خواتین پر تشدد

کسی بھی انسان کو بنیادی حقوق سے محروم کردینے کا عمل تشدد کہلاتا ہے ۔ آج ترقی یافتہ دور میں بھی ہر تیسری عورت تشدد کا شکار ہے۔ موجودہ دور کا ہر انسان بے شمار وسائل کے جال میں جکڑا ہواہے۔ لوگوں میں جذباتیت اتنی بڑھ گئی ہے کہ بعض اوقات اپنے ہوش کھو کر کچھ ایسا کر بیٹھتے ہیں کہ بعدازاں پچھتاوا ان کا مقدر بن جاتا ہے۔ عورتوں پر تشدد اس معاشرعے کا انتہائی دردناک المیہ ہے۔ اس سے زیادہ دردناک اور تلخ ناک المیہ یہ ہے کہ اس تشدد کی ابتدا گھر کے ہی منفی رویوں سے ہوتی ہے۔ عورت جو ماں ہے ، بہن ہے، بیوی ہے، بیٹی ہے ، اس کے وجود کو بے بنیاد نظریات کی بنا پر ظلم کانشانہ بنا دیا جاتا ہے۔ عورتوں کے ساتھ مار پیٹ گالی گلوچ ، بے جا پابندیاں ، ذہنی دباؤ، بنیادی ضروریات کی غیر فراہمی ، بیٹویں کی زبردستی شادی، گھریلو تشدد کے زمرے میں آتی ہیں۔ آج کل تقریبا ہر گھر میں موجود عورت گھریلو تشدد کا شکار ہو رہی ہے۔ جس کی بنیادی وجہ معاشی پریشانی ہے۔ اس کے علاوہ غربت اور تعلیم کی کمی بھی اسکی شرح میں اضافہ کرنے میں ایک اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ گھریلو تشدد ایک ایسے جراثم کی مانند ہے جو ختم ہونے کے بجائے بڑھتا چلا جارہا ہے عورت پر تشد د نہ صرف ایک ظلم بلکہ جرم کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کی خلاف ورزی بھی ہے۔

اگر اسلامی رو سے دیکھیں تو اسلام نے ہی ایک عورت کے حقوق ایک مرد کے مساوی کئے اور عورت کو یہ مقام عطا کیا کہ اگروہ بیٹی ہے تورحمت،اگر بیوی ہے تو شوہر کے نصف ایمان کی وارث اور اگر ماں ہے تو اس کے قدموں تلے جنت۔ لیکن ان تمام رتبوں کے باوجود کہیں اس پر تیزاب پھینکا جا رہا ہے تو کہیں اس کی عزت کو اچھالا جا رہا ہے کہیں وہ غیرت کے نا م پر قتل ہو رہی ہے تو کہیں اسے سرِعام تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ کہ عورتوں کے مردوں پر ایسے ہی حقوق ہیں جیسے مردوں کے عورتوں پر اچھے سلوک کے ساتھ۔ ۔۔ایک اور جگہ ارشاد ہے کہاور اچھے سلوک سے عورتوں کے ساتھ ذندگی بسر کرو۔ (سورہ النساء)

عورتوں کے ساتھ ظلم وزیادتی اور اس کے حقوق کی خلاف ورزی زیادہ تر مسلم معاشرہ کا وہ طبقہ کرتا ہے جو علم سےدور ہوتا ہے۔ وہ یہی سمجھتاہے بیوی کی حیثیت ایک نوکرانی جیسی ہے۔ اس سے جیسے چاہو کام لو۔ اسلام ميں جو مقام عورت كو حاصل ہے اس كا وجود كسى اور مذہب ميں نہيں ہے اسى لئے اس كى حفاظت ،عزت اور قدر كرنا معاشره كے ہر فرد پر لازم ہے۔ اب ضرورت اس امرکی ہے کہ تعلیم اداروں میں طالب علموں اور خاص طور پر طا لبات کو کھل کر تعلیم دینا چاہیے تاکہ وہ گھریلو تشدد کی شکار نہ ہوں۔انہیں قانونی علم کے بارے زیادہ سے زیادہ معلومات دینا مناسب ہوگا۔

Warisha Masood
About the Author: Warisha Masood Read More Articles by Warisha Masood: 3 Articles with 2190 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.