طالب علمی کا زمانہ کس کو یاد نہیں ہوتا۔ بہت سی اچھی بری
یادیں اس زمانے میں جڑی ہوتی ہیں اور یہ یاد بھی بہت آتا ہے۔ مجھے تو اب
بھی یاد آئے تو کانوں کو ہاتھ لگاتا ہوں، کیونکہ کافی مشکل زمانہ تھا۔
خصوصاً امتحان کے دن۔ آئیے آپ بھی سنیے۔
بچپن میں پڑھنے لکھنے کا اتنا شوق نہ تھا، پڑھائی اول تو ہم کرتے ہی نہیں
تھے اور اگر کرتے بھی تو امتحان کی رات ساری کتابیں یک بارگی میں پڑھنے کی
تیاری کی اور پھر بیٹھے پڑھنے کہ صبح پیپر ہے۔ لیکن کیسے پوری کتاب یاد ہو،
چند گھنٹوں میں ۔ اونے پونے رٹہ مارا اور چلے پیپر دینے اور خیال یہی ہوتا
تھا کہ جتنی تیاری میری ہے، اتنی تو کسی کی بھی نہ ہو گی لیکن جب پیپر
سامنے آتا تو انکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتیں کہ ہمیں تو کچھ نہیں آتا۔ پھر
وہ محاورہ یاد آتا ’’اب پچھتائے کیا ہوت، جب چڑیا چگ گئیں کھیت۔‘‘
طالب علم معلومات کو امتحان ہوتے ہی ذہن سے کسی فالتو شے کی طرح ذائل کر
دیتے ہیں۔ یہ سمجھ کر کہ نصابی کتب سے حاصل کی گئی معلومات کا فائدہ کتابی
دنیا تک محدود ہے اور حقیقی دنیا اس سے بہت مختلف ہے مگر یہ غلط فہمی انہیں
مطالعے سے روکتی ہے اور ناکام بناتی ہے۔
’’عثمان پڑھ لو بیٹا! تمہارے امتحان قریب آ رہے ہیں، کتنا مشکل کورس ہے
تمہارا، سیکنڈ سمیسٹر میں بھی تم بہت مشکل سے پاس ہوئے تھے۔‘‘
عثمان کی والدہ اسے یہ بات دن میں کتنی ہی بار باور کرواتیں مگر ہر بار
عثمان کا ایک ہی جواب ہوتا:
’’امی ابھی تو اتنے دن پڑے ہیں امتحان آنے دیں۔ پڑھ ہی لوں گا۔ ہم سارے
دوست آخری دنوں میں ہی پڑھتے ہیں۔ پہلے سے پڑھنے کا کوئی فائدہ نہیں
ہوتا۔‘‘ عثمان کی امی یہ بات سنتیں اور خاموش ہو جاتیں۔
امتحان سے چند دن قبل راتوں کو جاگ کرپڑھنے کی عادت صرف عثمان ہی کو نہیں
تھی، بلکہ اس عمر کے ہر نوجوان طالب علم کو ہوتی ہے، وہ چاہے کالج یا
یونیورسٹی کا ہو یا پھر ہاسٹل میں رہائش پذیر، جن کا کام پڑھنے کے سوا کچھ
نہیں ہوتا مگر وہ پڑھنے کے سوا سب کچھ کرتے ہیں ۔
امتحان سے ایک یا دو ہفتے قبل بھرپور محنت کر کے نمبر حاصل کرنے کا رواج اب
عام ہے کیونکہ طالب علم قابل بننے کے لیے تعلیم حاصل نہیں کرتا بلکہ صرف
امتحان پاس کرنے کے لیے تعلیم حاصل کرتا ہے۔
نوجوانوں کا ایک بڑا طبقہ مختلف وجوہات کی بناء پہ تعلیمی اداروں کا رخ ہی
نہیں کرتے اور جو پہنچ جاتے ہیں وہ مناسب وقت مطالعہ پر صرف نہیں کرتے۔ پھر
امتحانات کے دنوں میں انہیں پڑھائی کا جن سوار ہوتا ہے۔
بعض جز وقتی ملازمتیں کرتے ہیں، بعض غیر نصابی، غیر اخلاقی سرگرمیوں میں
اتنا ملوث ہوتے ہیں کہ وہ تعلیم اور دوسری سرگرمیوں میں توازن نہیں رکھ
پاتے اور پھر یہی طالب علم امتحان کی راتوں کو سرتوڑ محنت کرتے ہیں لیکن اس
وقت اس محنت کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ اس کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ انہوں نے
