کتب خانہ جس کو انگریزی میں (لائبریری) کہتے ہیں در حقیقت
ان کتب خانوں کا بنیادی مقصد علم کی حفاظت اور اس کی ترسیل ہے ‘ کتب خانوں
کو کا نام در اصل مسلمان نے معلوماتی مرکز کا نام دیا تھا کیونکہ ان میں بے
شمار کتب موجود ہوتی ہے ‘ تاریخ شاید ہے کہ بنی نوع انسان کے تہذیب یافتہ
دور میں قدم رکھتے ہی کتن خانوں کا آغاز ہوگیا تھا اور ان کتب خانوں کے
کتابوں سے علماء و فقہاء و محدثین کرام کی ایک بڑی جماعت نے استفادہ کیا
اور ان کتب خانوں کا مقام بہت بلند و برتر کردیا لیکن موجودہ وقت میں ان
کتب خانوں کی حیثیت کو ہم نے مجروح کردیا ہے-
یہ وہی لائبریریاں ہیں جہاں سے مطالعہ کرکے کے بڑے بڑے محدثین و مفکرین
صحافتی اثقافتی میدان میں آیے اور کام کرگیے لیکن جس دن سے ان کی جانب توجہ
کم ہوئ علمی معیار کم ہوتا چلا گیا ‘انسان کے دنیا میں آنکھ کھولتے ہی
لکھنے پڑھنے کا رجحان تھا۔ اس مقصد کو پورا کرنے کیلئے مٹی کی تختیوں ،
جانوروں کی جھلی اور لکڑی کی تختیوں کو استعمال کیا گیا بعد ازاں چین میں
کاغذ کا ایجاد عمل میں آیا.نیز فن تحریر کے ساتھ ساتھ کتب خانوں کے وجود کا
عمل بھی شروع ہوگیاتھا‘-
تعلیم اور کتب خانے ایک دوسرے کیلئے لازم وملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں کوئی
تعلیمی درسگاہ ایک منظم کتب خانے کی ضرورت سے بے نیاز نہیں ہوسکتی ۔ تعلیمی
اداروں میں نصابی ضرورت محض نصابی کتابوں سے پوری نہیں ہو سکتیں لہذا
تحقیقی ضروریات کیلئے اضافی کتابوں کا ہونا ضروری ہے۔ جنہیں منظم تعلیمی
کتب خانوں کی صورت میں رکھا جا سکتا ہے۔ معاشرتی ترقی کا انحصار اس بات پر
ہے کہ عوام مروجہ علوم اور زمانے کے تقاضوں سے آگاہ ہوں۔ عوام کی علمی سطح
جتنی بلند ہوگی ملک اتنی ہی ترقی کرے گا۔علم کے حصول کا سب سے بڑا ذریعہ
ہمارے سکول ، کالج اور یونیورسٹیاں ہیں مگر ان میں صرف نصابی تعلیم دی جاتی
ہے۔ تعلیمی ادارے علم کی انتہائی نہیں بلکہ لوگ یہاں سے اپنے راستے سے آگاہ
ہوتے ہیں .عملی زندگی کے راستے پر مسلسل گامزن رہنے کا ذریعہ کتب خانے ہیں۔
ان کی اہمیت اس لئے بھی بڑھ جاتی ہے کہ یہ صحیح معنوں میں علم کے حصول کا
ذریعہ ہیں لہذا یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ جو راستہ تعلیمی ادارے سے نکلتا
ہے وہ کتب خانہ میں آکر ختم ہو جاتاہے کیوں کہ یہ کسی بھی شخص کی معلومات
کا بہترین ذریعہ ہیں ‘
یہاں پر ہر قسم کا علم بغیر کسی پابندی اور رکاوٹ کے مل جاتا ہے ۔
لیکن آج کتب خانوں کی جانب توجہ نہ ہونے کی وجہ علمی استعداد کم ہوگئ اور
بے شمار طلبا اسی وجہ سے کسی ایک فن میں مہارت حاصل کرکے اپنے کارو بار میں
لگ جاتے ہیں یا پھر دنیوی امور میں مشغول ہوجاتے ہیں علمی اور بینادی باتوں
سے محروم ہوجاتے ہیں کیونکہ اس موجودہ وقت میں کتابیں خرید کر پڑھنا ہر کس
وناکس کے بس میں نہی ہے‘مہنگائی کے اِس دور میں نئی کتابیں خریدنا، اکثریت
کے لئے مشکل ہو گیا ہے، انسان کے لئے ذاتی لائبریری بنانا بھی روز بروز
نامُمکِن ہوتا جا رہا ہ، اِس اعتبار سے کتب خانوں کی اہمیت کہیں بڑھ جاتی
ہے، انسان آسانی کے ساتھ جدید تصانیف سے فائدہ اُٹھا سکتا ہے اور پھِر ایک
انسان نہیں بلکہ سینکڑوں انسان، سالہا سال اُن علمی سر چشموں سے اپنی فکری
پیاس بجھا سکتے ہیں۔ گویا کتابوں کی سنبھالنا، اُ ن کی حفاظت کرنا اور اُ ن
کو کتب خانوں میں محفوظ کرنا ایک بہترین صدقہِ جاریہ ہے۔ اِس لئے لوگ اپنے
ذاتی کتب خانوں کو قومی سطح کے کتب خانوں میں بُطور عطیہ منتقل کرتے ہیں تا
کہ اُ ن کی موت کے بعد یہ کتابیں اپنا نور بکھیرتی اور فکرو خیال کی راہوں
کو اجالتی رہیں۔ جب ہم کسی لائبریری سے کوئی کتاب لاتے ہیں تو ہمیں یہ خیال
رکھنا چاہیئے کہ کتاب خراب نہ ہو اور محفوظ رہے کیونکہ وہ ذاتی ملکیت نہیں
لیکن ایسا نہیں کہ ذاتی کتب کی حفاظت بھی نہ کی جائے بلکہ اُن کو بھی سنبھا
ل کر رکھنا چاہیے۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کو اُس کتاب کی مستقبل میں ضرورت پڑے
یا کسی دوست احباب کو ضرورت ہو لائبریری سے لائی گئی کتاب ایک امانت کی
مانند ہے، یہ ایک قومی دولت ہے اور اِس پر ہر ایک کا حق ہے۔ بعض لوگ
لائبریری سے نادر کتابیں لے کر اُن کی قیمت جمع کرا دیتے ہیں، یہ قومی
نوعیت کا ایک سنگین جُرم ہے۔ روپے تو مل جاتے ہیں مگر وہ نایاب کتابیں نہیں
ملتیں۔ نتیجاً دُنیا کا ایک بڑا طبقہ ان کے فیض سے محروم ہو جاتی ہے، جس
طرح کتب خانوں کا قیام ایک کارِ ثواب ہے اِس طرح وہاں سے کتابوں کو اُڑانا،
ایک جُرم ہے‘اگر کتب خانے موجود ہوتے تو ایک بڑا طبقہ اپنی علمی پیاس کو ان
کتب خانوں سے بجھاپاتا اور اپنے علم میں رسوخ پیدا کرتا لیکن آج اس جانب سے
توجہ ہٹ جانے کے نتیجہ میں طلباء اپنے علم میں مکمل رسوخ اور پختگی حاصل
نہی کرپاتے ہیں اور اسی بناء پر وہ علم سے محروم ہوتے جارہے ہیں.
اللہ تعالی سے دعاء گو ہوں کہ اللہ کم سب کو پھر کتب خانوں کہ اشاعت خلوص و
للہیت سے کرنے کی توفیق دیے ..آمین
|