آج ہم ایک ٹکے کے بھی نہیں رہے ،بنگلہ دیش کیا ٹکہ
پاکستانی روپے سے بڑا ہے، بنگلہ دیش ہم سے کیسے آگے نکل گیا ، کوئی ملک
دوسرے ملک سے امیر کیسے ہو سکتا ہے اس کے پیچھے کیا عوامل ہوتے ہیں ۔ کہتے
ہیں کہ تعلیم کے لئے بھی بھرپور وسائل کی ضرورت ہوتی ہے اگر ایسا ہے تو آج
بنگلہ دیش ہم سے کیو ں آگے نکل گیا جبکہ اس کے پاس تو پاکستان سے کم وسائل
تھے ۔ اس ضمن میں چین اور ملائیشیا کی مثالیں بھی ہمارے سامنے ہے۔ خوش
قسمتی سے تعلیم حاصل کرنے کے لئے دولت ہی واحد عوامل نہیں بلکہ قوم کا کلچر
ان عوامل میں شامل ہے جس میں علم کی خواہش پروان چڑھتی ہے اور قوموں کو
تعلیم کی طرف گامزن کرتی ہیں۔ ارسطو کا کہنا تھا کہ بچوں کی نگہداشت کرنا
سب سے اہم کام ہے اگر والدین اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے بچوں کی اچھی پرورش
کریں تو اس نسل کی عمر میں ہی معاشرے کی خرابیا ں ختم ہو جاتی ہیں اورہر
شہری مہذب ہوگا ۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کا راز ہی تعلیم ہے
جاپان میں روز نئی نئی ایجاد ہورہی ہے آج ایجاداد کے دوڑ میں ساوٗتھ کوریا
بھی تیزی سے ترقی کر رہا ہے، امریکہ دنیا میں طاقتور ملک کی حیثیت رکھتا ہے
۔ ان ممالک نے ایک مدت انسان کی تربیت پر صرف کیئے اور اپنی نسلوں کو اچھی
تعلیم دی ، جو آج ملک کی ترقی میں اپنا کردار رہے ہیں ۔ اگر ہم پاکستان کی
بات کریں تو اس کا تعلیمی نظام ابتداء سے ہی بے توجہی کا شکا ررہا جس کا
تسلسل آج بھی قائم ہے ۔ پاکستان کی شرح خواندگی 59%بتائی جاتی ہے ۔ شرح
خواندگی سے مراد ایسے افراد جو اپنا نام خود لکھ پڑھ سکتے ہوں ۔ اب اس میں
ہم تعلیم کے معیار کا پیمانہ ناکریں تو تعلیم کی شرح میں واضح کمی ہوگی صرف
اپنا نام لکھنے پڑھنے والے کیسے ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں گے ۔
ملک کو ترقی دینے میں عبدالسلام اور ڈاکٹر عبدالقدیر جیسی شخصیا ت کا کردار
ہوتا ہے ۔ افسوس کے ساتھ پاکستان نے وسیم اکرم، جہانگیر خان ، عامرخان جیسی
شخصیات تو دیں یہ بھی ہمارا فحر ہیں مگر ڈاکٹر عبدالقدیر جیسی شخصیات نہیں
دیں جو ملک کو ترقی کے طرف گامزن کرتے۔ جرمنی میں ہٹلر کی دور میں جب نسل
کشی شروع ہوئی تو جرمنی کے تعلیم یافتہ لوگ امریکہ کے طرف ہجرت کر گئے اور
وہا ں یونیورسٹیوں میں اپنی تعلیمی محارت دیکھائیں اس وقت ایسا ہوتا تھا
جیسے پاکستا ن سے لوگ باہر ممالک تعلیم حاصل کرنے جاتے ہیں ایسے ہی وہا ں
کے لوگ بھی دوسرے مماکک تعلیم حاصل کرنے جاتے تھے، مگر انہوں نے اپنے
تعلیمی نظام اتنا بہتر بنایا کہ باہر ممالک تعلیم حاصل کرنے کے لئے جانے
والے واپس اپنے وطن آگئے اور اپنے ہی ملک میں تعلیم حاصل کرنے لگے ۔ آج
دنیا بھر میں تحقیقیں کی جارہی ہیں ۔لیکن پاکستان میں اس کا رحجان کافی حد
تک کم ہے اور جو تحقیق میں دلچسپی رکھتے ہیں انہیں وسائل کی عدم فراہمی سے
دوچار ہونا پڑتاہے ۔ پاکستان ذہنی صلاحیت کے اعتبار سے صفِ اول میں شمار
ہوتا ہے ۔ پاکستانی باہرممالک تعلیم حاصل کرنے جاتے ہیں اور جہاں جاتے ہیں
اپنے آپ کومنواکے آتے ہیں ۔ ترقی کا سفر تعلیم کے بغیر ناگزیر ہے ۔ ہر وہ
قوم جو آج دنیا میں ترقی یافتہ ملک کے نام سے جانیں جاتے ہیں اس کا سہرا
تعلیم کو ہی جاتاہے ۔ لہٰذا پاکستان کو دنیا سے سیکھتے ہوئے تعلیم کی بہتری
کے لئے اقدامت کریں، کیونکہ تعلیم ہی ترقی کا راز ہے۔ |