور عامل بھی
مگر اس کے باوجود امت کے اندر ایک بڑا طبقہ وہ بھی ہے جو یہ سب کچھ جانتے
ہوئے بھی دین سے نہ صرف دور بلکہ کافی حد تک بیزار نظر آتا ہے ۔ امت کا
طبقہ وہ بھی ہے جس نے صرف عقائد اور عبادت کو دین سمجھ لیا اور اپنے نجات
اسی میں منحصر سمجھی اور ایک طبقہ نے ایک قدم اور آگے رکھ کر معاملات کو
بھی اس میں ملا لیا ،پھر کچھ لوگوں نے اخلاقیات کی اصلاح بھی ضروری سمجھی ۔مگر
ایک جز ایسا ہے جو اگر یہ کہا جائے کہ ان سب کو عملی جامہ پہنانے کی بنیاد
ہے تو شاید جھوٹ نہ ہوگا ،وہ ہے معاشرہ کی اصلاح ،ہر طرف سے ایک چیخ
وپکارہے ایک وا ویلا ہے ایک دوسرے کی نفرت ہو رہی ہے بھائی بھائی کا دشمن،
پڑوسی پڑوسی سے نالاں ،استاد شاگر سے پریشان، ماں بیٹی پر خفا،ذات پات کی
اونچ نیچ،اس تقسیم اور بگاڑ کے جہاں اور سبب ہیں ان میں ایک بڑا سبب یہ
سوءمعاشرہ ہے کیونکہ اس سے ایک کو دوسرے سے کدروت وانقباض ہو تا ہے انبساط
وانشراح کا اعظم مدار ہے ۔
حدیث پاک میں ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھینک آتی تو اپنے
منہ کو ہاتھ یا کپڑے سے چھپالیتے اور آواز کو پست فرماتے ،اس سے یہ معلوم
ہوا کہ مجلس میں اتنی زور سے بھی آواز نہیں اٹھا نی چاہے کہ جس سے دوسروں
کو اذیت پہنچے ۔ابتدائے اسلام میں جمعہ کے دن غسل کر نا واجب تھا بعد میں
یہ وجوب منسوخ ہو گیا ۔مگر مسنون اب بھی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ جمعہ کے دن
عام طور پر بھیڑ ہوتی ہے اگر لوگ یوں ہی میلے کچیلے کپڑوں میں آئے جن میں
بد بو ہو تو لوگوں کو تکلیف ہو گی اس لئے حکم ہوا کہ غسل کر کے آیا کرو۔
بعض آدمی صاف بات نہیں کہتے بلکہ تکلف کے کنایات استعمال کرتے ہیں اور اسی
کو ادب سمجھتے ہیں اس سے فی الحال یا فی الماٰل پریشانی ہوتی ہے اس لئے بات
صاف اور واضح کرنی چاہیے اس سے وقت بھی بچتا ہے اور پریشانی بھی نہیں ہوتی۔
بعضے آدمی چپ چاپ آکر پشت کے پیچھے بیٹھ جاتے ہیں اور مخاطب کو معلوم بھی
نہیں ہوتا کہ اس کے پیچھے کوئی بیٹھا ہے یہ مجلس کی خیانت ہے ۔ بعض آدمی
مسجد میں ایسی جگہ نیت باندھ لیتے ہیں کہ گذرنے والوں کا راستہ بند کر لیتے
ہیں مثلا دوازے کے سامنے یا بالکل دیوار سے مل کر کہ گذرنے والا سامنے سے
تو گذر نہیں سکتا اگر گھوم کر آتا تب بھی اس کی پشت سے جانے کا راستہ نہیں
ہے اب یا تو گناہ کر کے سامنے سے گذرے گا اور یا پھر بلا وجہ اس کے انتظار
میں اندر ہی اندرکڑھتا رہے گا ۔
کسی ایسے شخص سے کوئی ایسی چیز مت مانگو کہ جس کے بارے میں معلوم ہو کہ یہ
دے گا نہیں مگر مجھے انکار بھی نہیں کرسکتا اگر چہ یہ مانگنا قرض ہی کیوں
نہ ہو ،آپ کے لحاظ میں آکر وہ مجبور ہو گا اسی طرح کسی کی سفارش بھی مت کرو
جہان لگتا ہو کہ یہ میرے سامنے شرما حضوری میں یہ کام کرے گا مگر یہ کام
کرنا نہیں چاہتا ایسی کاموں میں آج کل بہت بے احتیاطی ہو رہی ہے ۔
(محمد عثمان چانداندا ،وفاقی ارُدو یونی ورسٹی ))
|