تحریر: رقیہ فاروقی، راولپنڈی
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کا دنیا میں تشریف لانا کائنات کے لئے بڑا اعزاز تھا،
ایک عظیم انقلاب کی سچی پیش گوئی تھی، جس کی روشنی سے عالم نے منور
ہوناتھا۔ اس لئے بعد از ولادت عجیب وغریب واقعات رونما ہوئے تھے۔ بی بی
آمنہ فرماتی ہیں کہ ولادت سے کچھ دیر بعد ایک دھند سی چھا گئی، مجھے ایسا
لگا کہ میرا لخت جگر میری گود میں نہیں ہے۔ پھر آواز آئی کہ اس بچے کو مشرق
ومغرب کی سیر کرا دو۔ اطراف عالم میں اس عظیم ہستی صلی اﷲ علیہ وسلم کی
پہچان کرا دی گئی۔ ہر خاص و عام پر معرفت کے در وا ہوگئے۔ محبت کے خزینے
بانٹ دیے گئے۔ جب جب یہ نفس مقدس صلی اﷲ علیہ وسلم پروان چڑھتا گیا لوگوں
پر صلاحیتوں کے جوھر کھلتے گئے۔
صادق اور امین لقب کے حقدار ٹھرے۔ ابھی بعثت کا اعلان باقی تھا، کہ حجر
اسود کی تنصیب کا واقعہ پیش آگیا۔ یہ یاد رہے! کہ عرب کے لوگ ایک بہادر اور
جنگجو قوم تھے۔ اس خطے نے کبھی بہار کا منہ بھی نہیں دیکھا تھا۔جنگ وجدل جس
قوم کا وطیرہ ہو اس کے لئے ترقی کی راہیں مسدود ہوتی ہیں، کچھ ایسا ہی بنجر
جزیرہ عرب بھی تھا۔ تہذیب و تمدن سے عاری لوگ وہاں کے باشندے تھے، سو جب
خانہ کعبہ کی تعمیر کی گئی، تو ہر کوئی حجر اسود کی تنصیب کر کے اس شرف کا
مستحق بننا چاہتا تھا۔ قریب تھا کہ تلواریں نیام سے نکل آتی اور نہ ختم
ہونے والی جنگ کا سلسلہ شروع ہوجاتا۔
صلح جو پیغمبر صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی تجویز پیش کر کے قوم کو بڑے نقصان
سے بچا لیا۔ اﷲ پاک نے اس عظیم کام کا سہرا بھی آپ کے سر پر سجا دیا تھا۔
زمانہ جاہلیت میں تمام لوگ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی خوبیوں کے معترف تھے
لیکن جب کلمہ حق کا اعلان کرنے کا حکم دیا گیا، صفا کے چوٹیوں سے لاالہ
الااﷲ کی صدا بلند ہوئی تو مخالفت کا ایک طوفان اٹھ گیا تھا۔ پوری ملت کفر
یک زبان ہوگئی، اجنبی تو کجا، اپنے بھی دشمن جان بن گئے۔ جو اس داعی حق صلی
اﷲ علیہ وسلم کا رفیق بنتا وہ بھی ستایا جاتا لیکن عزم و ہمت کے ایسے کوہ
گراں تھے کہ پایہ ثبات میں لغزش بھی محال تھی۔
پھر دنیا نے کمالات کا اعتراف کیا۔ ابوجہل حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کا
بدترین دشمن تھا۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ موسی کا
فرعون چھوٹا تھا۔ میرا فرعون (ابوجہل) بڑا فرعون ہے۔ بدر کے میدان میں ایک
کافر نے اس سے پوچھا،اے ابو الحکم! میں تیری عظمت کو جانتا ہوں، تم قریش کے
سردار ہو، مگر سچی بتاؤ کہ کیا تم اس پیغمبر صلی اﷲ علیہ وسلم کو سچا
سمجھتے ہو یا جھوٹا؟ ابو جہل کہنے لگا۔ میں کہتا ہوں کہ وہ ایسا سچا انسان
ہے کہ جس نے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ اس نے کہا کہ جب سچا سمجھتے ہو تو بات
کیوں نہیں مانتے؟ کہنے لگا! میری سرداری چلی جائے گی۔ آفرین ہے ایسے انقلاب
پر کہ جس نے دشمن کے دل بھی فتح کر لیے تھے۔
کتنے ہی انگریز مورخ بھی سیرت لکھتے ہوئے سواے تعریف کے کچھ نہ لکھ پائے۔
ایک فرانسیسی مصنف ہیٹی لکھتا ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم تاریخ کی
پوری روشنی کے اندر دنیا میں تشریف لائے۔ پھر کہیں مائیکل ہارٹ انگریز مورخ
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو خراج تحسین پیش کرتا ہے کہ میں نے سو بہترین آدمیوں
کا تذکرہ کیا ان میں سب سے بہترین محمد عربی صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذات اقدس
تھی۔ اس میں حیران ہونے کی بات نہیں اس لیے کہ میرے پاس ٹھوس دلیل موجود
ہے۔ کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم دنیا کی وہ واحد ہستی ہیں۔ جنہوں نے کبھی کس
استاد کے سامنے ذانوے تلمذ طے نہیں کیا۔
آج کے گستاخ تو اس پاک ہستی کی گستاخی کر کے اپنا نامہ اعمال سیاہ کر رہے
ہیں۔ یا پھر شاید یہ یہود کی وہی نسل ہو۔ جس نے موقع ولادت پر آسمان پر سرخ
ستارہ چمکتا ہوا دیکھا جو تورات میں نبی آخر الزمان کی تشریف آوری کی پیش
گوئی تھی، جب انہیں بنو اسماعیل میں نبوت کی منتقلی کی خبر ملی۔ تو انہوں
نے سینے پیٹ لئے تھے اور پھر وہ جلن نبوت کے ماہ تاب کی رحلت تک اپنا اثر
دکھاتی رہی، حتی کہ رحلت کے وقت بھی یہودیہ کے دیے جانے والے زہر کی تکلیف
موجود تھی۔
فتنوں کے اس دور میں ہم اتباع نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم کر کے اپنی محبت کا
ثبوت دیں۔ کم از کم ہر امتی اپنے ذات پر اسوہ حسنہ کا خول چڑھا کر ختم نبوت
کا پہریدار تو بن ہی سکتا ہے۔ تو پھر دیر کس بات کی۔ آج ہی اپنے گھروں میں
مسنون اعمال کا اہتمام کر کے دنیا وآخرت میں سرخرو کا سندیسہ حاصل کر لیں۔
|