پاکستان صالح علی السلام کی اونٹنی ہے

پاکستان اور مدینہ پاک کے درمیان پائی جانے والی دلچسپ معلومات سے پردہ اٹھاتی تحریر

پاکستان صالح علی السلام کی اونٹنی ہے

اس مملکت خداداد کا معرض وجود میں آنا درحقیقت دین اسلام کی شان و شوکت کا بین ثبوت اور دنیا کے سیاسی افق پر مہر ربانی کی چھاپ کے مترادف ہے۔ نبی اکرم حضرت محمد مصطفیﷺ کی حیات طیبہ میں ریاست مدینہ کی تخلیق کے بعد یہ امر پہلی بار ظہور پذیر ہوا ہے۔ تاریخ ہی اس بات کا درست فیصلہ کرسکتی ہے کہ اپنے عہد کے سب سے بڑے مدبر حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ نے اپنی قوم کیلئے ایک آزاد مملکت کے حصول کی جدوجہد کے ناممکن کام کو کس طرح ممکن بنا ڈالا۔ باالفاظ دیگر قیام پاکستان کیلئے برپا انتہائی شاندار اور عظیم الشان جدوجہد کے دوران حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ کو بذات خود بھی اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ انکی اس تاریخی جدوجہد کے آنیوالے وقتوں میں عالمی سیاسی منظر نامے پر کتنے دور رس اور نتیجہ خیز اثرات مرتب ہونیوالے ہیں۔ تحریک پاکستان کا بنظرِ عمیق جائزہ لیں تو ایسے ایسے پہلو اور مناظر چشم انسانی پروا ہوتے ہیں جن کی چکاچوند سے ذہن انسانی دنگ رہ جاتا ہے۔ بابائے قوم حضرت قائداعظمؒ سے لیکر برصغیر کے ایک عام مسلمان تک ہر کسی کے من میں ایک ہی دھن سمائی ہوئی تھی کہ چونکہ ہم مسلمان ہیں، لہٰذا نوآبادیاتی سپرپاور کے برصغیر سے چلے جانے کے بعد ہم ظالم ہندو اکثریت کے رحم و کرم پر زندگی بسر نہیں کرسکتے۔چنانچہ مسلمانانِ برصغیر نے فیصلہ کرلیا کہ وہ اپنے لئے ہر صورت ایک الگ مملکت حاصل کرکے دم لیں گے۔ یہی فیصلہ نظریہ ٔ پاکستان اور قیام پاکستان کی بنیاد ثابت ہوا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے مسلمانانِ ہند پر رحم کرتے ہوئے انہیں قائداعظم ؒکی صورت ایک ایسا زیرک رہنما عطا فرما دیا جو ان کی نیا کو تلاطم خیز موجوں سے بحفاظت باہر نکال لایا اور یوں 14 اگست 1947ء کو دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست معرض وجود میں آگئی۔ جب ہم تاریخ اسلام پر نظر دوڑاتے ہیں تو ایک حیرت انگیز امر سامنے آتا ہے کہ گزشتہ چودہ سو سال میں پاکستان کے معرض وجود میں نہیں آئی جو قدم بہ قدم، مرحلہ بہ مرحلہ ریاست مدینہ سے اتنی گہری مماثلت رکھتی ہو جتنی کہ ریاست پاکستان رکھتی ہے۔ ان مماثلتوں کا مختصر جائزہ ذیل میں ملاحظہ فرمائیں:۔

اس سارے معاملے کا آغاز تب ہوا جب کفارِ مکہ نے مسلمانوں کا سماجی مقاطعہ ختم کرنے کے بعد حضور پاکؐ کے سامنے ایک مصالحتی فارمولا پیش کیا اور کہا کہ اگر انہیں اپنے کفر و شرک پر مبنی عقائد و عبادات پر عمل کرنے کی ایک ماہ کیلئے اجازت دیدی جائے تو اگلے ایک ماہ وہ حضور پاکؐ کے بتائے ہوئے طریقوں پر عمل کرینگے اور یہ سلسلہ یونہی آگے چلتا رہے گا۔ کفار مکہ نے مزید کہا کہ آپؐ کے بقول چونکہ آپؐ کا پروردگار عظیم تر ہے اور پوری کائنات کا خالق و مالک ہے، لہٰذا وقت گزرنے کیساتھ ساتھ انکے تراشے ہوئے بت معدوم ہوتے چلے جائیں گے اور صرف دین اسلام ہی اپنی تمام ترعظمت و شوکت کیساتھ باقی رہ جائیگا۔ اس طرح آپس کے دنیاوی جھگڑوں اور عذاب آخرت سے بھی انکی گلوخلاصی ہوجائیگی۔ اس مرحلے پر حضور پاکؐ کے جواب دینے سے قبل ہی حضرت جبرئیل ؑ تشریف لے آئے اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے سورۃ الکافرون پیش کی جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا:۔

