میں سال ایک سے پاکستان واپس آ گئی تھی روزانہ نماز اور
قرآن مجید پڑھنے کے بعد میں صبح دم ٹہلنے کے لیے نکلتی ابھی پو پھوٹ رہی
ہوتی ۔
صبح انگڑائی لے رہی ہوتی، سورج اپنے خوبصورت رنگوں کے ساتھ جلوہ افروز ہو
رہا ہوتا ، کیا ہی خوبصورت نظارہ جس کو مدتوں میں نے ایئرکنڈیشن والے کمرے
میں گزار کے ضائع کر دیا۔ اب جب تڑکے اٹھتی ہوں تو خدا کی ثنائی دیکھ کے
دنگ رہ جاتی ہوں ۔صبح کے نظارے کے منظر کو ہم شہری لوگ کس طرح برباد کر
دیتے ہیں
گھر شہر سے پرے کھلی جگہ بنا لیا تھا سو الحمداللہ میں اب سہانی صبح سے لطف
اندوز ہو رہی ہوں ۔ایک طرف ابھرتا ہوا زرد سورج جو لمحہ بہ لمحہ اپنی آب و
تاب کے ساتھ جلوہ افروز ہو ہو رہا ہے تو دوسری جانب ڈوبا ہوا بنا روشنی کے
چاند جو اب آسماں کی بے کراں وسعتوں میں گم ہونے کو تیار کھڑا ہے
یا خدا یہ کیسا منظر ہے یہ کیسی ترتیب ہے جسے تو ہی انجام دے سکتا ہے
۔پرندے گھونسلوں سے نکل آئے اور سریلی آوازوں میں حمد و ثناء کرنے لگیے،
ہریالی آنکھوں کو سکون دینے لگی اور باغ میں لگے پھول اپنے رنگوں اور تازگی
پہ اترانے لگے
ایسے میں میں خدا کی حمد و ثناء کرتے ہوے میں ہو لے ہولےاپنے قدم تیز کر
لیتی کہ صبح کی سیر ہو جاے جسے ہم اب واک کہنے لگے ہیں
گھر میں کچھ فاصلے پر ملازموں کی رہائش تھی جو مجھے ٹہلتے ہوے نظر آتی تھی،
ہر روز صبح دم نظرت اپنے اور بچوں کے لئے ناشتہ بناتی، اور یہ روزانہ مقررہ
وقت پر ہوتا کبھی دیری یا ناغہ نہ ہوتا اس کے بعد میاں بیوی میرے گھر کام
پر آ جاتے
ان دونوں میاں بیوی میں بہت سلوک تھا میں نے ان کو کبھی لڑتے جھگڑتے نہ
دیکھا تھا
ان دونوں کی ایک ہی بات ہوتی، میں ان کا سلوک دیکھ کر حیران ہوتی، دونوں
بارہ سال سے ہمارے ہاں ملازم تھے
وقت اپنی رفتار سے بھاگ رہا تھا
ایک دن نظرت کی دوسری ملازمہ سے تو تو میں میں ہو گئ
بڑی مشکل سے میں نے جھگڑا ختم کروایا پر کہاں؟ ان کے دلوں کی کدورت ختم نہ
ہوئی کچھ دن بعد پھر جھگڑا شروع اور اب کےدونوں گالم گلوچ پر آگئی، جھگڑا
اتنا بڑھا کہ نظرت نے اعلان کر دیا کہ اب وہ میرے ہاں کام نہیں کرے گی
بہت سمجھانے پر بھی وہ باز نہ ائی اور اپنے فیصلے پر برقرار رہی
میں نے اس کے خاوند کو بلا کر بتایا کہ نظرت کام نہیں کرنا چاہتی تم اس کو
سمجھاو
سب سننے کے بعد بولا تو میں حیران رہ گئی" باجی جو میری بیوی نے کہ دیا
ٹھیک "
اور میں ششدر کھڑی اس کا منہ دیکھتی رہ گئی
تم اپنی بیوی کو سمجھاو "نہیں جی جو اس نے کہ دیا ٹھیک ہے ۔۔۔
میں نے کہا تم گزارا کیسے کرو گے اللہ مالک ہے جی:
اور وہ بارہ سالہ ملازمت چھوڑ کر چلے گئے
میں سخت پریشان تھی کہ اتنے پرانے ملازم چلے گئے پر حیرت اس بات پر کے بیوی
کے فیصلے کا کس قدر احترام
اب مجھے ان کی آپس کی انڈرسٹینڈنگ کا پتہ چلا کہ اس نے بیوی کے فیصلے کا
احترام کس طرح کیا
اتنی پرانی ملازمت کی بھی پرواہ نہ کی
نئی ملازمت کا کوئی بندوبست نہ تھا
بس اللہ تو کل نکل گیا
کیا یہ اس کا پیار تھا،احترام تھا یا رن مریدی تھی
پر گہرائی میں جا کر سوچیں تو یہ وہ بھروسہ اور تو کل تھا جو آج کل کی نسل
میں ناپید ہے، جس کی وجہ سے گھر ٹوٹ رہے ہیں اور طلاق کی شرح میں روز بہ
روز اضافہ ہو رہا ہے۔ وہ تو چلا گیا پر ایک سوال میرے سامنے چھوڑ گیا
کیا آج کا جوان اپنی بیوی کو اتنا احترام اور بھروسہ دیتا ہے؟
|