سوال(1) کیا ایک عورت اپنی بہن کے داماد سے پردہ کرے گی ؟
جواب :ہاں عورت اپنی بہن کے داماد سے پردہ کرے گی کیونکہ وہ اس عورت کا
محرم نہیں ہے ۔ بخاری ومسلم کی حدیث میں عورت کو اس کی خالہ یا پھوپھی کے
ساتھ جمع کرنا حرام قراردیا گیاہے ۔ اس حدیث کی وجہ سے ہم یہ نہیں کہیں گے
کہ اپنی بہن کا داماد محرم ہوگیا ، نہیں ۔ دونوں آپس میں اجنبی ہی ہیں جیسے
دو سگی بہنوں کو ایک ساتھ نکاح میں جمع کرنا حرام ہے مگر سالی اپنے بہنوئی
سے پردہ کردے گی ۔ عورت کے لئے صرف اپنے داماد سے پردہ نہیں ہے اور اپنا
داماد عورت کے رضاعی بیٹے کا شوہر ہے یا اپنی سگی بیٹی کا شوہر ۔ عورت کی
پوتی ، پڑپوتی اور نواسی کا شوہر بھی داماد کے حکم میں ہے۔
سوال(2)کیا چھوٹی بچیوں کا رقص کرتے ہوئے نظم پڑھنا شریعت کی رو سے جائز ہے
؟
جواب : آجکل مسلمانوں کے یہاں اسٹیج پروگراموں میں بچیاں بدن کو حرکت دیتے
ہوئے نظم پڑھتی ہیں ، بعض مقامات پر ایسی حرکات کے ساتھ قرآ ن بھی تلاوت
کرتے ہوئے نظر آتی ہیں ۔ رقص کوئی اچھی چیز نہیں ہے کہ ہم مدرسوں اور
اسکولوں میں مسلم بچیوں کو تلاوت اور اناشید کے ساتھ رقص بھی کروائیں ۔یہ
چیز ناظرین کو بھاتی ہے مگر اس میں غیروں کی نقالی اور فتنے کا سبب ہے ۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وأما الرقص من النساء فهو قبيح لا نفتي بجوازه لما بلغنا من الأحداث التي
تقع بين النساء بسببه ، وأما إن كان من الرجال فهو أقبح ، وهو من تشبه
الرجال بالنساء ، ولا يخفى ما فيه ، وأما إن كان بين الرجال والنساء
مختلطين كما يفعله بعض السفهاء : فهو أعظم وأقبح لما فيه من الاختلاط
والفتنة العظيمة لا سيما وأن المناسبة مناسبة نكاح ونشوة عرس (فتاوى
إسلامية: 3/187).
اس عبارت کا ترجمہ یہ ہے کہ رقص کرنے میں قباحت ہے اس وجہ سے ہم اس کے جواز
کا فتوی نہیں دے سکتے اور ہمیں یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ اس کے سبب عورتوں
میں فتنہ برپا ہوا ہے ۔ اگر مرد رقص کرے توعورت کے رقص سے بھی قبیح ہے
کیونکہ اس میں عورتوں کی مشابہت ہے اور اس کی قباحت سب پر عیاں ہے۔ اگر
مردوعورت کے ساتھ مخلوط رقص ہو جیساکہ بعض بے وقوف کرتے ہیں تو یہ مردوں کے
رقص سے بھی قبیح اور عظیم گناہ ہے کیونکہ اس میں اختلاط کے ساتھ بڑا فتنہ
پایا جاتا ہے بطور خاص نکاح اور شادی کی مناسبت سے ہو۔
اس لئے ذمہ داران ادارہ و تنظیم سے گزارش ہے کہ بچیوں کا مستقبل خراب نہ
کریں ، یہ کل گھروں کی مالکن بنیں گی ، اگر اس نہج پہ بچیوں کی تربیت کی
گئی تو اپنے گھروں میں اور معاشرہ میں یہی چیز پھیلائے گی اور فتنے کا سبب
بنیں گی ، اس وقت فتنے کا اصل ذمہ دار مربی ہوں گے ۔
سوال(3)جس طرح بیوی کے لئے بستر پہ بلانے سے انکارکرنے پر سخت وعید ہے ، اس
کے برعکس اگر شوہر بیوی کی خواہش پوری کرنے سے انکار کرے تو کیا حکم ہے ؟
جواب: صحیح بخاری(3237) میں فرمان رسول ﷺ ہے : جب کوئي شخص اپنی بیوی
کواپنے بستر پر بلائے اوربیوی آنے سے انکار کردے اورخاوند اس پر ناراضگی کی
حالت میں ہی رات بسر کردے تو اس عورت پر صبح ہونے تک فرشتے لعنت کرتے رہتے
ہیں۔ اس حدیث میں مذکور لعنت عورت کے ساتھ خاص ہے ،ایسی کوئی خاص وعید
مردوں کے سلسلے میں نہیں ہے ۔ اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ عموما جماع کا
مطالبہ شوہر کی طرف سے ہوتا ہے اور جماع پہ کنٹرول مردوں کے مقابلے میں
عورتوں میں زیادہ ہوتا ہے۔ پھر بھی اللہ کے رسول ﷺ نے مردوں کو عورتوں کے
متعلق ڈرنے کا حکم دیا ہے ۔
مسلم شریف کی حدیث ہے :فاتقوا اللهَ في النِّساءِ(مسلم :1218)
ترجمہ : اے لوگو! تم عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو۔
شوہر پر بیوی کے حقوق میں سے ہے کہ اس کا شوہر حسب ضرورت بیوی کی خواہش
پوری کرے ،اگر وہ بلاعذر بیوی کی خواہش پوری نہیں کرتا تو ایسا شوہر ظالم
ہے اور بیوی مظلوم ہے ۔ مظلوم اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہوتا ،اس
وجہ سے نبی ﷺ نے مظلوم کی بددعا سے بچنے کا حکم دیا ہے ۔ اگر مظلوم بددعا
نہ بھی کرے پھر بھی اللہ کےیہاں اس کے لئے دردر ناک عذاب رکھا ہے ۔ فرمان
الہی ہے : وَمَن يَظْلِم مِّنكُمْ نُذِقْهُ عَذَابًا كَبِيرًا(الفرقان:19).
