ہندؤازم لفظ ’’ہندو‘‘ سے نکلاہے۔ جس کے معنی چور‘کالا اور
چوکیدار کے ہیں۔ یہ لفظ جغرافیائی اہمیت رکھتاہے۔ ابتدا میں یہ لفظ ان
لوگوں کے لیے استعمال ہوا جو دریائے سندھ کے پاررہتے تھے یاان علاقوں کے
رہنے والوں کے لیے جن علاقوں کو دریائے سندھ کاپانی سیراب کرتاتھا۔ انگریز
مصنفین نے یہ لفظ 1835ء میں ہندوستان میں رہنے والے تمام لوگوں کے مذہبی
عقائد کے لیے استعمال کیا۔سوائے مسلمان اور عیسائی لوگوں کے۔ہندومت متضاد
نظریات اور متعدد عقائد کے وسیع مجموعے کا معجون مرکب اور اوہام اورفرضی
داستانوں کاوسیع جنگل ہے۔ جس میں توحید‘تثلیث ‘شرک اور بت پرستی کی ہرقسم
پائی جاتی ہے۔ عملاً ایک ہندوآزادہے۔وہ جوچاہے کرے‘ ‘اس کے لیے حلال وحرام
کاکوئی تصورموجودنہیں ہے۔ ہندو ازم ایک مذہب نہیں ، بنیادی طور پر بے حیائی
کا علمبردار ہے۔ ہندو معاشرہ ازل سے ہی جنسی بے راہ روی کا شکار تھا اور ہے
،مندروں میں عورتیں پنڈتوں اور پوجاریوں کے حوس کا نشانہ بنتیں. بنوھگ کی
رسم پر فخر سمجھی جاتی. ایک عورت کئی بھائیوں کی مشترکہ بیوی ہوتی. صحتمند
اولاد کے حصول کے لیے سسر کی اجازت سے طاقتور اور صحتمند مرد سے اخلاط کے
اجازت تھی۔دھرم شاسترا (مابعدویدک عہد )کے دور میں عورت کی حیثیت نہایت پست
تھی۔ کمسنی کی شادی کی حوصلہ افزائی کی گئی اور بیواؤں کی شادی کو نظر
انداز کیا جانے لگا۔ لڑکیوں کی پیدائش کو اس حد تک منحوس سمجھا جانے لگا کہ
بے شمار والدین ‘ نومولود لڑکیوں کو ہلاک کردیا کرتے تھے۔ بیواؤں کے ساتھ
بے انتہا بدسلوکی کے نتیجہ میں ستی کی رسم عام ہوگئی۔سمرتیوں‘پرانوں
اوررزمیہ داستانوں (رامائن‘مہابھارت )کے عہدمیں عورت کی حالت مزید ابتر
ہوگئی تھی‘اسے تمام تربرائیوں کا مجموعہ سمجھاجانے لگاتھا۔اس عہدمیں منو کے
قوانین لوگوں کے لیے ندائے خداوندی کا درجہ رکھتے تھے۔منوکے اصول کے تحت
عورت کو شودر کے زمرے میں رکھاگیاتھا اورقتل کے معاملے میں دونوں کی ایک ہی
سزامقرر کی گئی تھی۔ہندومذہب میں دھرم شاسترکی بنیاد پرکئی سمرتیاں لکھی
گئیں‘جن میں منوسمرتی سب سے زیادہ مشہور اوراہمیت کی حامل رہی ہے۔اسی سمرتی
کی بنیاد پر ہندو قانون بنایاگیاہے۔منوسمرتی کو ہندو سماج کے معاشرتی
وعائلی قوانین کا ماخذسمجھاجاتاہے۔آج بھارتی سماج کا جائزہ لیں تو دل ہلا
دینے والے واقعات سامنے آتے ہیں ،وہ انسانوں کی بستی نہیں بلکہ وہاں انسان
کے روپ میں درندے آباد ہیں، تین ماہ کی بچی سے لیکر ستر برس کی عورت بھی
محفوظ نہیں۔ہندوستان اپنی عریاں و فحش فلموں سے پاکستان کے تباہ کرتے کرتے
خود اخلاقیات کی پستیوں میں گھر چکا ہے۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ انڈیا
میں انسانیت تقریباً ناپید ہو چکی ہے، اخلاقیات، آداب اور دوسروں کی عزت و
آبرو کا تحفظ شدید خطرے میں ہے-نیو یارک ٹائمز کے مطابق’’انڈیا سیاسی و
سماجی زندگی میں انسانیت اور اخلاقیات سے مکمل طور پہ محروم ہوتا چلا جا
رہا ہے ‘‘-اخبار ’ٹیلی گراف‘ کے مطابق بھارتی ریاست کرناٹکا میں مذہب کے
نام پر خواتین کا جسمانی استحصال جاری ہے ۔ ایسی عورتوں کی تعداد لاکھوں
میں ہیں جنہیں بھگوان کے نام پر جسم فروشی پر لگادیا گیا ۔ ’’دیو داسی‘‘
