عام طور پر لوگ ترقی کا مقصد ہزار منز لہ عمارت، سمندر
میں انتہا ئی مہنگا ہو ٹل، شیشے کا پل ، مہنگی اور تیز رفتار گاڑی ، تیز
رفتار ہوا ئی جہاز ، چاند ستاروں تک پہنچنا ، سڑکوں ، ہوا ئی ا ور آ بی
راستوں سے دنیا کو جوڑ دینا، مہنگی تجارتی علیٰ تعلیم ، مہنگا ترین تجارتی
علاج ہے۔یقینا ترقی ہے زر کی ۔محنت کشوں اور پیداواری قوتوں کے خون چوس کر
حاصل کی جا نے وا لی رقموں سے یہ محل،روح پر ور غذا ، رہا ئش اور عیش و
عشرت کا حصول ہے ۔ آ ئیے اسکا جا ئزہ لیں کہ یہ بات کہاں تک درست ہے ۔ اس
صنعتی ترقی کے دور میں ما حو لیات کی آ لودگی کی وجہ سے ہر سال 50لاکھ
انسان لقمہ اجل بن رہے ہیں ۔ گذشتہ 8سا لوں سے اس کرۂ ارض میں ما حو لیات
کی وجہ سے جتنی تبا ہی ہو ئی ہے گذشتہ 8لاکھ برسوں میں اتنی تبا ہی نہیں ہو
ئی ہے ۔ ریاست کا وجود آ ئے ہو ئے مشکل سے سات ہزار سال ہو ئیے ہو نگے ۔
اگر لا کھوں سال سے اس دنیا میں اتنی تبا ہی نہیں ہو ئی تو اسلئے کہ ریاست
وجود نہیں رکھتی تھی ۔ طبقا تی نظام نہیں تھا اور نہ طبقا تی استحصال ۔
صنعتی آ لودگی کی وجہ سے گذشتہ تین دہائیو ں میں دنیا میں ما حو لیاتی آ
لودگی خاص کر فضا میں 400 فیصد کاربن کا اضافہ ہو گیا ہے ۔ جسکی وجہ سے لو
گوں کی اموات میں تیزی سے اضا ٖفہ ہو ا ہے ۔ اگر چند یورپی ملکوں میں
آلودگی کم ہے تو وہ دنیا کو لو ٹ نے کے برکات ہیں ۔ یورپی حکمرانوں نے
1493سے آج تک ،دنیا کے کروڑوں انسانوں کا قتل کر کے انکے وسایل کو لوٹ کر
اپنے آپ کو ترقی یافتہ بنا لیا ہے ۔ اب تو وہاں بھی استحصال سے عوام بے
روزگار ہو رہے ہیں اور لا کھوں کروڑوں محنت کش اپنے مطالبات کیلئے سڑ کوں
پہ امنڈ آ ئے ہیں ۔ دنیا میں اس وقت کھربوں ڈالر کا اسلحہ کی پیداوار اور
تجارت کی جا رہی ہے اور انکی کھپت کیلئے میدان جنگ تخلیق کیا جا رہا ہے ۔
عوام کو آپس میں لڑا یا جا رہا ہے ، اگر یہ نہ لڑیں تو سامراج اپنے کارندوں
کو رقم فراہم کر کے ان پر جنگ مسلط کر تے ہیں ۔ جیسا کہ ہند و چین ،جنو بی
اور مغربی افریقہ ، جنو بی امریکہ اور اب مشرق وسطیٰ، ایران، عراق،
افغانستان اور پا کستان میں کیا جا رہا ہے ۔ ترقی ہر شعبے میں ہو رہی ہے ۔
کاسمیٹک ، اسلحہ ، عمارتیں ، وھیکلز، خلائی ، میڈیکل ، تیکنیکی، اور
انجینئیرنگ وغیرہ کے شعبوں میں ہو رہی ہے لیکن یہ ترقی کس کام کی جو نوے
فیصد لو گوں کو فائیدہ پہنچا نے کے بجا ئے دس فیصد لو گوں کو فا ئیدہ پہنچا
ئے ۔جہاں لوگ بھوک، افلاس، غربت ، بیماری ، پا نی ، لا علا جی اور غذائی
قلت سے مر رہے ہوں وہ کیسی ترقی ہے ؟ دنیا کی ساڑھے سات ارب کی آ بادی میں
پانچ ارب کی آ بادی غربت کی شکار ہے ۔ جس دنیا میں بھوک سے روزانہ ایک لاکھ
انسان مر رہے ہوں پھر وہاں ترقی کس بات کی ؟ پا کستان میں 90 ہزار خوا تین
چھا تی کے کینسر میں مبتلا ہیں ، لا کھوں عوام بے علا جی میں تڑپ رہے ہیں
وہاں ترقی کس کام کی ؟ ایک جا نب مختلف تحقیقی ، ترقیاتی اور سا ئینسی
تجربات اور مشا ہدات پر دنیا میں روزا نہ کھربوں ڈٖالرخرچ ہو رہے ہیں تو
دوسر ی جا نب ملٹی نیشنل کمپنیاں کھر بوں ڈالر میں مزدوروں کا خون نچوڑ رہے
ہیں اور مزدور بے روز گار ی کا شکار ہو کر بھوک سے مر رہے ہیں ۔ پورٹ قاسم
کرا چی کی دو برتھیں نمبر 3اور نمبر 4 کو پا کستان کی حکو مت نے چینی کمپنی
