چل میلے نوں چلیئے

بخت آور پتر۔۔۔! ڈاکٹر نے جواب دے دیا ہے بھا رشید کے پاس اب زیادہ وقت نہیں رہا۔۔۔! ابّا دِنوں میں ہڈیوں کا ڈھانچہ بن گیا تھا۔۔۔! چاچا بڑی مُشکل سے ابّا کو شہر والے ڈاکٹر کے پاس لے کر گیا ۔۔۔! یہ کیسی خبر سنائی تھی اُس نے۔۔۔؟اب کیا ہو گا۔۔۔؟ میری آنکھوں کے آگے ہنیرا آ گیا۔۔۔! دل جیسے کڑِکّی میں پھَس گیا۔۔۔! ابّا کے بغیر کیا کروں گی۔۔۔؟ ابّا کو نہ بتانا چاچا۔۔۔! ایک پَل میں چیتّے نے حیاتی کے گزرے سالوں کا پھیرا مار لیا۔۔۔! ماں تو میرے پاس تھی نہیں۔۔۔! میرے پاس تو ابّا ہی تھا جو میری ماں بھی تھا اور باپ بھی۔۔۔! ابّا نے پُھپھی سکینہ اور چاچی کے کہنے پر بھی دوسری شادی کی حامی نہ بھری۔۔۔! ابّا میرے سارے کام کرتا اور تو اور میرے ساتھ سٹاپو اور لُکن میٹی بھی کھیلتا۔۔۔! میری کنگھی چوٹی کرتا۔۔۔! مجھے یاد ہے ایک دن میں نے ابّا سے ضِد کی ابّا مجھے بھی نور جیسی کھجوری گُتّ کرنی ہے ابّا نے خَورے کہاں سے وہ بھی سیکھ لی۔۔۔! زرا سا بیمار ہوتی تو ساری ساری رات میری سر ہاندی سے لگ کر بیٹھا رہتا۔۔۔! ساون میں مرے لیئے جھولا ڈالا کرتا۔۔۔! ابّا میری کوئی بات ٹالتا ہی نہ تھا۔۔۔! نور اکثر کہا کرتی۔۔۔! اتنے لاڈ تو میری امّاں بھی میرے نہیں اُٹھاتی جتنے نخرے تیرا ابّا تیرے اُٹھاتا ہے۔۔۔!

اباّ کو رَبّ سے بہت پیار تھا اس کو چَنّ تاروں سے لے کر گلی کے ککھوں میں بھی رَبّ نظر آتا۔۔۔! رَبّ کے بعد امّاں تھی اور مَیں شاید امّاں کے بعد۔۔۔! ابّا میرے ساتھ گُڈّیاں پٹوہلے کھیلا کرتا۔۔۔! ہم باپ بیٹی گُڈّے گُڈّی کا بیاہ رچاتے ابّا کا ہمیشہ گُڈّا ہوتا اور میری گُڈّی۔۔۔! یہ کیا ابّا تُو ہر بار میری گُڈّی لے جاتا ہے۔۔۔؟ ابّا ہمیشہ اِکّو گل کرتا۔۔۔! او جَھلیئے گڈی ٹورنے کا حوصلہ ہی نہیں ہے میرے اندر۔۔۔! گُڈّی کی ڈولی مَیں ٹورتی اور ابّا گُڈّے والا ہو کر بھی میرے ساتھ رویا کرتا۔۔۔! ایک دن ابّا نے میرے کہنے پر آلو والی روٹی پکائی اور اپنا ہاتھ جلا لیا۔۔۔! میرے سے چُھپا کر پھرتا رہا ساری رات درد سے تڑپا پر آہ نہ نکالی۔۔۔! زخم خراب ہو گیا بہت دن تکلیف رہی۔۔۔! دوا دارو کیا۔۔۔! بڑے دِنوں کے بعد زخم بھرا۔۔۔! اس دن کے بعد رسوئی میں نے سنبھال لی۔۔۔! بچپن کی یادوں میں میلے کی یاد سب سے اوپر پتھلا مار کر بیٹھی تھی۔۔۔! ابّا کی اُنگلی پکڑ کر میلے کی سیر کو جانا۔۔۔! ہر تین مہینے بعد ساتھ والے گاؤں میں میلا لگا کرتا اور ابّا بڑے شوق سے مجھے لے کر جاتا۔۔۔! میلے سے کچھ دن پہلے ہی گانے لگتا۔۔۔!