کہلانے والی خواتین مذہبی روپ میں نظر آتی ہیں، رنگ برنگے لباس پہنتی ہیں
اور زیورات کا استعمال بھی کرتی ہیں، لیکن بدقسمتی سے گاہکوں کے لئے ان میں
اور عام جسم فروش خواتین میں کوئی فرق نہیں۔ دیو داسی کا مطلب ہے بھگوان کی
رکھیل۔ دسمبر2015ء اور جنوری 2016ء میں بھارتی سپریم کورٹ نے اس نظام پر
قدغن لگانے کی ناکام کوشش کی تھی۔ ایک رپورٹ میں اس بات کا اعتراف کیا گیا
ہے کہ کئی ریاستوں میں طاقتور پنڈتوں اور پجاریوں کی سرپرستی میں یہ
گھناؤنا نظام پھل پھول رہاہے۔ صرف ریاست کرناٹکا میں ہی ایسی خواتین کی
تعداد 23 ہزار سے زائد ہے، جنہیں ان کے اپنے گھر والوں نے ہی دیوداسیاں
بنانے کے لئے مندروں اور پروہتوں کو بیچ دیا تھا، جو ان سے شرمناک دھندہ
کرواتے ہں۔ اگر ہندوستان کی قدیم تاریخ کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ
شرمناک روایت 14 سے 15 سو سال پرانی ہے جب قدیم بھارت میں لوگ اپنی نوعمر
لڑکیوں کو افزائش نسل کی دیوی ’یلاما‘ سے منسوب کرکے مندروں میں چھوڑ دیا
کرتے تھے۔ ابتدائی دور میں یہ دیوداسیاں عموماً مندروں کی دیکھ بھال کیا
کرتی تھیں اور مذہبی رسومات میں شرکت کیا کرتی تھیں۔ بعدازاں ان میں گانے
بجانے اور امراء و نوابوں کی تفریح طبع کا اہتمام کرنے کا رواج بھی عام
ہونے لگا۔ چند صدیاں بعد یہ مذہبی روایت اس قدر زوال پذیر ہوگئی کہ
دیوداسیوں کا ہندو مت کی عبادات و رسومات سے تعلق تقریباً ختم ہوگیا اور یہ
محض جسم فروش خواتین بن کررہ گئیں۔آج بھی بھارت کے طول و عرض میں غریب
خاندان جانتے بوجھتے ہوئے اپنی بچیوں کو دیوداسیاں بنانے کے لئے فروخت
کردیتے ہیں اور پھر ان کی تمام عمر ہوس پرستوں کی تفریح طبع کا سامان بنتے
ہوئے گزرجاتی ہے، اور ستم ظریفی دیکھئے کہ ان بچیوں کو بیچنے والے ان کے
اپنے والدین سے لے کر ان کے جسموں کے ساتھ ہوس کی بھوک مٹانے والے گاہکوں
تک ہر کوئی اس شرمناک کام کو مذہب کے لبادے میں کر رہا ہے۔ہندوستان ٹائمز
نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ ہندوستان کے کئی علاقوں ، بالخصوص جنوبی ہند
کی بعض ریاستوں کے مندروں میں 50 ہزار سے زائد بھگوان کی دلہنیں موجود ہیں
،جن کی تعداد میں ہر سال کم از کم ایک ہزار کا اضافہ ہو رہا ہے۔یہ ایک
احتیاطی اعدادوشمار ہیں۔ ورنہ حقائق کچھ اور ہی بتاتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق
دھرم کے نام پر دیوداسی بنائی جانے والی کمسن لڑکیوں کو پجاری اور بااثر
شخصیات زیادتی کا نشانہ بناتی ہیں۔ یہ سلسلہ برسوں جاری رہتا ہے اور جب
پجاریوں کا دل کسی بھگوان کی دلہن سے بھر جاتا ہے تو اسے دیوداسی کے منصب
سے ریٹائرڈ کرکے ممبئی، کولکتہ اور دہلی سمیت دیگر شہروں کے قحبہ خانوں میں
فروخت کر دیا جاتا ہے۔ہندوستانی محقق اشیتا گپتا نے ایک ریسرچ پیپر میں
بتایا ہے کہ جنوبی ہند کے مندروں اور فحاشی کے اڈوں میں چولی دامن کا ساتھ
ہے۔ ریسرچر کے مطابق اس نے جنوبی ریاستوں میں گھناونے دھندے سے منسلک
عورتوں کے انٹرویوز میں یہ حقیقت معلوم کی کہ ان میں سے 20 فیصد عورتیں
ماضی میں دیوداسی رہ چکی ہیں۔مغربی یوپی کا مقبول مذہبی شہر، مہابھارت کے