146146کہہ دیجئے اے کافرو، نہیں عبادت کرتا میں جن کی تم عبادت کرتے ہو اور نہیں ہو تم عبادت کرنے والے (اسکی) جس کی میں عبادت کرتا ہوں اور نہ میں عبادت کرنے والا ہوں انکی جن کی تم عبادت کرتے ہو اور نہ تم عبادت کرنیوالے ہو اسکی جسکی میں عبادت کرتا ہوں، تمہارے لیے تمہارا دن اور میرے لیے میرا دین۔145145

اس سورۃ کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے حضور پاک ﷺ کو اس مصالحتی پیش کش کے حوالے سے (پارہ30145 سورۃ 109) مکہ کے منافقین سے کوئی بھی بات کرنے سے منع فرمادیا۔ اس سورۃ کی آخری آیت میں اس امر کی بھی وضاحت کردی گئی کہ جو افراد دین اسلام میں پورے کے پورے داخل ہونگے، صرف وہی اس نئے دین اور اسلامی بھائی چارے میں شامل سمجھے جائیں گے اور جو اسے قبول نہیں کرینگے، وہ اس سے خارج تصور کئے جائیں گے۔ اس سے بجا طور پر یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ اس کرۂ ارض پر خود اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے دو قومی نظریے کا حکم فرمایا تھا۔ لہٰذا یہ نظریہ نہ صرف درست ہے بلکہ اسی نظریے کو کسی بھی اسلامی ملک کی بنیاد ہونا چاہیے۔ کیا قائداعظم محمد علی جناحؒ نے 1940ء میں حصول پاکستان کی جدوجہد کے آغاز کے موقع پر اپنے پیروکاروں کے جلو میں انتہائی سنجیدگی سے برصغیر کے مسلمانوں سے یہ نہ کہا تھا:۔

146146ہم مسلمان اپنی تابندہ تہذیب اور تمدن کے لحاظ سے ایک قوم ہیں۔ زبان و ادب145 فنونِ لطیفہ، فن تعمیرات، نام اور نام رکھنے کاطریقہ، اقدار اور تناسب کا شعور، قانونی اور اخلاقی ضابطے، رسوم اور جنتری، تاریخ اور روایات، رجحانات اور امنگیں، ہر ایک لحاظ سے ہمارا ایک انفرادی زاویہ نگاہ اور فلسفہ حیات ہے۔ بین الاقوامی قانون کی ہر تعریف کیمطابق ہم ایک قوم ہیں145145۔ یوں دو قومی نظریے کے اس اعلان کی وجہ سے تحریک پاکستان کا آغاز ہوا۔ دوسری مماثلت کا تعلق حضور پاکﷺ کے صحابہ کرامؓ میں رنگ و نسل کے حوالے سے پائے جانیوالے تنوع سے ہے۔ حضرت عمرؓ بن الخطاب، حضرت سلمان فارسیؓ، حضرت صہیب رومیؓ اور حضرت بلال حبشیؓ۔ یہ سب حضرات عالی مقام مختلف رنگ، نسل، زبان اور قبائل سے تعلق رکھتے تھے مگر حضور پاکؐ نے ان سب حضرات کو ایک امت یا قوم قرار دیا تھا۔ قوم کی مروجہ تعریف کی رو سے، انسانی سوچ کے کسی بھی زاویے سے انہیں ایک قوم قرار نہیں دیا جاسکتا تھا کیونکہ ان میں زبان، نسل، ثقافت، تہذیبی ورثے کے حوالے سے کوئی بھی قدرِ مشترک نہ تھی۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر حضور پاکﷺ نے انہیں ایک قوم کیوں قرار دیا؟ اس کی وجہ اس کے سوا کوئی اور نہ تھی کہ یہ سب صحابہ کرامؓ اللہ تعالیٰ کو وحدہ145 لاشریک اور حضور پاک ﷺ کو اللہ تعالیٰ کا آخری رسول ماننے والے تھے۔ وہ سب اسلامی اخوت اور بھائی چارے کے بندھن میں بندھے ہوئے تھے۔ اب ذرا قائداعظمؒ کی مسلم لیگ پر ایک نگاہ ڈالیں۔ اس میں ساحل مکران پر بسنے والے مسلمانوں سے لیکر پنجاب، بنگال، سندھ، بلوچستان، افغان اور برصغیر پاک و ہند کے دیگر علاقوں میں مقیم سبھی مسلمان شامل تھے۔ ان مسلمانوں کی زبان و ثقافت، رنگ و نسل، تہذیبی وتمدنی ورثہ سب کچھ ایک دوسرے سے مختلف تھے لیکن چونکہ سب مسلمان تھے، اس لئے قائداعظمؒ کی پکار پر ان سب نے جان ومال کی پرواہ کئے بغیر بلاجھجک فوراً لبیک کہا۔

