کیا غریب ہونا جرم ہے؟

تحریر: انصر محمود بابر
سرماکی ایک حسین صبح تھی۔گاؤں کے بوائزہائی سکول کے ایک خوبصورت پلاٹ میں سورج کی توانائی بانٹتی ہوئی کرنوں میں اسکول اسٹاف کے لیے دفتر سجاتھا۔خوبصورت میزوں کے دونوں اطراف کرسیاں بچھی تھیں۔اس سارے سیٹ اپ کے ساتھ ہی ایک طرف قدرے بڑی اوراونچی میزکے عقب میں فوم کے گدے والی اونچی پشت کی کرسی رکھی تھی۔اتنے میں اساتذہ کرام میں سے ایک محترم استاد کہ کئی نسلیں جن سے فیض یاب ہوئیں ہیں،تشریف لائے۔دورہی سے اس سارے سیٹنگ پلان کا جائزہ لیااورکیاخوب فقرہ کہاکہ دیکھویہ اونچی پشت اور گدے والی کرسی اوربڑی سی میزجودوسری میزوں اور کرسیوں سے الگ تھلگ رکھی اس بات کااعلان کررہی ہے کہ اس میزکرسی پربیٹھنے والاباقی اساتذہ سے برترشخصیت کامالک ہے۔

حالانکہ اسلام میں اس طرح وی۔آئی۔پی ۔کاکوئی تصورموجودنہیں۔ایک لوکل سکول کے ایک مڈل کلاس کو پڑھانے والے محترم استادکایہ کتنااچھاخیال اورسوچ ہے اورمیراخیال ہے کہ اگروہ کسی مشہورانگلش میڈیم کالج یایونیوسٹی میں پڑھارہے ہوتے،توہوسکتاہے کہ ان کا خیال مختلف ہوتا۔بہرحال اس دن سے لے کر آج تک،میرے اندرسے وہ بات وہ فقرہ نہ نکل سکا۔لیکن نظرڈالیں جب اپرلیول پہ توسب کچھ مختلف نظرآتاہے کہ غریب کے بچوں کے لیے سرکاری سکول ہیں،وہ سرکاری سکول کہ اگرچاردیواری ہے توچھت نہیں۔اگرچھت ہے توپانی کاکوئی بندوبست اور’’ٹاٹ‘‘ نہیں۔اگرخوش قسمتی سے یہ سارے لوازمات پورے ہیں توبدقسمتی سے پڑھانے والاکوئی نہیں اورامراء اوروزراء کے بچوں بلکہ صاحبزادوں کے لیے انگلش میڈیم،ائرکنڈیشنڈسکول ہیں۔

غریبوں کے لیے وہی سرکاری ہسپتال ہیں جوانگریزدورکی یادگارہیں۔جب کہ اگرکوئی وی۔آئی۔پی۔کہ جس کااسلام میں کوئی تصورنہیں اگرخدانخواستہ بیمارپڑجائے تویورپ اورلندن وامریکہ کے وی۔آئی۔پی۔ہسپتال سرکاری خرچ پرموجودہیں۔عجب نظام ہے کہ امراء اوروزراء جو اس ملک میں سب کچھ افورڈکرسکتے ہیں،ان کے لیے بجلی،ٹیلی فون،پانی اورگیس وغیرہ کے بل تک معاف ہیں اور80%طبقہ جومحض اپنی سانسوں کی مقررہ گنتی گن رہاہے،جوسرڈھانپتے ہیں توپاؤں پہ مچھرکاٹنے لگتے ہیں اورپاؤں ڈھانپتے ہیں توسرسردی سے ٹھٹھرجاتاہے۔ایسے فالتواورزمین کے بوجھ لوگوں کے لیے بلوں کی بھرمار ہے۔اس پہ سونے پہ سہاگہ یہ ہے کہ کوئی پرسان ِ حال نہیں۔

حضورنبی کریم ﷺ ان کایہ عالم ہے کہ جسم مبارک پہ کھردری چارپائی کے نشان پڑجاتے ہیں لیکن عام مسلمانوں کے لیے تمام دستیاب سہولتیں وقف ہیں۔حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے فرمادیاتھا کہ میرے دور ِ خلافت میں اگرکتابھی پیاسامرگیاتوقیامت کے دن عمرؓ جواب دہ ہوگا۔۔خلیفہ حضرت عمربن عبدالعزیزؓ خلافت سے پہلے اتنے امیرتھے کہ آپ کے خزانوں کی چابیاں کئی کئی اونٹ اٹھایاکرتے تھے۔مگرجب خلیفہ بنے تویہ حال تھاکہ وہی ایک لباس آپ کی کل جاگیرتھی جوآپ کے جسم پہ تھا۔جب کہ آج صورت ِ حال یکسرمختلف بلکہ متضادہے کہ یہاں جب کوئی وزیر،مشیریاکسی بھی اعلیٰ عہدے پرتعینات ہوتاہے توملکی اورغیرملکی بینکوں میں اس کے اکاؤنٹس ڈالروں سے بھرجاتے ہیں اورستم بالائے ستم یہ ہے کہ کوئی ان سے پوچھنے اوراحتساب کرنے والانہیں۔خودانھیں اپنے آپ توشرم آنے کا،کسی مسکین اوریتیم کااحساس ہونے کابلکہ خوف ِ خداپیداہونے کاتوسوال ہی پیدانہیں ہوتا۔کیایہاں، اس ملک میں کسی کاقابل ہونا،ٹیلنٹ ہوناجرم ہے؟کیایہاں غریب ہونا جرم ہے؟
 

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1020671 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.