کردار شری کرشن کے عہد طفولیت کا وطن متھرا سے 10کلومیٹر دور ورنداون قائم
ہے۔ جہاں ہندوستان کی مظلوم ہندوبیوہ عورتوں ، اپنوں سے دھتکاری ہوئی بد
قسمتوں کی آہوں اور سسکیوں سے بھرا ہوا ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق وہاں
4000ہندو خواتین ایسی رہتی ہیں جنہوں نے اپنے شوہروں سے علحیدگی اختیار
کرلی ہے خود ان کے خاندان کے افراد نے انہیں برداشت نہیں کیا اور برنداون
کا سنہرا خواب دکھاکر وہاں پھینک دیاہے۔ جی ہاں یہ خواتین اسی معاشرہ کا
حصہ ہیں جہاں عورت کو کالی، درگا، لکشمی کی شکل میں پوجاجاتاہے۔ جہاں ماں
کی مختلف شکلوں میں دیوی ماں کر پرستش ہوتی ہے، جس کی تہذیب وتمدن پر
ہندوستانیوں کو فخر ہے۔ مذہب کے نام پر ان پر مظالم کو روا رکھا جاتا ہے ۔
برہمن سماج میں نوجوان سے جوان لڑکی جب بیوہ ہوجاتی ہے تو دوسری شادی ممنوع
ہونے کی وجہ سے وہ ایک لاچار عورت بن کر رہ جاتی ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک
ویڈیو کلپ میں یہ دکھایا گیا کہ ایک ٹی وی چینل کا رپورٹر ورنداون اولڈ
ہاؤسزکے ذمہ دار سے باتیں کررہاہے ایک سوال کے جواب میں اس ذمہ دار نے دل
دہلانے والی بات کہی ’’ان خواتین کو جب بیماری لگ جاتی ہے (بیماری سے مراد
مہلک مرض ایڈز وغیرہ ہے) تو ہم ان کو کاٹ کر بوری میں بند کرکے پھینک دیتے
ہیں۔‘‘یہی نہیں ورنداون میں قائم اولڈ ہاؤسز میں خواتین کے لئے معقول رہائش
وطعام کا انتظام یکسر معدوم ہے۔ وہاں پناہ گزین خواتین روزی روٹی کے لئے
گلیوں میں بھیک مانگنے پر مجبور ہوتی ہیں۔ اسی ویڈیو کلپ میں جب رپورٹر نے
سوال کیا کہ مجھے معلوم ہواکہ ان خواتین سے جسم فروشی کا دھندہ کروایا جاتا
ہے تو اس ذمہ دار نے بلاجھجھک کہاکہ یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے وہ تو
ہوتا ہی ہے۔ یہ وہ اعلیٰ خاندان کی خواتین ہیں جن کو اپنے معاشرتی نظام پر
فخر ہے۔ ایک اور رپورٹر نے بتایاکہ ورنداون کا علاقہ اب ایسی خواتین سے بھر
چکا ہے یہاں نووارد کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔دوسری جانب بھارتی سپریم کورٹ
نے بھی اپنے حالیہ فیصلوں سے ملک میں بڑھتی ہوئی جنسی بے راہ روی اور بے
حیائی پر اپنی مہر لگاتے ہوئے اسے جائز قرار دیدیا ہے ۔ شادی شدہ مرد اور
خاتون کے درمیان رضامندی کے ساتھ غیر ازدواجی تعلقات استوار ہوتے ہیں تو
اسے جرم نہیں مانا جاسکتا۔سپریم کورٹ کی 5 رکنی بینچ میں ایک خاتون جج بھی
شامل تھیں۔بینچ نے اپنے فیصلے میں تعزیرات ہند کی دفعہ 497 کو انسانی حقوق
کے خلاف قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ دفعہ 14 اور 21 کے خلاف ہے۔چیف جسٹس دیپک
مشرا کا کہنا تھا کہ اگرچہ شادی شدہ مرد و خواتین کی جانب سے غیر ازدواجی
تعلقات استوار کرنا جرم نہیں، تاہم اگر ان سے کوئی تیسرا شخص یعنی اگر
تعلقات استوار کرنے والی خاتون کا شوہر یا پھر مرد کی بیوی متاثر ہوکر
خودکشی جیسا سنگین قدم اٹھاتے ہیں تو تعلقات قائم کرنے والے افراد کے خلاف
خودکشی کے قوانین کے تحت کارروائی کی جاسکتی ہے۔سپریم کورٹ کی بینچ نے دفعہ
497 کو خواتین کے خلاف امتیازی سلوک بھی قرار دیا۔ساتھ ہی عدالت نے یہ