O133جب مسلمانوں کیخلاف کفار مکہ کی زیادتیاں حد سے گزرنے لگیںتو اللہ تبارک وتعالیٰ رحیم و کریم ذات نے اپنے حبیب حضرت محمد مصطفیﷺ کو حکم دیا کہ آپﷺ مکے کے شمال میں واقع ایک چھوٹے سے قصبے مدینہ کی طرف ہجرت کرجائیں۔ جب حضور پاکؐ اپنے صرف ایک صحابی حضرت سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے ہمراہ مکے سے مدینے کی جانب روانہ ہوئے تو آپؐ کے مبارک لبوں پریہ قرآنی دعا جاری و ساری تھی: 146146اے اللہ! مجھے قوت و غلبہ عطا فرما تاکہ میں اپنے پیروکاروں کے ہمراہ اہل عرب نیز پوری انسانیت تک تیرا پیغام پہنچا سکوں۔145145 (سورۃ بنی اسرائیل145 آیت80)

انسان کامل حضور اکرمﷺ کی طرف سے اس دعا کا پڑھنا اللہ تعالیٰ کے پیغام کی حفاظت اور تبلیغ کے لئے ریاستی قوت کی ضرورت و اہمیت کا ایک بڑا ہی واضح اظہار ہے۔ ایسے ہی مقصد یعنی برصغیر کے مسلمانوں کیلئے ایک الگ وطن کے حصول کی خاطر جاری جدوجہد میں بالخصوص 1940ء تا 1947ء قائداعظمؒ نے اپنے بے لوث ساتھیوں اور جاںنثار پیروکاروں کے ہمراہ خون پسینہ ایک کردیا اور بالآخر پاکستان کے حصول میں کامیاب ہوگئے۔

O133حضور پاکﷺ کی مدینہ میں تشریف آوری کی بدولت ایک نئی ریاست معرض وجود میں آئی جو آخرکار ایک عظیم سلطنت کی صورت اختیار کرگئی۔ آپؐ کے پاس کوئی فوجی طاقت نہ تھی، نہ ہی آپؐ نے پہلے سے قائم کوئی ملک فتح کیا تھا بلکہ آپؐ کے مدینہ پہنچنے کیساتھ ہی ایک نئی ریاست معرض وجود میں آگئی تھی۔ بعینہٖ جب حضرت قائداعظم 7 اگست 1947ء کو کراچی پہنچے تو انکی آمد کیساتھ ہی ایک نیا ملک معرض وجود میں آگیا جو تاریخی لحاظ سے ویسے ہی اثرات کا حامل تھا جیسی کہ ریاستِ مدینہ تھی۔

O133 حضور پاکﷺ کے مدینہ پہنچنے کے بعد ایک عظیم ہجرت وقوع پذیر ہوئی۔ کیا کوئی شخص اس امر کو رد کرسکتا ہے کہ بالکل اسی طرز پر قیام پاکستان سے قبل اور بعد ازاں برصغیر کے مسلمان بھی ہجرت کے اس عمل سے گزرے؟
ا
O133حضورپاکؐ نے فوراً مدینہ کے باشندوں یعنی انصار کو حکم فرمایا کہ وہ 146146مواخذات145145 کے تصور کو اپنالیں۔ اس میں یہ فلسفہ کارفرما تھا کہ وہ مہاجرین کو اپنے خونی رشتے دار سمجھ کر دنیاوی مال و متاع میں انہیں اپنا حصے دار بنالیں۔ کیا کوئی اس بات سے انکار کرسکتا ہے کہ بھارت سے آنیوالے لاکھوں مفلوک الحال مہاجرین کو خوش آمدید کہنے اور انکی دیکھ بھال کے حوالے سے اہل پاکستان نے اسی اخوت اور دریادلی کا مظاہرہ کیا جس کا حکم حضور پاکؐ نے دیا تھا۔

