تحریر: علی احمد
کسی بھی علاقہ کے تاجر تب ہی خوش ہوتے ہیں جب علاقہ میں امن و امان ہو اور
حالات پر سکون ہوں۔ چوری ڈکیتی راہزنی اور بھتہ خوری کا ڈر نہ ہو تو ایسے
میں گاہک بھی بلا خوف و خطر بازار کا رخ کرتا ہے اور اور تاجر کو بھی اسکا
کام ملتا ہے اور اس وجہ سے نہ صرف تاجروں کی وجہ سے ان سے منسلک کئی لوگوں
کو کام ملتا ہے بلکہ ملکی معیشت کو بھی خاطر خواہ فائدہ ہوتا ہے۔ کسی بھی
ملک کا اگر تاجر خوشحال ہو اور آسودہ ہو تو وہ دیگر ممالک میں جا کر اس ملک
کی نیک نامی کا باعث بنتا ہے۔
لاہور بھی تجارت کے حوالہ سے ملکی معیشت میں ایک اہم حیثیت رکھتا ہے اور
پاکستان کو سب سے زیادہ ریوینیو دینے والے صوبہ پنجاب کا دارالحکومت ہونے
کے ساتھ ساتھ پاکستان کے چند اہم معاشی ستونوں میں سے ایک ہے اور تاجروں کے
آسودہ حالی کے حوالہ سے نیک نام جانا جاتا ہے۔
لاہور کہ جسے زندہ دلان کا شہر بھی کہا جاتا ہے تاجروں کی خوشحالی کے حوالہ
سے معروف جانا جاتا تھا اور امن و امان کے حوالہ سے مثالی تھا لیکن پچھلے
کچھ عرصہ میں چیدہ چیدہ واقعات نے تاجروں میں خوف و ہراس کی فضاء پیدا کر
دی تھی اور راہزنی اور ڈکیتی کے علاوہ بھتہ خوری کہ جو اس علاقہ میں ایک
نیا جرم تھا اور لوگ اس کے خوفناکیت سے ناواقف تھے۔
اب اس شہر میں کہ جہاں خوف کے سائے نہیں چھائے تھے لیکن کچھ عرصہ سے وہاں
کے تاجر بھتہ خوری کے واقعات سے خوف کا شکار ہونا شروع ہو گئے اور گذشتہ
ہفتہ کے دوران بھتہ خوری کے تین واقعات ہوئے جس نے تاجران میں ایک خوف کی
لہر پھیل گئی اور حالات کی خوفناکی پر چہ مگوئیاں ہونا شروع ہو گئیں اور اس
سلسلہ میں مقامی پولیس افسران سے بھی شکایت بھی کی گئی۔
اسی سلسلہ کی ایک کڑی نو لکھا کا وقوعہ تھا جہاں حسن سینٹر کے مالک سے بارہ
لاکھ کا بھتا مانگا گیا اور انھیں ادائیگی نہ کرنے کی صورت میں خوفناک
نتائج بھگتنے کی دھمکیاں بھی دی جاتی رہیں لیکن اس پلازہ کا مالک گھبرایا
نہیں اور ڈرا نہیں اور اس نے بھتہ ادا کرنے سے انکار کر دیا اور اس سلسلہ
میں مقامی پولیس سے بھی رابطہ کیا۔
اب چونکہ گیند پولیس کے کورٹ میں جا چکی اور ساری بات مقامی پولیس اور
انتظامیہ پر جا رہی تھی اور تاجران اس تمام ہولناکیوں اور غنڈہ راج کا ذمہ
دار پولیس اور انتظامیہ کو سمجھ رہے تھے کہ وہ اس حوالہ سے کوئی ٹھوس ایکشن
نہیں لے رہی اور تاجران کی حفاظت کے مناسب اقدامات نہیں کر رہی۔ تو ایسے
میں SHO نو لکھا نے اپنے اعلیٰ افسران کی ہدایت پر اس کیس میں خصوصی دلچسپی
لی اور اس کیس کو حل کرنے کی ٹھانی۔
تمام تر تحقیقات اور ڈوروں کے سلسلے مقامی تاجر راہنما خواجہ اظہر گلشن سے
ملتے تھے کہ جس نے علاقہ میں اپنا ایک خوف و حراس قائم کیا ہوا تھا اور
سیاسی اثر و رسوخ بھی رکھتا تھا چونکہ وہ سابقہ حکمران جماعت سے بھی تعلق
رکھتا تھا اور ن لیگ کی طرف سے اس علاقہ میں تاجر اتحاد کا چیئر مین بھی رہ
چکا تھا۔ اس وجہ سے اس علاقہ کے مکین اسکے خلاف بات کرنے یا کسی بھی قسم کی
شکایت کرنے سے ڈرتے تھے۔
پولیس کو تمام سراغ ملے اور مزید تفتیش کرنے پر ملزم خواجہ اظہر گلشن کے
بارے میں ٹھوس ثبوت بھی مل گئے۔ اب ایسے میں اس ملزم کی گرفتاری میں ملزم
کے سیاسی تعلقات بھی آڑے آتے تھے لیکن نو لکھا تھانے کے ایس ایچ او نے جرآت
مندانہ قدم اٹھاتے ہوئے اپنے فرائض کو بحسن خوبی بجا لائے اور بالآخر ملزم
اظہر گلشن کو گرفتار کر ہی لیا اور اس کے خلاف مقدمہ درج کر لیا۔
مقامی پولیس کے اس شاندار قدم پر مقامی تاجران میں ایک خوشی اور طمانیت کی
لہر دوڑ گئی ہے اور تاجران اس بات پر شدید خوشی کا اظہار کر رہے ہیں کہ
ہماری پولیس آج بھی فرائض کی بجا آوری میں مستعد اور چاک و چوبند ہے اور
اپنے فرائض کے رستے میں آنے والی کسی بھی رکاوٹ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے
اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر بھی اپنے فرائض کو احسن انداز میں نمٹانا جانتی
ہے۔
پولیس کے اس خوش آئند اور بروقت اقدام پر مقامی تاجران نمائندوں نے اپنے
دلی اطمینان کا اظہار کیا اور کہا ہے کہ ہم SHO نو لکھا اور تمام افسرانِ
بالا کے تہہ دل سے شکر گزار ہیں کہ انھوں نے ہماری حفاظت میں کوئی دقیقہ
فروگذاشت نہیں کیا اور پنجاب پولیس کی تمام قیادت کو اس شاندار اقدام پر
خراجِ تحسین پیش کیا۔ |