موت کے کنویں میں نوجوان بڑی بہادری سے موٹر سائکل کو
مہارت سے چلا کر بچوں ،بڑوں ،عورتوں کو پل بھر میں ورطہ حیرت میں ڈال دیتا
تھا ۔جیسے جیسے ہم بڑے ہوتے گئے تو وہ نڈر رائڈربھی بوڑھا ہوتاچلا گیا۔جب
اس میں سکت باقی نہ رہی تو گھر کا چولہا جلانے کے لیے بیٹا آگے بڑھااور باپ
کی سیٹ سنبھال لی۔آج بھی سرکس کاکروباراپنے تمام تر ساز وسامان کے ساتھ
ویسی حالت میں ہے جیسا ہم نے بچپن میں دیکھا تھا۔ٹرک اسی بوسیدہ حالت میں
سرکس کے جھولوں کو شہر شہر اٹھائے پھرتا ہے۔اتنے سالوں میں سرکس مالکان نے
ٹکٹ کے لیے صرف چند روپوں کا اضافہ کیا ۔لازمی بات ہے اس مہنگائی کے دور
میں یہ کرنا ضروری تھا۔ گھوڑا گھاس سے دوستی کرے گا تو کھائے گا کیا۔غریبی
پہلے جیب میں گھر بناتی ہے۔پھر آہستہ آہستہ یہ اژدھے کی شکل دھار لیتی ہے
اور ہر طرف سے کھانے کو دوڑتی ہے۔
وقت گزرتا گیااوراب غریب خود ایک اژدھا بن چکا ہے۔ جس سے امراء ڈرتے ہیں
اور اسے ختم کرنے کے درپے ہیں۔غریب کو دیکھ کر ناک پہ کپڑا رکھناان کے لیے
فیشن ہے۔پنجاب میں غربت کی شرح بہت خطرناک صورت حال کو پہنچ چکی ہے۔سندھ
تھر پارکر کے پسماندہ ،مفلس ،جھونپڑی پناہ گزین اس ملک کے باسی سمجھے جاتے
توریاست اپنا فرض پورا کرتی۔کیوں کہ ریاست خود کئی بیانیوں میں اٹکی رہتی
ہے ،اس لیے سیاست کے عروج تک غریب کی آواز نہیں پہنچ سکتی۔آواز گلے سے تب
نکلے گی جب بولنے لائق ہوں گے۔انہیں بھوکا رکھا جائے ۔معاشی ابتری پیدا
کردی جائے ۔ان کے احساس کومردہ کردیا جائے۔نہ رہے گا سانپ نابجے
بانسری۔میٹرو ،گرین لائن بس،اورنج ٹرینوں کے جھولے غریب کا پیٹ بھر سکتے
ہیں۔تعلیم کے نام پہ دھوکہ ،دوائی میں ملاوٹ ،علاج معالجہ کے نام پہ فراڈ۔
غریب کے لیے آنے والی اربوں ڈالر ز کی رقم سے پنجاب کے دیہی علاقے میں پڑی
مائی سرداراں کو کچھ ملے گا۔چار پائی اس نحیف کو دھیرے دھیرے موت کی طرف
دھکیل رہی ہے ۔مائی سرداراں کو معلوم ہے کہ زندگی اور موت کی اس جنگ میں
شکست زندگی کوہی ہونی ہے۔اس لیے کہ ہم نے صرف ترقی یافتہ ہونے کا ڈھونگ
رچانا ہے۔ دکھاوا کرنا ہے۔
کل جب مائی سرداراں کے بیٹے سے معلوم پڑا کہ انہیں کینسر جیساموذی مرض لگ
چکا ہے تودل دکھ سے بھر گیا۔غریب کا سفر ویسے بھی دشوار ہے ۔جب اس طرح کی
آفت آن پڑے تو پھر کفن سستا لگتا ہے۔غریب ایک تو جیب کا غریب ہوتا ہے دوسرا
یہ ڈرپوک بھی ہوتا ہے۔یہ ڈر بھی اس کے اندر پیدا کیا گیا ہے۔یہ ڈاکٹر سے
ڈرتا ہے کہ محافظ شکاری بن چکاہے۔اس کا کہنا بجا تھا کہ ہم کس کو
دکھائیں۔کس سے ٹیسٹ کرائیں ۔کس کے در پہ دھائی دیں۔ جہاں مائی سرداراں جیسے
لوگ رہتے ہیں،ایسی پسماندہ غریب آبادیوں کے نام تک ان دعویداروں کو یاد
نہیں ہوں گے۔ہمیں حیرت اس لیے نہیں ہوتی کیوں کہ ایسے واقعات روزمرہ زندگی
کا حصہ بن چکے ہیں۔اگر پنجاب کی آبادی دیکھی جائے،ہریالی، خوبصورتی کے
نظارے کیے جائیں تو دل اپنی آزاد فضاؤں میں اڑتا پنچھی بن جاتا ہے۔لیکن ملک
میں مائی سرداراں جیسے3 کروڑ مریضوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔غیر معیاری غذا
