الیکشن بھی ہوگئے، پاکستان تحریک انصاف اتحادیوں کی مدد
سے حکومت بنانے میں کامیاب بھی ہوگئی، عمران خان نے بطور وزیراعظم ذمہ
داریاں بھی سنبھال لیں اور وفاقی کابینہ بھی سامنے آگئی۔ وفاقی کابینہ میں
شامل لوگوں کے ماضی اور سیاسی بیک گراؤنڈ دیکھ کر یہی کہا جا سکتا ہے کہ
تبدیلی محض ایک نعرہ تھا۔ وفاقی کابینہ میں شامل وزراء پیپلز پارٹی اور
مشرف حکومت کا حصہ رہ چکے ہیں۔ اسد عمر اور شیری مزاری کے علاوہ کوئی بھی
تحریک انصاف کا بنیادی رکن وزیراعظم عمران خان کی کابینہ کا حصہ نہیں بن
سکا۔
عمران خان کی جانب سے پنجاب کے اسپیکر کے لئے پرویز الہی کا انتخاب اور
وزارت اعلی کے لئے عثمان بزدار جیسی متنازعہ شخصیت کا انتخاب یہ ظاہر کرتا
ہے کہ تبدیلی محض باتوں کی حد تک ہے۔ عمران خان نے پنجاب کا گورنر چوہدری
سرور کو نامزد کیا ہے جسے سابق وزیراعظم نواز شریف نے پنجاب کا گورنر مقرر
کیا تھا جبکہ سندھ میں عمران خان نے عمران اسماعیل کو سندھ کا گورنر مقرر
کیا ہے جو ایف اے پاس ہیں۔ عمران خان نے جس شخص کو خیبر پختونخواہ کا
وزیراعلی نامزد کیا ہے وہ بھی متنازع شخص ہیں اور کرپشن مقدمات کا سامنا
کرچکے ہیں۔ وفاقی کابینہ میں شامل زبیدہ جلال کی کرپشن کے قصے سب کے سامنے
ہیں اور ایک اور وفاقی وزیر فہمیدہ مرزا لاکھوں روپے کے قرضے معاف کرواچکی
ہیں۔ بات کی جائے ایم کیو ایم کے دو وزراء کی تو وہ بھی سابق صدر پرویز
مشرف کی کی وفاقی کابینہ کا حصہ رہ چکے ہیں۔ کل تک عمران خان ایم کیو ایم
کے بارے میں جو کچھ کہتے رہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے لیکن آج ایم کیو
ایم کے دو اہم رہنما عمران خان کی کابینہ کے اہم وزیر ہیں۔ کہا جا سکتا ہے
کہ اسد عمر اور شیریں مزاری کے علاوہ وفاقی کابینہ کوئی بھی شخص غیر متنازع
نہیں۔ تحریک انصاف کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ عمران خان نے حکومت بنانے کے
لئے مک مکا اور جوڑ توڑ کی سیاست کی جس کا الزام وہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز
پارٹی پر لگاتے رہے۔
عمران خان نے کہا ہے کہ وہ سادگی اختیار کریں گے اور ابتدائی طور پر سادگی
نظر بھی آرہی ہے مگر یہ چند دنوں کی بات ہے۔ تین ماہ گزر جائیں عوام پھر
سیکیورٹی کے نام پر وہی پروٹوکول دیکھے گی جو ماضی میں دیکھتی رہی۔ عمران
خان نے کہا کہ وہ صرف دو گاڑیوں کو استعمال میں رکھیں گے مگر جب انہوں نے
دفتر خارجہ کا دورہ کیا تو سات سے زائد گاڑیوں کے قافلہ ان کے ہمراہ تھا۔
تاریخ گواہ ہے تبدیلی باتوں سے نہیں آتی، نا اب باتوں سے تبدیلی آئے گی۔
حقیقی تبدیلی کے لئے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ عمران خان کی نیت پر شک
نہیں کی جاسکتا مگر انہیں اپنی کابینہ میں شامل وزراء کی کارکردگی پر کڑی
نظر رکھنی ہوگی۔
وزیر اطلاعات فواد چوہدری کہتے ہیں کہ وہ پریس کانفرنس کے بعد صحافیوں کو
صرف چائے بسکٹ دیتے ہیں اور اسے تبدیلی قرار دیتے ہیں۔ سمجھ نہیں آتہ کہ
فواد چوہدری سموسوں کے پیسے بچا کر کونسی تبدیلی لانا چاہتے ہیں۔ میری نظر
میں یہ سب پبلک اسٹنٹ ہیں مطلب دکھاوا ہے کیونکہ اس سے قومی خزانے کو کچھ
فائدہ نہیں۔ قوم نے یہ سوال کرنا شروع کردیا ہے کہ کیا یہی تبدیلی ہے جس کے
لئے ہم نے ووٹ دیا تھا؟۔حقیقی تبدیلی اس دن آئے گی جب عمران خان وعدے کے
مطابق ملک کا لوٹا ہوا پیسہ واپس لائیں گے جو ان کے مطابق سوئس بینکوں اور
دیگر ممالک میں پڑا ہے۔ عمران خان اگر ملک کی لوٹی ہوئی دولت واپس نا لاسکے
تو جو عوام آج تبدیلی کے گن گا رہی ہے وہی عمران خان کے خلاف سڑکوں پر
ہوگی۔
|