ریمارکس بھی دیے کہ غیر ازدواجی تعلقات شادی کے لیے اچھے ثابت نہیں ہوں
گے۔خیال رہے کہ تعزیرات ہند کی دفعہ 497 کے تحت کسی بھی شادی شدہ مرد اور
خاتون کے درمیان غیر ازدواجی تعلقات جرم تھے،تاہم اس میں سزا صرف مرد کو دی
جاتی تھی اور خاتون اس سے بری الذمہ تھی۔اس دفعہ کے تحت اگر کوئی بھی شادی
شدہ مرد کسی ایسی خاتون سے جنسی تعلقات قائم کرتا ہے،جس متعلق اسے شبہ یا
پتہ ہو کے وہ کسی اور کی بیوی ہے، وہ قانونی طور پر مجرم ہوگا اور اسے قید
یا جرمانہ یا پھر دونوں سزائیں ہوسکتی ہیں۔ ہندوستان میں ہم جنس پرستی کو
قانونی حیثیت دیدی گئی تھی ،اور مرد و عورت کے نا جائز تعلقات کو بھی
قانونی لبادہ پہنا دیا گیا ہے یعنی اب فحاشی اور بے حیائی کا گھناؤنا کھیل
گھر کی چہاردیواری کے اندر علی الاعلان کھیلا جارہا ہے۔ماں باپ ،بھائی اور
شوہر کو یہ حق حاصل نہیں ہوکہ وہ اپنی بہو ،بیٹی یا بیوی کو اپنی آنکھوں کے
سامنے کسی غیر مرد کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرنے سے قانوناََ روک سکیں۔ایسا
کرنے پر انکے خلاف ہی قانونی کاروائی کا حق محفوظ ہوگا۔ حقیقت حال یہ ہے
بھارتی عدلیہ نے ہندوستان میں زنا اور ہم جنس پرستی کی راہیں کھول دی ہیں۔
اس سے اندازہ ہوتاہے کہ بھارت میں مشرقی اقدار دم توڑ چکے ہیں اور مغربی
تہذیب و تمدن بری طرح غالب ہے۔ اس غیر فطری تمدن کو فرد کی ازادی اور اسکے
فطری حقوق کے نام پر فروغ دیاجارہاہے تاکہ کسی کو مخالفت کا جواز نہ مل
سکے۔ تھامسن ریوٹرز فاونڈیشن کی تحقیقی رپورٹ میں نام نہاد سیکولر عظیم
جمہوریت کے دارالحکومت ’’دہلی‘‘کو انڈیا کا ’’ریپ کیپیٹل‘‘ قرار دیا گیا جو
کہ انڈیا ابھی تک اپنے نام کے ساتھ سے نہیں ہٹا پایا۔بھارتی حکومت کی بین
الاقوامی دنیا سے آنے والی خواتین کو کپڑوں کے متعلق خبر دار کرنے، ان
معاملات میں لاپرواہی برتنے، مجرموں کی مدد کرنے اور ایسے دیگر کئی واقعات
بھارت کی عالمی دنیا میں یہ صرف جگ ہنسائی کا باعث بنے بلکہ بہت سے تحقیقی
اداروں، صحافیوں، اخباری ایجنسیوں سمیت دیگر دنیا کے حکمرانوں سے شدید مذمت
کا سامنا بھی کرنا پڑا- انڈیا میں اقوامِ متحدہ کی نمائندہ برائے خواتین
ریبیکا ریچ مین کا کہنا ہے کہ:’’میں انڈیا میں عصمت دری (کے واقعات )کے
نتائج دیکھ کر حیران نہیں ہوئی کیونکہ یہ سب متوقعہ تھا- پچھلے چند سالوں
میں انڈیا اور برازیل کے میڈیا نے جنسی حراساں کیے جانے کے واقعات کو خاصی
توجہ دی ہے‘‘-ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں 2018ء میں
2017ء کی نسبت جرائم میں کافی اضافہ ہوا ہے- رپورٹ میں بتایا گیا کہ قتل،
اغواء برائے تاوان، جہیز نہ لانے پر عورت کا قتل اور زنا بالجبر کی جرائم
میں اضافہ تشویش ناک حد تک بڑھ سکتا ہے جبکہ ان مسائل سے نمٹنے کے لیے
حکومت کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے -اسی رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں ہر
دودن میں ایک عورت کو جہیز نہ لانے پر قتل کر دیا جاتا ہے-رپورٹ کے مطابق
قتل کے مقدما ت اور زنابالجبر کے واقعات میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے- |