فن لینڈ کا تعلیمی نصاب:۔فن لینڈ میں نصاب تعلیم بہت
مختصر رکھا جاتا ہے۔فن لینڈ کے طلبہ دنیا کے ان خوش نصیبوں طلبہ میں شامل
ہیں جنھیں دنیا میں سب سے کم ہوم ورک دیا جاتا ہے۔یومیہ ایک طالب علم کو
زیادہ سے زیادہ آدھے گھنٹے کا ہوم ورک کرنا ہوتاہے۔بچوں کی پوشیدہ تخلیقی
صلاحیتوں کو اجاگر کرنا تعلیمی نصاب کا اہم مقصد ہوتا ہے۔کسی بچے کے ساتھ
امتیازی سلوک نہیں کیا جاتا ۔ہر بچے کی عزت نفس کا بطور خاص خیال رکھا جاتا
ہے۔بچوں کو دیکھنے ،سوچنے ،سمجھنے کی تربیت دی جاتی ہے۔دیکھے،سمجھے،سوچے
اور سیکھے تجربات کو اپنے الفاظ میں پیش کرنا سیکھایا جاتا ہے۔ہمارے تعلیمی
اداروں میں بچے رٹے لگانے پر مجبور ہیں اگر کوئی طالب علم اپنے الفاظ میں
کسی سوال کا جواب دینے کی کوشش کرتا ہے تو اساتذہ کی طبیعت پر یہ بات بہت
گرا ں گزرتی ہے اور طلبہ سے فرمانے لگتے ہیں ’’زیادہ عقلمندی دیکھنے کی
کوشش مت کرو‘‘۔ہمیں اپنے نصاب کی تیاری اور تعلیمی پالیسی سازی کے وقت ایسے
لوگوں سے رہنمائی اور مشاورت کرنی ضروری ہے جو اپنے اور دیگر ممالک کے
تعلیمی نظام کا علم رکھتے ہوں۔فن لینڈ کے نصاب اور نظام تعلیم کے روشنی میں
ہمارے تعلیمی نظام میں اصلاح کیسخت ضرورت ہے۔فن لینڈ کے اسکولوں میں
امتحانات لینا یا دس منٹ سے زیادہ دورانیے کا ہوم ورک دینا ممنوع ہے۔فن
لینڈ کے ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ امتحانات لینا اور ضرورت سے زیادہ ہوم
ورک دینے سے طلبہ کی تخلیقی صلاحیتیں سلب ہوجاتی ہیں۔فن لینڈ کی طرح جاپان
نے بھی اپنے طلبہ کی تخلیقی صلاحیتوں کے فروغ اور تعلیم کو دباؤ سے پاک
بنانے کی بہترین کوشش کی ہے۔ابتدائی عمر میں بچے تعلیم کے دباؤ کا شکار
نہیں ہوتے ہیں اور اپنے بچپن کے خوب مزے لیتے ہیں۔
جاپان کا نظام تعلیم:۔ ترقی یافتہ دنیا کے تعلیم نظام کا مجموعی طور پر
جائزہ لیاجائے اور اس کا ہمارے ملک کے تعلیمی نظام سے تجزیہ و موازنہ کیا
جائے تو یقیناہمارا تعلیمی نظام بچوں کے لئے ایک ناخوش گوار تجربے سے کم
نہیں ہے ۔ روایتی تعلیم کی ہمارے ملک میں ابتدا ہوکر ایک سو پچیس سال سے
بھی زیادہ عر صہ ہوچکا ہے لیکن آج بھی ہم اپنے تعلیمی نظام کا دیگر ممالک
کے تعلیمی نظاموں سے تجزیہ و موازنہ کرنے سے قاصر ہیں ۔اپنے تعلیمی نظام کو
بہتر اور طلبہ کے لئے آسان و مفید بنانے کے لئے ہمیں دیگر ممالک کے تعلیی
تجربوں سے استفادہ کرنے کی ضرورت درپیش ہے تاکہ ہم اپنے تعلیمی نظام کو
بہتر اور نئی نسل کے مستقبل کو روشن و محفوظ کر سکیں۔دوسری عالمی جنگ میں
عبر ت ناک شکست اور ہولناک تباہی کے بعد جاپان نے دیگراقوام کے نظام تعلیم