ترجمہ: تم میں سے جس نے بھی ظلم کیا ہے ہم اسے بڑا عذاب چکھائیں گے ۔
عورتوں کو اس معاملے میں صبر سے کام لینا چاہئے ، اللہ صبر کرنے والوں کے
ساتھ ہوتا ہے۔
سوال(4)حرم شریف میں ایک نماز کا ثواب ایک لاکھ ہے کیا یہ فرض نماز کے ساتھ
خاص ہے ؟
جواب : اس سلسلے میں نبی ﷺ کی جو حدیث ہے وہ عام ہے،ہر نماز کو شامل ہے ۔
آپ ﷺ فرماتے ہیں :
صلاةٌ في مسجِدي أفضلُ من ألفِ صلاةٍ فيما سواهُ إلَّا المسجدَ الحرامَ
وصلاةٌ في المسجدِ الحرامِ أفضلُ من مائةِ ألفِ صلاةٍ فيما سواهُ(صحيح ابن
ماجه:1163)
ترجمہ:میری مسجد میں نماز مسجد حرام کے سوا کسی بھی مسجد کی ہزاروں نمازوں
سے افضل ہے۔ اور مسجد حرام میں ایک نماز پڑھنا کسی دوسری مسجد کی ایک لاکھ
نمازوں سے افضل ہے۔
یہاں "صلاۃ" کا لفظ وارد ہے جو فرض، سنت اور نفل تمام نمازوں کو شامل ہے
لہذا مسجد حرام میں ایک نماز کا ثواب فرض کے ساتھ تمام نمازوں کوبھی شامل
ہے ۔
سوال(5)کسی سہیلی نے مجھ سے پوچھا ہے کہ آدم علیہ السلام نے حوا کو مہر میں
کیا دیا تھا؟
جواب : مختلف کتب سیراور قصص ومواعظ کی کتابوں میں حوا کا مہر نبی ﷺ پر
درود پڑھنا ہے۔ درود پڑھنے کی تعداد بھی مذکور ہے ، یہ تعداد بعض جگہ تین
مرتبہ ، بعض جگہ دس مرتبہ، بعض جگہ بیس مرتبہ، بعض جگہ سو مرتبہ اور بعض
جگہ ہزار مرتبہ آیا ہے ۔ ان ساری روایات کا حکم یہ ہے کہ حوا کے مہر کے طور
پر آدم علیہ السلام کا نبی ﷺ پر درود پڑھنا کسی بھی صحیح حدیث سے ثابت نہیں
ہے ۔
سوال(6)کسی کا باپ مرجائے اور اس کے ذمہ قرض ہو تو کیا اس کی اولاد زکوۃ سے
قرض کی ادائیگی کر سکتی ہے ؟
جواب : میت کے ذمہ قرض ہو تو اس کے وارثین کی ذمہ داری ہے کہ میت کے ترکہ
سے قرض کی ادائیگی کریں۔ اگرمیت نے مال نہیں چھوڑا ہو تو جو بھی ترکہ میں
چھوڑا ہو اسے بیچ کر ادا کیا جائے ۔ بالکل ترکہ نہ ہو تو اولاد زکوۃکے
علاوہ مال سےقرض ادا کرسکتی ہے یا قرض خواہ خود ہی معاف کردے ۔ قرض کی
ادائیگی کے لئے اولاد کے پاس زکوۃ کے علاوہ رقم نہ ہو تو اس صورت میں زکوۃ
کی رقم میت کی طرف سے قرض کی ادائیگی کے لئے دی جاسکتی ہے۔
سوال(7)ایک خاتون کئی سالوں تک بال ڈائی کراتی رہی ، اور نماز بھی پڑھتی
تھی اسے اب معلوم ہوا کہ بال ڈائی نہیں کرانا چاہئے تو اس کی پچھلی نماز کا
کیا حکم ہے کیونکہ اس سے تو وضو نہیں ہوتا؟
جواب : مردوں اور عورتوں کے لئے صرف کالے رنگ سے بال رنگنامنع ہے ، کالے
رنگ کے علاوہ دوسرے رنگ سے بال رنگنا منع نہیں ہے ۔ وضو کے وقت بالوں پر
پرت جمی ہو اس طورپر کہ وضومیں مسح کا پانی بال تک نہیں پہنچ پاتا ہو تو اس