،گٹر کا پانی،نامناسب اقدامات ،ملاوٹ شدہ اشیاء سے ہر دوسرا شخص جان لیوا
مرض میں مبتلا ہورہا ہے۔یہی ہولناکی غریب ترین علاقوں میں دندناتی پھررہی
ہے۔تھر کی قحط سالی میں جن ماؤں کے پھول ریاست کی بے توجہی سے مسلے گئے ،ان
ماؤں کی آہیں خدا کے حضور سربسجودہوکر حکمرانوں کے خلاف گواہی دیتی ہوں
گیں۔
غریب کے لیے معاشی عذاب ہی ٹارچر سیل ہوتا ہے۔خدانخواستہ کوئی مہلک بیماری
لاحق ہوجائے تو وہ ادھ مواہوجاتا ہے۔ٹی بی ،ہیپا ٹائٹس ،کینسر جیسے مرض
اپنے نام سے ہی غریب کی جان نکال لیتے ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق 22 کروڑ کی
آبادی میں سے ہر آٹھواں شخص ہیپا ٹائٹس کا شکار ہے۔لیکن حکومت شہریوں کو اس
خطرناکی سے بچانے کے لیے کوائی اقدامات نہیں کررہی۔یادش بخیر حکومت نے 5
ارب کا فنڈ مختص کیا تھا،مگر کیا 5 ارب روپوں سے سینکڑوں کھرب انسانی جان
کے دشمن جرثوموں کا مقابلہ ممکن ہے؟سرکاری اسپتالوں میں ہر تیسرا بیڈ ایسے
مریض کا ہے جسے گھر واپسی کی امید ہی نہیں ۔ایسا اس لیے کہ وہ جانتا ہے
میرے مرض کی دوا ناپید ہے۔دوردراز علاقوں سے آنے والے غریب مریضوں کو
اسپتال کے ٹھنڈے فرش پر سوتے دیکھ کر کلیجہ برف کا پہاڑ بن جاتا ہے۔یہ اس
امید سے رات کو اسپتال میں سو جاتے ہیں کہ شاید صبح کوئی مسیحا ڈاکٹر کے
روپ میں آئے ،انہیں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر موت کے منھ میں جانے سے بچالے۔جیسے
مائی سرداراں کینسر سے لڑرہی ہے ۔
مائی سرداراں کی جنگ ایک جان لیوا مرض سے نہیں ، امید سے ہے۔وہ امیدجو
اولاد کووالدین سے ،غلام کو آقا سے اور رعایا کو وقت کے بادشاہ سے ہوتی
ہے۔غریب کے پاس وسائل نہیں کہ جن سے اس کے مسائل حل ہوسکیں۔حکومت کے پاس
وسائل ہیں مگر بے جا ضائع کردیے جاتے ہیں۔وسائل کو درست جگہ استعمال کرنے
کا نظم بنانے والے درددل رکھتے تو مسائل کا خاتمہ کوئی مشکل نہ تھا ۔انہیں
مسائل کا ادراک ہوتا تو وسائل کا ضیاع نہ ہونے دیتے۔دارالحکومت میں 20 کروڑ
سے جگر کی پیوند کاری کا اسپتال بنایا گیا ،عجب بات ہے کہ ایک جگر کی پیوند
کاری بھی عمل میں نہیں لائی جاسکی۔جناب عمران خان صاحب ترقی پذیر ممالک کی
بہت مثالیں دیتے ہیں۔ان کے اب تک غیر ملکی دوروں میں ایسے ممالک شامل رہے
جو معیشت میں مستحکم ،صحت کے مسائل کے حل میں سنجیدہ ہیں۔چین کا ہر ادارہ
سرکاری تحویل میں ہے۔اسپتال بھی گورنمنٹ کے انڈر میں ہیں ۔عام آدمی اپنے
مسائل سرکارکی نگرانی میں حل کراتا ہے۔چین کی عقابی نظریں ہیلتھ پر ہمیشہ
مرکوز رہتی ہیں۔وہ لاکھوں ڈالر خرچ کرنے کو تیار ہے مگر صحت کے مسائل پر
کوئی سمجھوتا کرنے کو راضی نہیں۔چین کا ماننا ہے کہ اگر عوام صحت کے مسائل
میں کھو گئی تو ترقی کا ہاتھ پکڑے رکھنا مشکل ہو جائے گا۔کیا عمران خان
صاحب چین سے صحت کا کوئی فارمولہ لائے ہیں؟ جس سے مائی سرداراں جیسے لاکھوں
مریضوں کادرد کم کیا جا سکے؟ کوئی ایسا نسخہ کیمیا جس سے وسائل سے ہی سہی
،مسائل کو حل کیا جاسکے؟
|