کے محاسن پر اپنی توجہ مرکوز کی اور بے مثال ترقی کی۔جاپانی مصنف کینزا
بردادی جاپان کی تعمیری ارتقاء کے بارے میں رقم طراز ہے’’ہم مغربی ثقافت
میں گردن تک ڈوبے ہوئے ہیں لیکن ہم نے ایک چھوٹا بیج بویا تھا اور جس طرح
بیج کی جڑیں زمین میں پیوست ہوتی ہیں اور وہ پھلتا پھولتا ہے اسی طرح ہم نے
بھی خود کو از سر نو تخلیق کیا ہے۔‘‘جاپان کا تعلیمی سفر دیگر ممالک کی بہ
نسبت بہت بعد میں شروع ہوالیکن اس نے تعلیمی میدان میں دیگر ممالک کو بہت
پیچھے چھوڑدیا ہے۔جاپان میں سوالات کے جوابات کی تیاری ،رٹہ بازی اور نہ ہی
دانشورانہ پیمانے و فلسفیانہ ضابطے تعلیمی اساسیات کا حصہ ہیں۔امریکی مصنف
پیٹرک اسمتھ(Patrick Smith) (1927-2014)اپنی کتاب جاپان،ایک نئی
تفہیم(Japan,A Reinterpretaion)میں جاپانی اسکولوں کے اپنے تجربے اور
مشاہدات بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے ــ’’میں جس اسکول میں بھی گیا ،وہاں
سیکھنے کے لبرل اصول پر ہی عمل کیا جارہاتھا۔منامی مڈل اسکول چلانے والے تو
شیوعجیما کا کہنا ہے کہ ’’سچائی فقط سائنسی حقیقت نہیں ہے۔اس کا مشاہد ہ
بھی کیا جاسکتا ہے کہ کوئی شخص اپنی روز مرہ کی زندگی میں سچائی تک کیسے
پہنچ سکتا ہے۔ہم چاہتے ہیں کہ طلبہ فطرت میں مسائل تلاش کریں اور انھیں حل
کریں‘‘اسکائی ایلمینٹری اسکول کے یوحسونو کا کہنا ہے کہ ’’میری ذمہ داری
طلبہ کو ایسے بالغ افراد میں ڈھالنا ہے جو قوم کی مدد کرسکیںْمیرا بنیادی
اصول یہ ہے کہ ہر شخص کچھ نہ کچھ کردار ادا کر سکتا ہے۔‘‘فن لینڈ اور
جاپانی نظام تعلیم کے تنا ظر میں دیکھا جائے تو کیا ہمارا تعلیم نظام شعور
اجاگر کر رہاہے؟ہمارے ماہرین تعلیم جو نصاب تیار کررہے ہیں کیا یہ ایک
باشعور معاشرے کی تعمیر و تکمیل میں معاون ثابت ہوسکتا ہے؟جاپان کی تمام
ترقی کا صرف ایک ہی لفظ میں احاطہ کیا جاسکتا ہے اور وہ ہے تعلیم
جاپان میں تعلیم سے پہلے تہذیب (Manners before Knowledge)کے رجحان کو خاص
اہمیتحاصل ہے۔یہاں بچے اپنے علمی سفر کا آغاز حروف کی رٹہ بازی کے بجائے
بہتر تربیت سے کرتے ہیں۔جاپان میں بھی فن لینڈ کی طرح ابتدائی رسمی
تعلیم(پرائمری ایجوکیشن) کا آغازسات سال کی عمر سیہوتا ہے۔رسمی اسکولی
تعلیم سے پہلے بچے کنڈر گارٹنس میں زیر تربیت رہتے ہیں جہاں انھیں قوم کی
خدمت کی اہمیت اور ذمہ داری کا در س اورتعلیم کے ذریعہ بحران پر کیسے قابو
نا سکھایا جاتاہے۔جاپانی تعلیم کا راز صرف تین نکات میں پنہاں ہے (1)تعلیم
کا مقصد تعمیر کردار(2)تعمیر ی شعبوں میں تعلیم و تخلیق(3)تعلیم بہ ذریعہ
