دنیا کا ہر معاشرہ اپنی پسند و ناپسند کا ایک معیار رکھتا
ہے اور اس معاملے میں بہت حساس ہوتا ہے۔ اس کی حساسیت معاشرے کے افراد کی
علامت بن جاتی ہے۔ دنیا کے ہر مہذب معاشرے میں ایک جذبہ ایسا ہے جو اس قدر
حساس ہے کہ نفسیات دان اسے انسانی جبلت کا حصہ تصور کرتے ہیں۔
یہ جذبہ حیاءشرم ، حجاب اورستر ہے۔ تہذیبی ارتقاءکے ساتھ ساتھ اس جذبے نے
نشوونما پائی اور پھر یہ انسان اور جانور کے درمیان فرق کی بنیادی علامت بن
گیا۔ انسانی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ جب بھی انسان نے شرم و حیاءاور ستر
و حجاب کے تصور کو تار تار کر کے عریانیت و فحاشی کا راستہ اختیار کیا تو
زوال نے اس کے دروازے پر دستک دی۔ روم، یونان ، مصر، بابل اور ہندوستان کی
تہذیبوں کے زوال کی کہانیاں پڑھ لیں آپ کو ان کی تہہ میں عریانی و فحاشی کی
وہ حیران کن لہر موجزن نظر آئے گی جو ان تہذیبوں میں سرائیت کر گئی اور پھر
وہ کبھی بام عروج کو دوبارہ نہ دیکھ سکیں۔
فحاشی و عریانی سے وابستہ ایک حساسیت سے جو دنیا کے ہر معاشرے میں پائی
جاتی ہے۔ دنیا کے ہر معاشرے نے اس کیلئے عورت اور مرد دونوں کیلئے معیارات
مقرر کیے ہیں۔ یہ حساسیت اس قدر شدید اور ذہنوں میں جبلت کی طرح راسخ ہے کہ
اچانک ذرا سی بے لباسی بھی معیوب اور بری محسوس ہونے لگتی ہے۔ بے لباس یا
ستر نمایاں ہوتے ہی وہ شخص شرم و حیا سے ڈوب جاتا ہے اور اس کے چہرے پر اس
کے اثرات نمایاں ہوتے ہیں۔
پاکستان میں میڈیا کا کردار مثبت کم منفی زیادہ ہے۔ آئے روز مختلف نت نت
نئے ڈراموں نے ایک عجیب ہی افراتفری مچا رکھی ہے۔ ڈراموں کے کردار اور پھر
ان کے احوال کا الگ الگ احاطہ کرنا بہت مشکل ہے۔ یہاں پر کچھ ایسے ڈرامے
بھی شامل زکر ہیں جن پر مجھے شکایات ضرور سننے کو ملے ہیں۔ ان کے علاوہ بھی
بہت سے ڈرامے ہیں مگر دو ڈرامے ایسے ہیں جن کی بات کرنا میں ضروری سمجھتی
ہوں |