رب العزت کے عطاء کردہ نظام اور خود فکر انسانیت رکھنے
والوں کی تعلیمات انصاف مساوات کا درس دیتی ہیں مگر سب کچھ اس کے برعکس چل
رہا ہے بالعموم برصغیر اور بالخصوص ہمارے وطن عزیز پاکستان میں بڑا نام ‘
منصب ‘ اثاثے ‘ بنگلے ‘ کوٹھیاں ‘ گاڑیاں ‘ پلازے ‘ کاروبار ‘ سیاست ‘
ملازمت ‘ تجارت ‘ صحافت ‘ وکالت سمیت ہر شعبہ زندگی میں زوال اس حد تک شدت
اختیار کر گیا ہے کہ سچائی ‘ دیانت ‘ محنت و لگن ‘ ہنر مندی ‘ غیرت ‘
خوداری کو بطور سفید پوش صرف بے وقوفی نہیں بلکہ بے عزتی سمجھا جانے لگا ہے
اور ان کے متضاد طرز عمل رویوں کو عقل مندی عزت کامیابی تصور کیا جا رہا ہے
‘ جس کے باعث احساس محرومیوں کے شکار لوگوں کو کنویں کا مینڈک بنا دیاگیا
ہے جس کا نتیجہ ہے کہ بڑی بڑی باتیں کرنے والے فاطر العقل قسم کے عناصر ان
سب کو بدھو بنا کر گلی محلہ ‘ گاؤں سے لیکر تمام سماج کی اونچائیوں تک
کھڑپینچ بنے ہوئے ہیں اور احساس محرومی کے شکار لوگ بار بار ان کے دھوکوں
میں آنے پر مجبور و محکوم چلے آ رہے ہیں ‘ یہ وہ ظلم عظیم ہے جس کو منافقت
کہا جاتا ہے اور مولا علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں منافق کافر سے بھی بُرا
ہے کہ منافق کا جہنم میں عذاب کافر سے بھی بدتر ہو گا یہ رب العزت کی شان
ہے وہ انصاف کرنے والا اللہ دنیا میں بھی انصاف کرنے والا کافر ہو تو اس کو
عروج آسانیاں دیتاہے اور ظلم کرنے والا کلمہ گو بھی ہو تو زوال ‘ ذلت مقدر
بنتا ہے چاہے انفرادی ہو یا اجتماعی سطح پر ہو جسے پورے ملک بشمول
آزادکشمیر ‘ گلگت بلتستان میں تمام شعبہ جات خصوصاً مدرسوں کی جانب نظر
کرنے سے دیکھا جا سکتا ہے ان مدرسوں میں مستقل قیام پذیر ایسے بچے ہوتے ہیں
جو یتیم ‘ مسکین ہیں یا پھر ان کے ماں باپ ان کی دو وقت کی روٹی اور تعلیم
کا بندوبست بھی نہیں کر سکتے اور چار پانچ سال کی عمر سے لیکر جوان ہو کر
یہ بچے مدرسے سے نکلتے ہیں تو باہر ایک الگ دنیاہے جہاں ان کے زندگی کے شب
و روز سمیت روزی روزگار کا کوئی امکان نہیں ہوتا ہے ماسوائے اس کے کہ یہ
مدرسوں مساجد میں بطور قاری موذن امام خدمت سرانجام دیں یا پھر بغیر ہنر
افراد کی طرح پیٹ کی دوزخ بھرنے کیلئے رُلتے رہیں ‘ عالم امام قاری کتنے
عظیم تر مقام مرتبے ہیں مگر کاروباری مراکز کے افتتاح یا گھروں میں وفات
دیگر موقعوں پر مدرسوں کے بچوں کو گاڑیوں میں بھر کر لانے اور قرآن پڑھانے
کے بعد کھانا کھلا کر واپس کر دیے جاتے ہیں ایسے ماحول میں بچپن سے جوانی
کی طرف بڑھتے افراد کا کرب و الم لفظوں میں بیان نہیں ہو سکتا اور پھر ان
میں سے امام مسجد قاری کے فریضے سرانجام دیتے ہوئے زندگی پوری کر جانے والے
بال بچوں کے ساتھ کیسے دوسروں کی خوشیاں اچھے لباس سکول روز بسر دیکھ کر
جیتے اور مرتے ہیں سارے معاشرے کے لوگ ان کے پیچھے نماز پڑھنے ‘ گھروں میں
قرآن خوانیاں کرانے ‘ دعائیں کرانے کے مقدس فریضے کیلئے ڈھونڈتے ہیں مگر ان
کے لیے طعنوں اور اپنی بھڑاس نکالنے کا غبار اُتارتے ہیں تو اس کا مطلب
ہوتا ہے یہ معاشرے کے وہ سب سے کمزور لوگ ہیں جن کا کسی پر بس نہیں چلتا
اور جس کا جی چاہے وہ ان پرطعنہ زنی اور بھڑاس پوری کر کے خود کو عقل والا
اور اچھا سمجھنے کی عادت پوری کرتا ہے یہ جیتی جاگتی مثالیں ہیں جس کا
اظہار 25 سال سے قائم یتیم ‘ مساکین بچوں کے پرائمری سکول شوکت لائن کے
خاتمے سے ہوا ہے کہ یتیم مساکین بچوں کا یہ واحد ادارہ ‘ محکمہ تعلیم کے
ذمے تھا وہ بھی ختم کر دیا گیا یہ وہ حقیقت ہے کہ اوپر سے نیچے تک سرکار سے
لیکر ہر شعبہ ہر مقام پر یہ مائنڈ سیٹ بن چکا ہے جو زبان سے لفظ تک ادا نہ
کر سکے وہ مرتا ہے تو مر جائے مگر جو پیر مارے چیخے چلائے یا چاپلوسی اور
جی حضوری کرے اس کے ناجائز کام بھی کر دو یہ سارے معاشرے کا المیہ ہے محکمہ
تعلیم بھی دیگر محکموں ‘ شعبوں کی طرح صرف نوکریوں کا ذریعہ بن کر رہ گیا
ہے حکومت تعلیم صحت عامہ سمیت مختلف محکموں کو پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے
تحت سرکاری صرف بچوں کو تعلیمی اور مریضوں کی چیک اپ فیسوں و ادویات کا
خرچہ اپنے ذمے لے لے تو آدھا بجٹ بچ جائے گا کونسل کی طرح بلدیات کو ختم
کرے تو چور بازاری بے غیرتی کے بیج افیم کے عنصربے موت مر جائیں گے عرض صرف
یہ ہے علماء ‘ امام ‘ موذن ‘ قاری کو عزت دیں اور اربوں کے بجٹ میں ان کو
بھی شامل کرتے ہوئے مدرسہ سے سکول بنائیں اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو ۔
|