شراکت داری اور یہ وہ اہم نکتہ ہے جس کے ذریعے طلبہ نہ صرف سیکھتے ہیں بلکہ
ایک دوسرے کو سکھاتے بھی ہیں۔اسکول سے بچوں کی شخصیت پر گہرے اثرات مرتب
ہوتے ہیں۔جاپان نے اسی وجہ سے اپنے اسکولوں میں ایسے طریقہ درس و تدریس ا
ور تعلیم و تربیت رائج کئے ہیں جو طلبہ میں ذہنی وسعت کے فروغ کے ساتھ ایک
اچھا انسان بننے میں ان کی بھر پور مدد کرتے ہیں۔جاپان کا تعلیمی نظام دنیا
کے بہترین تعلیمی نظاموں میں شمار کیا جاتا ہے۔بچو ں کا اسکول میں داخلے کے
چار سال بعد تک کوئی امتحان نہیں لیا جاتا۔ابتدائی چار سالوں میں اسکول
بچوں کی کردار سازی پر توجہ دیتے ہیں۔بچوں کو والدین ،اساتذہ،ہمسایوں،ہم
جماعت بچوں سے معاملات ،برتاؤ اور اخلاق سکھائے جاتے ہیں۔اپنے اسکول کے
ابتدائی چار سالوں میں بچے بڑوں کی عزت اور چھوٹوں سے شفقت اور انسانوں کا
اکرام اور جانوروں سے صلہ رحمی کا سبق سیکھتے ہیں۔ جاپانی طلبہ اور اساتذہ
کے درمیان گہرے روابط ہوتے ہیں اور ان کے درمیان بہت ہی کم فاصلہ ہوتا
ہے۔ابتدائی تین سالوں تک طلبہ کو کوئی روایتی تعلیم نہیں دی جاتی۔بچے اپنے
اسکول ،کمرۂ جماعت ،کینٹین اور بیت الخلاء کی خود صفائی کرتے ہیں۔اپنے
اسکول کی صفائی کے ذریعے بچوں میں صفائی کی اہمیت جاگزیں ہوتی ہے اس کے
علاوہ اپنے اور دوسروں کے کام کی عزت و قدر شناسی ان میں پیدا ہوتی ہے۔
جاپان میں ہرکمرۂ جماعت میں دویا اس سے زیادہ ٹیچرز بیک وقت موجود رہتے ہیں
تاکہ بچوں پر خاص توجہ دی جاسکے۔ہر کمرۂ جماعت میں کم از کم ایک
مددگار(اسسٹنٹ) ٹیچر ضرور ہوتا ہے۔بچوں کے اسکول بیگ میں صرف ایک آدھ کہانی
(اسٹوری) کی کتاب یا ایک یا دو ورک شیٹس پائی جاتی ہے ۔تمام نوٹ بکس اور
کاپیاں اسکول پر ہی رکھی رہتی ہیں۔ہر موضوع (ٹاپک) یا سرگرمی(ایکٹویٹی) کے
بعد بچوں کی استعداد کی جانچ کے لئے کوئز جیسی چھوٹی جانچ (assessment)کا
تصور پایا جاتا ہے۔ماہانہ ،سہ ماہی ،شش ماہی اور،سالانہ امتحانات نام کی
کوئی سرگرمی نہیں پائی جاتی جس کی وجہ سے بچے دباؤ سے پاک ماحول میں تعلیم
حاصل کرتے ہیں۔روایتی طرز تعلیم و تدریس کے لئے جاپان میں کوئی جگہ نہیں ہے
جہاں کلاس میں بچے اپنی اپنی کتاب کھولے استاد کی اکتاہ دینی گفتگو سنتے
جائیں ۔اس کے بجائے کوئی ویڈیو دکھاکر بچوں کی قوت فکر کو مہمیز کرنے والے
سوالوں کے ذریعے ان کو سلف لرننگ کی راہ پر ڈالا جاتا ہے جہاں وہ اپنے ہر
سوال کا جواب از خود دریافت کرلیتے ہیں۔روایتی تعلیم کے بجائے بحث و
مباحثوں کے ذریعے بچوں میں کرو اور سیکھو کا جذبہ پیدا کیا جاتا ہے۔ جاپان