صورت میں وضو نہیں ہوگا اور اس طرح وضوکرکے پڑھی گئی نماز نہیں ہوگی ۔ اگر
عورت کالے رنگ سے بال رنگتی تھی اور اس کے بال پر وضو کے وقت پرت جمی ہوتی
اس حالت میں وضو کرتی اور نماز پڑھتی تو یہ عورت کی شریعت کے حکم سے نادانی
اور جہالت ہے ، وہ سابقہ عمل سے سچی توبہ کرے اور آئندہ اس عمل سے پرہیز
کرے ۔ اللہ توبہ قبول کرنے والا ہے۔
سوال(8)جوعورت احرام کی حالت میں وفات پاجائے اس کے غسل اور تکفین کی کیا
صورت ہوگی ؟
جواب: دوران حج وفات پانے والے مرد کو بیری ، پانی اور غیرخوشبو والے صابون
سے غسل دیا جائے گا اور احرام کے کپڑے میں ہی کفن دیا جائے گا ۔ نہ اس کا
بال کاٹاجائے گا، نہ اس کا ناخن کاٹا جائے گا اور نہ ہی اسے خوشبو لگائی
جائے گی ۔ محرم کی طرح اس کا سر بھی کھلارہے گا اور کھلے سر، ایک چادر، ایک
ازارمیں نماز جنازہ پڑھ کر دفن کردیا جائے گا۔
محرمہ میت کو بھی غسل دیتے وقت بیری اور پانی سے غسل دیا جائے اور ہرقسم کی
خوشبو سے پرہیز کیا جائے گا حتی کہ کفن میں بھی خوشبونہیں لگائی جائے گی
۔عام عورتوں کی طرح تین کپڑوں میں تدفین ہوگی اورسر و چہرہ بھی ڈھکا جائے
گا مگر نقاب سے نہیں بلکہ دوسرے کپڑے سے ۔
سوال(9) کیا عورت اپنی مرضی سے والد کی میراث کا حصہ چھوڑ سکتی ہے ؟
جواب: اگر عورت بغیرمجبوری ، خوشی خوشی اپنے ہوش وحواش میں اپنا حصہ دیگر
وارثین کے لئے چھوڑ دیتی ہے تو اس میں شرعا کوئی حرج نہیں ہے ۔ یہاں ایک
امر کی وضاحت ضروری ہے کہ بسا اوقات وارثین تقسیم میراث میں عورتوں کو جان
بوجھ کر محروم کرتے ہیں یا اپنا حصہ چھوڑدینے کا مطالبہ اور اس مطالبے پر
جبر کرتے ہیں یا حصہ مانگنے پر عورتوں سے رشتہ توڑ لیتے ہیں ایسی صورتوں
میں مجبورا عورتیں اپنا حصہ چھوڑ دیتی ہیں ۔ میراث کی غیرمنصفانہ تقسیم
کرنے والے لوگ اپنی آخرت بربادکرتے ہیں ، کل قیامت میں انہیں بندوں کی حق
تلفی کی بدترین سزا ملے گی ۔ اس سزا سے بچنے کا راستہ دنیا میں حق والوں کا
حق دینا ہے ۔
سوال(10)اپنی سہیلی کی کوئی خوبی پسند آئے تو کیا میں اس سے بیان کرسکتی
ہوں؟
جواب: منہ پر کسی کی تعریف کرنے سے منع کیا گیا ہے تاکہ وہ کبروغرور میں نہ
مبتلا ہوجائے لیکن اگر ممدوح کی بجا تعریف کرنے میں غرور کا اندیشہ نہ ہو
تو مناسب الفاظ میں سامنے بھی تعریف کی جاسکتی ہے جیساکہ بعض احادیث سے
جواز کا پہلو نکلتا ہے۔ تاہم خوشامدی الفاظ، بے جاتعریف، جھوٹےالقاب،مطلبی
کلمات، غلو اور چاپلوسی کسی صورت میں جائز نہیں ہے۔ اللہ اس مرض سے ہمیں
بچائے ۔
|