“کِدھرے سَپّ سَپیرے اگےّ سَجّے کَھبّے ڈولے
کِدھرے طوطا گانی والا جی آیاں نُوں بولے

ریہڑی والا ہوکے لاوے پَھڑ کے پونّا گنّا
اِک ٹَکے وِچ کوئی نہیں دیندا تازی رَوہ دا چَھنّا

کِتے پٹوہلے گُڈِیاں وِکدے کِتے سی گُھگُھو گھوڑے
کِتے جلیبی ، بَرفی ، لَڈّوُ ، پیڑے کِتے پکوڑے

خُوش سی مَیں جِیوں آئِیاں ھووَنْ کَٹھِیاں دوویں عیداں” (بِسمِ اللہ کلیم کی نظم “عبداللطیف دِیاں یاداں” میں سے)

اگر زندگی رَوہ کے چھَنّے کی طرح بِکتی ہوتی تو سب کچھ دے کر بھی ابّا کے لیئے خرید لیتی ہم دونوں باپ بیٹی کے لیئے میلہ عید جیسا ہی ہوتا۔۔۔! امّاں کو بھی میلا بڑا پسند تھا۔۔۔! ابّا سارا وقت وہاں امّاں کو یاد کرتا اور اُس کی باتیں کرتا۔۔۔! دو واری تو آئی تھی تیری ماں میرے ساتھ پھر اسے آنا نصیب میں ہی نہ ہوا۔۔۔! کرماں والی کو اسی میلے سے جُھمکے لے کر دیئے تھے۔۔۔! اماں کے جھمکے ابّا کی آنکھوں میں ہلکورے لینے لگتے۔۔۔! کئی دفعہ تو مجھے ایسا لگتا امّاں ہمارے ساتھ ہی ہے۔۔۔! برف کے رنگ برنگے گولے۔۔۔! جلیبی برفی لڈو پیڑے اور گرما گرم پکوڑے۔۔۔! دونوں باپ بیٹی خوب عیش کرتے۔۔۔! میلے سے آنے کے بعد ابّا کی آنکھوں میں انوکھی خوشی ہوتی۔۔۔! بڑے ہونے کے بعد مجھے ایسا محسوس ہوتا جیسے ابّا مجھے نہیں میں ابّا کو میلہ دکھانے لائی ہوں۔۔۔! میلے سے ابّا کی بہت سی رنگلی یادیں جُڑی تھی۔۔۔! وہ تو جیسے امّاں سے ملنے کے لیئے میلے میں جایا کرتا تھا۔۔۔!

واپسی پر مَیں تھک کر سو جاتی اور ابّا کے کندھوں پر چڑھ کر واپس آتی۔۔۔! کبھی کوئی سواری مل جاتی تو بیٹھ جاتے ورنہ چل کر ہی آنا پڑتا ابّا مجھے اُٹھا کر تھک جاتا پیروں میں چھالے پڑ جاتے۔۔۔! پر ہم دونوں پیو دھی میلا دیکھنے ضرور جاتے۔۔۔! میلے سے واپس آنے کے بعد کئی کئی دن تک گاتا رہتا۔۔۔! ساتھ امّاں کی گھنگروؤں والی پکھّی جَھلّا کرتا۔۔۔! گھنگریوں کی آواز ابّا کی آواز میں مل جاتی جیسے کہتی ہو۔۔۔!

“ہم تم ہوں گے بادل ہو گا۔۔۔! رقص میں سارا جنگل ہو گا”

ابّا اپنی ہی دُھن میں گاۓ جاتا۔۔۔!

“ہانڑیاں۔۔۔! اوڑک جاناں ای مر وے چل میلے نوں چلیئے
بیلیا۔۔۔! اوڑک جاناں ای مر وے چل میلے نوں چلیئے
ایلاّ پھڑ کنجیاں وے سانبھ لے تجوریاں
کھسماں نوں کھاندا ای تیرا گھر وے
چل میلے نوں چلیئے”