(huaneng fuyun port and shiping pvt ltd)ھو نینگ فو یون پورٹ اینڈ شپنگ
پرائیوٹ لیمیٹیڈ کو بیچ کر سیکڑوں مزدوروں کو عملا بے دخل کر دیا ہے ۔ ان
مزدوروں کو نو ماہ سے تنخوا ہیں بھی ادا نہیں کی گئی ہیں ۔گذشتہ چار ہفتوں
سے ورکرز یونین آف پورٹ قاسم سی بی اے نے چا ئینا کمپنی برتھ نمبر3اور بر
تھ نمبر4پورٹ قاسم کی جا نب سے مزدوروں کی آٹھ ماہ کی تنخواہوں کی عدم
ادائیگی اور غیر قا نونی بے دخلی کے خلا ف کر ا چی پریس کلب پر جا ری
احتجاجی دھر نا ایک ماہ ہو نے کو ہے۔ ورکرز یونین آف پورٹ قاسم سی بی اے کی
کال پر پورٹ قاسم کے ڈاک ورکروں نے چا ئینا کمپنی برتھ نمبر تین و بر تھ
نمبرچار پورٹ قاسم کی جا نب سے مزدوروں کی آٹھ ماہ کی تنخواہوں کی عدم
ادائیگی اور غیر قا نونی بے دخلی کے خلاف کرا چی پریس کلب پر جا ری احتجا
جی دھر نا دیا جا رہا ہے ۔ پورٹ قاسم کے مزدور رہنما ؤں نے کہا کہ ڈاک
ورکرز نومبر 1981 سے پورٹ قاسم پر کام کر رہے ہیں جب یہاں ویرا نہ تھا اور
بر تھوں کے علاوہ سارا پورٹ کچا تھا ، بے تحاشہ ریت اڑتی تھی ، سانپ بچھوؤں
کی بہتات تھی ، حفاظتی انتظا مات نہ ہو نے کے برا بر تھی ، جس کی وجہ سے
حادثات روز مرہ کا معمول تھے ، ٹرانسپورٹ نا پید تھی ، ورکرز بتیس کلو میٹر
کا سفر پیدل طے کر کے پورٹ پہنچتے تھے اور جہاز کا کام ختم ہو نے تک پورٹ
پر ہی رہتے تھے ۔ مزدوروں کی قر با نیوں کے طفیل آج پورٹ نے تو ترقی کر لی
ہے مگر ڈاک کے مزدور وں کو ترقی کے بجا ئے تنزلی کی جا نب دھکیل دیا گیا
اور انکا کو ئی پر سان حال نہیں ۔ بندر گاہوں کی فروخت ملک کی مفاد میں
نہیں ہے جبکہ غیر ملکی کمپنی چا ئینا کی برتھیں خریدنا اور پھر مزدوروں کے
ساتھ ظلم و زیادتی کر نا اور پا کستان کے مز دو ر قوانین کا مذاق اڑا نا با
الکل بھی قا بل قبول نہیں ۔ مزدوروں کی آٹھ ماہ کی تنخوا ہیں ادا نہیں کی
گئیں اور نواں مہینہ بھی مکمل ہو نے کو ہے۔ مزدور مسلسل کام کر رہے ہیں ۔
عید بقرید اور چو دہ اگست تک کی چھٹی نہیں دی جا رہی ہے اور تنخواہیں بھی
نہیں دے رہے ہیں ۔ چار ٹر آدف انتظا میہ نے ڈیمانڈ پر بات چیت بند کر دی ہے
اور نیا معاہدہ کر نے سے انکار کر دیا ہے ۔ مزدور رہنما ؤں نے کہا کہ ہم
پورٹ قاسم اتھارٹی کی سرد مہری اور مزدور دشمن رویے کی بھی مزمت کر تے ہیں
، انھوں نے جا ئز مطالبات کے حصول تک جدو جہد جا ری رکھنے کا اعادہ کیا اور
مطالبات کی منظوری تک مسلسل دھر نا جا ری رکھنے کا اعلان کیا ۔ انھوں نے
وزیر ساحل امور سید حیدر علی زیدی اور وزیر اعظم پا کستان عمران خان سے بھی
مطا لبہ کیا کہ انکے ما نگ پو ری کی جا ئے۔ ان کے مطالبات کچھ یوں ہیں ۔ چا
ئینا کمپنی ھو نینگ فو یون پورٹ اینڈ شپنگ پرائیوٹ لیمیٹیڈ مزدوروں کی
تنخوا ہوں کی فوری ادا ئیگی کرے، چا ئینا کمپنی چارٹر آف ڈیمانڈ منظور کر
کے نیا معا ہدہ کرے ، پورٹ قاسم اتھارٹی ورکرز کے گیٹ پاس فی الفور جا ری
کرے اور کرا چی پورٹ کی طرح ڈاک ورکرز ( ریگو لیشن آف ایمپا ئیمنٹ )ایکٹ
1974 کا اطلاق پورٹ قا سم کے ڈاک ورکرز پر بھی کیا جا ئے ۔ یہ ہیں ترقی کے
ثمرات ۔ ہمیں ایسی ترقی نہیں چا ہیے جہاں لوگ بھوک سے مر رہے ہوں اور دوسری
جا نب چند لوگ ارب پتی بن رہے ہوں ۔ |