کا تعلیمی نظام اپنی خوبیوں کی وجہ سے معروف ضرور ہے لیکن اپنے طویل اسکولی
دورانیہ کی وجہ سے ہدف تنقید بھی بنا ہوا ہے۔ فن لینڈ اورجاپان کے تعلیمی
نظام سے ہمیں بہت کچھ درس و تدریس اور تعلیم وتربیت کے گر سیکھنے کو ملتے
ہیں۔
تعلیم کو جبر اور اکتاہٹ سے پاک بنانے میں معاون تدابیر؛۔بچوں میں تعلیم و
اکتساب سے دلچسپی پید ا کرنے کے لئے روایتی طرز تعلیم و طریقہ تدریس سے
احتراز کی اشد ضرورت ہے۔اسکول کے اوقات کار میں تبدیلی نہ صرف طلبہ کے لئے
معاون و مفید ثابت ہوگی بلکہ اساتذہ کی کارکردگی میں بھی دباؤ کی کمی کی
وجہ سے نکھار پیدا ہوگا۔اسکول کے کھلنے کے اوقات میں انقلابی تبدیلی کی اشد
ضرورت ہے تاکہ بچے طوفانی انداز میں دن کا آغاز کرنے کے بجائے پر سکون
انداز میں گھروں سے اسکول کے لئے رخصت ہو سکیں۔ اسکول کے کھلنے کے اوقات
نوبجے سے ساڑھے نوبجے کے درمیان ہونا چاہئے۔ صبح میں مدارس کو ابتدائی
اوقات میں کھول دینے کی وجہ سے طلبہ متعدد مسائل کا شکار ہورہے ہیں۔سب سے
بڑا مسئلہ غذائیت اور نیند کی کمی کاہے۔سوا آٹھ بجے اور ساڑھے آٹھ بجے
اسکول پہنچنے کے لئے بچوں اور اساتذہ کو کم از کم ایک گھنٹہ سفر پر صرف
کرنا پڑتا ہے اور ایک گھنٹہ نکلنے سے پہلے کی تیاری پر۔ تجربہ کار سینیئر
اساتذہ جو اپنے علم و فن میں یکتا ہوتے ہیں لیکن بڑھتی عمر کی وجہ سے متعدد
عوارض و مسائل کا شکار بھی رہتے ہیں یہ اوقات ان کے لئے بھی ایک سنگین
مسئلہ کی شکل اختیار کرجاتے ہیں۔علی الصبح معصوم طلبہ تو کیا بڑی عمرکے
لوگوں میں بھوک کی اشتبہا سر نہیں اٹھتی ہے تو پھر کس طرح یہ معصوم جانیں
بغیر بھوک کے ناشتہ کھا پائیں گے۔ماں باپ کی ڈانٹ ڈپٹ پر چند لقمے زہر مار
لیتے ہیں۔نیند کی کمی سے مضمحل بچے جب اسکول پہنچتے ہیں تو پہلے اور دوسرے
پیریڈ میں ہی ان کی توانیاں سلب ہوجاتی ہیں۔تعلیم و تدریس میں اپنی توجہ
کھو بیٹھتے ہیں۔کمرۂ جماعت کے معمولات بھوک اور نیند کی کمی کے باعث ان کو
اکتاہٹ کی جانب مائل کر نے لگتے ہیں۔ناشتے کی کمی کی وجہ سے تحریر (ہائینڈ
رائٹنگ) خراب ہوجاتی ہے۔پنسل اور پین پر گرفت ٹھیک طور سے نہیں کر پاتے ہیں
جس کے نتیجے میں تحریر خراب اور بھدی ہوجاتی ہے۔
بچوں کو اسکول میں داخل کرنے کی عمر میں اضافے کی اشد ضرورت ہے ۔یہ ایک
ناقابل فراموش سچائی ہے کہ فہم ، ادراک اور شعور عمر کے ساتھ ترقی کرتے ہیں
۔بالکل اوائل عمری میں بچوں کو تعلیم میں جھونک دینے سے ان میں چند استعداد
یں ضرور فروغ پاتی ہیں لیکن اکتساب کی صلاحیتوں پر منفی اثرات مرتب ہونے کے
قوی امکانات پائے جاتے ہیں۔اوائل عمر ی میں بچوں کو روایتی و رسمی تعلیم کے