O133حضور پاکﷺ نے یک جنبش قلم اس کفریہ نظریے کو باطل قرار دے دیا جس کی رو سے سرزمین عرب کے حقیقی باشندوں کو برتر و اعلیٰ تصور کیا جاتا تھا۔ یوں ریاست اور معاشرے کی نگاہوں میں تمام باشندوں کو مساوی درجہ عطا فرمادیا۔ اہل پاکستان نے بھی بھارت سے آنیوالے تمام مہاجرین سے مساوی سلوک کیا اور انہیں اپنا جان اور مان لیا۔

O133جب کفار مکہ نے دیکھا کہ ایک عظیم قوم جنم لے چکی ہے تو انہوں نے اسے عسکری طاقت کے بل بوتے پر تباہ کرنے کی تین مرتبہ جسارت کی۔ ہمارے ازلی و ابدی دشمن بھارت نے بھی من وعن اسی طرح پاکستان کو تباہ کرنے کیلئے اس پر تین جنگیں مسلط کیں جس کے نتیجے میں ملک دولخت بھی ہوگیا۔

O133حضور پاکﷺ کے زمانے میں ایران اور رومۃ الکبریٰ کی شکل میں دو سپرطاقتیں موجود تھیں جبکہ قیام پاکستان کے وقت بھی دنیا میں دو سپرطاقتیں اشتراکیت کے علمبردار سوویت یونین اور سرمایہ دارانہ نظام کے سرخیل امریکہ کی شکل میں موجود تھیں۔ حضور پاکﷺ نے بھی دین اسلام کی بنیاد پر ان سپر طاقتوں کو چیلنج کیا تھا اور بالآخر ان سپر طاقتوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہونا پڑا تھا۔ افغانستان میں سوویت یونین کی مداخلت کے موقع پر پاکستان نے بھی سوویت یونین کی سپرطاقت کو چیلنج کیا تھا جس کے نتیجے میں وہ پاش پاش ہوگئی تھی۔ انشاء اللہ وہ دن دور نہیں جب پاکستان دوسری سپر طاقت امریکہ کو چیلنج کرتے ہوئے اسے بھی اپنے منطقی انجام سے دوچار کردے گا۔


امریکی، روسی، چینی، جرمن اور فرانسیسی باشندے صرف اپنے اپنے ملک کی نمائندگی کرتے ہیں جبکہ ہم پاکستانی ساری امت مسلمہ کے نمائندہ ہیں۔ یہاں اس امر کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ مراکش سے انڈونیشیا تک تمام مسلمان ممالک کے باشندے پاکستان کے مضبوط پشتیبان ہیں لہٰذا ہمیں اس امر پر کوئی فکر لاحق نہیں ہونی چاہیے اگر ان مسلمان ممالک کے حکمران مخصوص مفادات کے تحت اپنے عوام کی خواہشات اور امنگوں کے برعکس پالیسیاں اپنائیں۔ یاد رکھیں! یہ دنیا آپکی ہے اور آپکا ملک ریاست مدینہ کی ہوبہو تمثیل ہے، ایسی تمثیل جس کا نمونہ دنیا کو گزشتہ چودہ سوبرس میں دیکھناکبھی نصیب نہیں ہوا۔اس امر کو بھی ذہن میں رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کی سنت میں کبھی تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔ لہٰذا کسی بھی آزمائش کا سامنا کرنے کیلئے اپنے آپکو قوت ایمان سے لیس کریں، اپنے اسلاف کی پیروی کریں، اپنے ماضی پر فخر کرنا سیکھیں اور ایک مرتبہ پھر اپنی پوری قوت اور خلوص نیت کیساتھ دنیا میں اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ دین اسلام کی 146146سلطنت145145 یعنی پاکستان کی حفاظت کے لیے کمربستہ ہوجائیں۔
اشفاق صاحب مرحوم فرمایا کرتے تہے پاکستان صالح علی السلام کی اونٹنی ہے جس نے اسے ختم کرنے کی سوچی الله اس کا وجود ختم کر دے گا .

الله ہم کو آسانیاں بنانے اور بانٹنے کا شرف بخشے
 

Muhammad Adil Khan Tanoli
About the Author: Muhammad Adil Khan Tanoli Read More Articles by Muhammad Adil Khan Tanoli: 8 Articles with 7528 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.