پہلے سے امتحان کی تیاری کر رکھی ہو۔ ان کے برعکس وہ طالب علم جو پورا سال
آرام کرنے کے بعد امتحان قریب آنے پر ہوش میں آتے ہیں اور صرف چند دنوں کے
لیے روزانہ کئی کئی گھنٹوں تک پڑھائی کرنے کے علاوہ امتحان سے پہلے کی پوری
رات بھی جاگ کر تیاری کرتے ہیں، پھر وہ نہ تو کمرہ امتحان میں اچھی
کارگردگی کا مظاہرہ کر پاتے ہیں اور نہ ہی رزلٹ میں ان کے اچھے نمبرز آتے
ہیں۔
اب اس بات کی تصدیق ایک نفسیاتی تحقیق سے بھی ہو گئی ہے جو سنگا پور کے
’’ڈیوک این یو ایس‘‘ میڈیکل سکول میں انجام دیا گیا۔ تحقیقمیں 72 طالب علم
شریک کیے گئے، ان سب کو پہلے 80 منٹ میں اس موضوع کے بارے میں لیکچر دیا
گیا، جس کے بارے میں وہ پہلے سے نہیں جانتے تھے، لیکچر کے بعد انہیں 3
گروپوں میں تقسیم کیا گیا جس میں سے ایک گروپ نے ایک گھنٹے تک اپنی من پسند
ڈاکیومینٹری دیکھی، دوسرا گروپ سونے چلا گیا جبکہ تیسرے گروپ نے اس دوران
وہی لیکچر دہرایا۔
منتخب کیے گئے طالب علموں کو 80 منٹ کا ایک اور لیکچر دیا گیا جس کے بعد
ایک ٹیسٹ کے ذریعے معلوم کیا گیا کہ پہلے لیکچر کے دوران پڑھائی کی باتیں
انہیں کتنی یاد رہیں۔ ٹیسٹ کے نتائج سے معلوم ہوا کہ وہ طالب علم جو درمیان
میں ایک گھنٹہ سونے کے لیے گئے تھے انہوں نے باقی گروپوں کے مقابلے میں کئی
گنا بہتر کارگردگی کا مظاہرہ کیا تھا۔ جبکہ جو گروپ پڑھتا رہا، اس کا دوسرا
نمبر تھا۔
ایک ہفتہ بعد انہی طلبا پر یہ تجریہ ایک دفعہ پھر دہرایا گیا، پھر وہی
نتیجہ حاصل ہوا، جس سے ثابت ہوا کہ مسلسل کئی گھنٹوں تک پڑھنا اور آرام نہ
کرنا اکتسابی (سیکھنے کی) صلاحت پر برے اثرات ڈالتا ہے۔اندازہ ہے کہ آرام
کے لیے مناسب وقت ملنے کی صورت میں دماغ کو نئی معلومات ذخیرہ کرنے کی مہلت
مل جاتی ہے اور یہ یادیں طویل مدتی یادداشت کا حصہ بھی بن جاتی ہیں۔
آخری رات طلبا کتابوں کو ایسے چاٹتے ہیں جیسے پورا نصاب راتوں رات دماغ میں
سرائیت کر جائے گا اور انہیں کسی پروفیسر کے درجے پر فائز کر دے گا۔لیکچر
کے دوان صحیح طرح سے نہ سننا اور سمجھنا اور پھر آخری رات سب کچھ سمجھنے کی
کوشش کرنا فضول ہے نوجوان طالب علموں کی یہ قسم درستی کتابوں کی بجائے
بازار میں بڑے نوٹس اور گائیڈز پر زیادہ بھروسہ کرتی ہے۔ حالانکہ ان کا یہ
طریقہ کار درست نہیں ہے۔
ایسے طالبعلموں کا اولین مقصد اگر دیکھا جائے تو تعلیم حاصل کرنا، اپنی
معلومات میں اضافہ کرنا، شعور وآگہی کی منزلیں طے کرنا قطعی نہیں ہوتا وہ
صرف یہ چاہتے ہیں کہ تمام مضامین با آسانی پاس ہو جائیں اور والدین کے
روبرو اپنی رپورٹ فخر سے پیش کرسکیں۔ امتحانات کے آخری دنوں میں پڑھنا کوئی
معیوب بات نہیں لیکن یہاں اس بات کا دھیان رکھنا ضروری ہے کہ امتحان کی
تیاری کا سارا دارو مدار آخری دنوں پر نہ ہو۔ |