بجائے نشست و برخواست کے آداب ،گفت و شنید کے اصول ،تہذیب و تمدن ،سماجی و
معاشرتی اقدار کے فروغ کے سامان بہم پہنچانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ماحول اور
فطرت پر غورو خوض کی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے بعد روایتی و رسمی طرز
تعلیم کی طرف رخ کیا جاسکتا ہے۔رسمی اسکولس سے پہلے کنڈرگارٹن اور پری
اسکول کو نئی راہوں پر گامز ن کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ بچوں کو نوشت و
خواند کے بجائے معاشرتی علوم کی آگہی اور فطرت میں فکر و تدبر کی صلاحیتوں
کو پروان چڑھا سکیں۔ کتابوں اور بستے کے بوجھ کو کم کرنے کے ساتھ ہوم ورک
کی لعنت سے تعلیمی نظام کو پاک بنانے کی سخت ضرورت ہے۔ پرائمری کی ابتدائی
دو جماعتوں میں صرف ایک زبان (مادری زبان ہوتو بہتر ہے) اور دوسرا ریاضی کو
نصاب کا جزو بنایا جائے۔تیسری جماعت سے مطالعہ ماحول کا مضمون شامل نصاب
کیا جائے ۔چوتھی جماعت سے بین الااقوامی زبان(انگریزی) کی تدریس کااہتمام
کیا جاسکتا ہے۔زبانوں کا علم یقینا بہتر تعلقات کا نقیب ہوتا ہے لیکن بچوں
کو جب تک ان کی مادری زبان پر عبور حاصل نہیں ہوپائے گا دیگر زبانیں ان کے
لئے درد سر ،وبال جان اور کسی بوجھ سے کم نہیں ہوں گی۔پرائمری درجات کی
تکمیل کے بعد اضافی زبان سیکھنے میں دلچسپی رکھنے والے طلبہ کو چھٹویں
جماعت سے مقامی زبان یا کوئی اور زبان کے انتخاب کی سہولت فراہم کی جانی
چاہئے۔تین زبانوں کی تعلیم یقینا طلبہ کے لئے بوجھ کی شکل اختیار کر گئی
ہے۔ہمارے نصاب سے زبانوں کے بوجھ کو کم کرنے کی سخت ضرورت ہے۔بہتر فہم
،تفہیم و ادراک کی خاطر سرگرمیوں پر مبنی تدریس کی انجام دہی ضروری
ہے۔روایتی تدریس کے بجائے روزانہ ورکشاپس طرز کے 50تا 60منٹ کے تین اور
زیادہ سے زیادہ چار پیریڈس رکھے جائیں۔روزانہ کسی تین مضامین کی تدریس کا
اہتمام کیا جائے۔مضامین کی تدریس میں بچوں کی شراکت داری(Involvement)ٹیچر
سے زیادہ ہو۔کمرۂ جماعت میں استاد کم بولے ۔بچے کے لئے سرگرمیوں پر مبنی
کام زیادہ ہوں۔سرگرمیوں کی انجام دہی کے دوران طلبہ کی مسلسل ہمت افزائی کی
جائے۔ہر پیریڈ کے بعد 15تا20منٹ کا وقفہ فراہم کیا جائے۔ ہر روز بچوں کو
مطالعہ کی عادت کے فروغ کے لئے بچوں کو سائنس اور فکشن وغیرہ مبنی
رسائلفراہم کئے جائیں۔ غورو خوض اور بحث ومباحثے کے طریقے کو رواج دیا
جائے۔ اسکول کے کل اوقات کنڈرگارٹن کے لئے تین تا ساڑھے تین گھنٹے،پرائمری
جماعتوں کے لئے چار گھنٹے ،ثانوی درجات کے لئے چار تا ساڑھے چار گھنٹوں سے