میلہ پھر لگنے والا تھا۔۔۔! اری پُتر مجھے ایک گلاس پانی پلا دے۔۔۔! مَیں ابّا کی آواز پر بھاگی گئی۔۔۔! میرے چھوٹے چھوٹے قدم ابھی تک ابّا کے ساتھ میلے میں بھاگے پھر رہے تھے۔۔۔! منہ میں رنگیلے برف کے گولے کا سواد۔۔۔! اور مِٹّی کے گُھگُھو گھوڑے۔۔۔! بھاگتے بھاگتے مَیں بڑی ہو گئی۔۔۔! گھگو گھوڑے چھوٹے رہ گئے۔۔۔! مَیں نے دیکھا وہ رو رہے تھے۔۔۔! کاش میں بڑی ہی نہ ہوتی۔۔۔! ابّا بھی میلے کو نہیں بھُولا تھا۔۔۔! دوسرے دن کہنے لگا چل پُتّر میلے میں نہیں جانا۔۔۔؟ ابّا تیری صحت۔۔۔؟ او چھڈ پُتّر چنگا بھلا تو ہوں ڈاکٹروں کی مت ماری گئی ہے۔۔۔! اگلے دن ابّا پر نقاہت طاری تھی۔۔۔! برف کے رنگ برنگے گولے۔۔۔۔! پٹوہلے گڈیاں۔۔۔! گھگو گھوڑے مُجھے سب بھول گیا۔۔۔! یاد تھا تو بس اتنا کہ ابّا کو میلے لے کر جانا ہے ابّا کی آخری خواہش تھی۔۔۔! وقت کم تھا۔۔۔! اور لے کر جانے والا کوئی نہیں۔۔۔! مَیں نے اپنے رَبّ سے التجا کی رَبّا سوہنیا میرا بس چلے تو اپنے ابّا کو کاندھوں پر بٹھا کر تیرے گھر لے کر آؤں۔۔۔! پتہ نہیں کِنّے ساہ باقی ہیں۔۔۔؟ اے اللّٰہ مجھے ہمت دے۔۔۔! اس یقین کے سہارے جو ابّا نے مجھے اللّٰہ پر کرنا سکھایا تھا۔۔۔! مَیں نے لوئی کی جھلی باندھی ابّا کو اس کے سہارے کاندھے پر اٹھایا اور چل پڑی۔۔۔! ابّا کا وزن تو گندم کی بوری جتنا بھی نہیں رہا تھا۔۔۔! جب تھکنے لگتی ابّا کے سارے لاڈ پیار ایک ایک کر کے یاد آتے۔۔۔!تھپکی دینے لگتے ، ابّا کا میری گُتّ کرنا۔۔۔! ہم دونوں کا سٹاپو کھیلنا۔۔۔! مَیں تیز اور تیز چلنے لگتی۔۔۔! آج مَیں ابّا تھی اور ابّا بخت آور۔۔۔! میلے میں پہنچنے تک ابّا کچھ ہوش میں تھا۔۔۔! ُاس کی آنکھوں میں چمک تھی۔۔۔! سارا دن گھگو گھوڑے والے کے پاس تھڑے پر بیٹھا ہَستا رہا۔۔۔! برف کے گولے بھی کھائے برفی اور جلیبی بھی۔۔۔! کہنے لگا پُتّر اب میں تھک گیا ہوں۔۔۔! مُیں نے ابّا کی آنکھوں میں امّاں کی جھلک دیکھی۔۔۔! پھر نقاہت طاری ہو گئی۔۔۔! شام سے پہلے واپس گھر جانا تھا۔۔۔! ابّا نیند میں امّاں کی باتیں کر رہا تھا۔۔۔!ہوش میں آتا تو گانے لگتا۔۔۔!
“ہانڑیاں۔۔۔! اوڑک جاناں ای مر وے چل میلے نوں چلیئے
بیلیا۔۔۔! اوڑک جاناں ای مر وے چل میلے نوں چلیئے”

پُھلاں ورگا ہولا ہو گیا تھا ابّا۔۔۔! خَورے کب گاتے گاتے سو گیا راستہ باقی تھا۔۔۔! پیروں کے چھالے رِسنے لگے تھے۔۔۔! گھر پہنچ کر ابّا کو لٹایا۔۔۔! ابّا۔۔۔! ابّا۔۔۔! مَیں چیخ چیخ کر ابّا کو بُلا رہی تھی۔۔۔! ابّا چلا گیا تھا۔۔۔! امّاں سے باتیں کرتا کرتا اب کی بار امّاں کےساتھ ہی چلا گیا۔۔۔! میرے ساتھ گُڈیاں پٹولے کھیلنے والا چلا گیا۔۔۔!

“ہانڑیاں۔۔۔! اوڑک جاناں ای مر وے چل میلے نوں چلیئے
بیلیا۔۔۔! اوڑک جاناں ای مر وے چل میلے نوں چلیئے
ایلّا پھڑ کنجیاں وے سانبھ لے تجوریاں
کھسماں نوں کھاندا ای تیرا گھر وے
چل میلے نوں چلیئے”

مَیں سمجھ ہی نا پائی ابّا کس میلے کی بات کرتا تھا۔۔۔! اور ابّا میلے کو چل دیا۔۔۔!

Mubashra.Naz
About the Author: Mubashra.Naz Read More Articles by Mubashra.Naz: 4 Articles with 6876 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.