زیادہ نہیں ہونے چاہئے تاکہ اسکول سے رخصت کے بعد طلبہ ایک دو گھنٹے آرام
کر سکیں۔شام میں ایک دو گھنٹے کھیل کود ورزش اور دیگر مشاغلوں میں صرف کر
سکیں۔طلبہ کی ہمہ جہت ترقی و نشو ونما کے لئے اسکول کے اوقات کار میں
تبدیلی بہت ضروری ہے۔
پرائمری درجات میں کسی بھی قسم کے امتحانات کے انعقاد سے گریز کیا
جائے۔بچوں کی استعداد کی جانچ اور ان کے فروغ کے لئے سرگرمیوں کے ذریعہ ان
کے اکتساب اور ذہنی ترقی کی پیمائش انجام دی جائے۔ ماہانہ ،سہ ماہی،شش ماہی
یا سالانہ امتحانات کے بغیر ہی ہر بچے کی انفرادی جانچ کے اختراعی و تخلیقی
اصول مرتب کیئے جائیں۔ جماعت میں درجہ اول دوم سوم کے اعلانات کے ذریعہ
بچوں کو احساس کمتری و ذہنی دباؤ کا شکار نہ کیا جائے۔ماں باپ بچوں کے
نشانات دیکھنے کے بجائے ان کے سیکھنے کی شرح پر نظر رکھیں۔والدین اگر ان کا
بچہ کسی دوسرے بچے سے پیچھے رہ گیا ہو تو سوال نہ کریں گے بیٹا آپ اول کیوں
نہیں آئے۔ والدین اپنا مزاج بدلیں بچوں سے سوال نہ کریں گے کہ وہ اول کیوں
نہیں آیا ورنہ ان کا بچہ زندگی بھر اول درجے کے پیچھے لگا رہے گا۔بچوں کی
قابلیت کو سراہیں۔ ان میں قدر شناسی کا جذبہ پیدا کریں۔ زیادہ نشانات حاصل
کرنے سے زیادہ سیکھنے ،سمجھنے اور سیکھے سمجھے پر عمل کرنیپر بچوں کو مائل
کریں۔ہمارے امتحانات کے نظام میں تبدیلی و اصلاح کی ضرورت ہے ۔موجودہ
امتحانی طریقہ کار میں صرف یاداشت کا امتحان مقصود نظرآتا ہے۔طلبہ کی
قابلیت ،ذہانت اور مضمون میں ان کی بصیرت و مہارت کا صحیح اندازہ موجوہ
امتحان کے طریقہ کار سے نہیں لگا یا جاسکتا ۔ ہمارے امتحان کے نظام کی سب
سے بڑی خراب یہ ہے کہ ایسے طلبہ کے بہتر نتائج دیکھنے میں آئے ہیں جنھوں نے
امتحان سے عین دو چاردن پہلے اتفاقاً ایسے سوا ل پڑھ لئے جو امتحان میں بھی
آگئے برخلاف اس کے وہ طلبہ جو سارا نصاب تو پڑھ چکے سوائے ان دو چار سوالات
کے جو امتحان میں آگئے۔قابلیت ،صلاحیت ،استعداد کی جانچ کے بجائے یہ تو
قسمت کی جانچ ہورہی ہے کہ دیکھیں کس کی قسمت ساتھ دیتی ہے اور کون مقدر کا
سکندر ہے۔
اساتذہ کے بغیر تعلیمی نظام ادھورا وہ بے معنیٰ ہوکر رہ جاتاہے۔ہمارے نظام
تعلیم اس وقت تک نہیں بدل سکتا ہے جب تک اساتذہ اپنے طریقہ ہائے تدریس میں
خوش گوار تبدیلی نہ لائیں۔اساتذہ بچوں کو ڈرا دھمکاکر اور جبر و تشدد سے
کتابوں کا حافظ تو بنا سکتے ہیں لیکن اس کے علمی لیاقت ،شعور و دانش کو
ہرگز راہ نہیں دے سکتے۔تعلیمی نظام کی پسماندگی کے ازالے کے لئے اور طلبہ
کی بہتری کے لئے اساتذہ کو جدید طریقہ ہائے تدریس کو اپنانا ہوگا ۔اسکولوں
کے ذمہ داران اساتذہ کو جدید طریقہ ہائے تدریس سے روشناس کرنے کے لئے خصوصی
تربیت(ٹرینگنس ) کا اہتمام کریں۔استاد کی اہم ذمہ داری ہے کہ نصابی کتب میں
موجود ثقیل،بے کیف مواد و غیر فائدہ بخش فلسفے سے مفید معلومات کو چھان کر
طلبہ کے سامنے آسان اور عام فہم انداز میں پیش کرے۔تدریسی ذمہ داریوں کی
انجام دہی کے علاوہ استاد اپنے طلبہ کا فکری رہبر ،رہنما اور مربی ہوتا ہے
۔وہ طلبہ میں اچھے عادات ،اصول اور قوانین کے احترام کا جذبہجاگزیں کرے۔
ہمارے تعلیمی نظام کی پسماندگی کی وجوہات میں سے ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ
ہمارے معاشرے میں بچوں کی تعلیم کے سلسلے میں والدین،اسکول انتظامیہ اور
اساتذہ میں کوئی ہمدردانہ جذبہ اشتراک موجود نہیں ہے۔اولیائے طلبہ اپنے
نونہالوں کی اخلاقی بے راہ روی اور معیار تعلیم کی پستی کا ذمہ دار اساتذہ
کو سمجھ کر اپنی ذمہ داریوں سے فرار حاصل کرنے کی کو شش کرتے ہیں۔والدین
اپنے فرائض منصبی سے سرموئے انحراف نہ کریں ورنہ اﷲ کے پاس سخت باز پرس کا
سامنا کرنا پڑے گا۔
تعلیمی ادارے طلبہ کو مناسب دوستانہ ماحول فراہم کریں۔اسکولوں کو قید خانوں
اور پولس اسٹیشنوں میں تبدیل نہ کریں۔طلبہ کی عزت نفس کا خاص خیال
رکھیں۔طلبہ کے مسائل اور تجاویز کو غور سے سنیں اور مناسب تجاویز پر عمل
بھی کریں۔تعلیمی اداروں کی یہ اولین ذمہ داری ہے کہ وہ طلبہ کی پوشیدہ
صلاحیتوں کو اجاگر کریں اور ان صلاحیتوں کو پروان چڑھانے میں مددگار مختلف
پروگرامس کا انعقاد باقاعدگی سے عمل میں لائیں۔ تعلیمی ادارہ محض اینٹ
،پتھر اور کنکریٹ کے ڈھانچہ کا نام نہیں ہے بلکہ آدمی کو انسان بنانے والی
کارگاہ کا نام ہے۔کسی بھی اسکول ،مدرسے،کالج اور یونیورسٹی کے لئے اس کے
پاس سے نکلنے والے ڈاکٹر ،انجینئر اور دیگر پیشہ وار افراد کی تعداد فخر
کاباعث نہیں ہوتی ہے بلکہ یہ جب فخر کرسکتے ہیں جب ان اداروں سے نکلنے والے
افراد معاشرے کی تعمیر میں اپنا حصہ پیشکریں۔تعلیمی اداروں کے قیام کا مقصد
پیشہ وار افراد کی تیاری نہیں ہے بلکہ ملک و معاشرے کی تعمیر ہے۔ایسے
تعلیمی ادارے جو طلبہ میں پیشہ وارانہ صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ ان کی کردار
سازی کا کام انجام دیتے ہیں یقینا انھیں انسانیت کی تعمیرگاہ ہونے کا شرف
حاصل ہے۔اگر نظام تعلیم ناقص ہوتو ملک و قوم کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا
ہے۔ہمیں اپنے تعلیمی نظام کو بلا تامل ٹھوس و صحت مند بنیادوں پر استوار
کرنے کی ضرورت ہے تاکہ نئی نسل اور پوری قوم کو نقصان عظیم سے محفوظ رکھا
جاسکے۔ |