جی ہاں !یہ چکوال کی پولیس ہے

 چکوال کا شمار بڑی حد تک چونکہ پنجاب کے پرامن ترین ضلعوں میں ہوتا ہے لہٰذا یہاں کے باسی کسی قسم کے خوف اور دہشت سے عموماً نا آشنا ہی رہتے ہیں ،28نومبر ایک روٹین کا دن تھا اور زندگی رواں دواں تھی،کہ صبح دس بجے کے لگ بھگ ایک انتہائی خوفناک خبر نے چکوال کے شہریوں کو انگشت بدانداں کر دیا،خبر کے مطابق چکوال کے نزدیک واقع دھرابی ڈیم کے پاس ایک جلی ہوئی کار میں دو افراد کی مکمل جلی ہوئی نعشیں موجود ہیں،یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیلی اور علاقے کی فضا خوف اور سراسیمگی کا شکا ر ہوگئی واردات اس لحاظ سے منفرد اور انوکھی تھی کہ اس میں دو افراد کو نہ صرف قتل کر دیا گیا بلکہ انہیں گاڑی میں ڈال کر گاڑی کو بھی جلا دیا گیایہ واردات پولیس کے لیے چیلنج تھی ڈی پی او عادل میمن نے فوری طور پرانسپکٹر خاور سعید کو ہدایت کی جواپنی ٹیم کے ہمراہ موقع پر پہنچے نعشوں کو پوسٹ مارٹم کے لیے وہاں سے ہسپتال منتقل کروایا،دونوں مقتولین کی شناخت پوسٹ مارٹم کے بعدعمیس علی اور عدنان علی خان ساکن بھون کے نام سے ہوئی،یہ قتل کی ایک انتہائی لرزہ خیز واردات تھی جس میں نہ صرف دو انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا بلکہ انداز ایسا اپنایا گیا جو انتہائی خوفناک اور بے رحمانہ تھاقاتلوں نے وارات کے بعد بظاہرکہیں بھی کسی بھی قسم کا کوئی نشان نہیں چھوڑا تھا جس سے ان کو تلاش کیا جا سکے اگر یہ قاتل گرفتار نہ ہوتے تو لوگ اپنے آپ کو محفوظ تصور نہ کرتے ڈی پی او اور ان کی ٹیم نے اس کو ایک چیلنج کے طور پر لیا اور واردات کا سراغ لگانے کے لیے جو ٹیم بنائی گئی اس کا سربراہ بھی انسپکٹر خاور سعید انچارج HIUصدر سرکل کو بنایاانسپکٹر خاور سعید نے دن رات ایک کر کے جدید سائنسی بنیادوں پر تفتیش کرتے ہوئے موبائلز کالزاور ایس ایم ایس کی بنیاد پر انتہائی کم وقت میں صرف گیا رہ دن بعد تمام قاتلوں کو گرفتار کر لیا،پولیس کے مطابق مقتول عمیس علی خان اور عدنان علی خان کو کاشف عباسی ،مہراج علی اظہر عباس اور سلیم اختر نے مسعودعلی اور عثمان علی کے ساتھ مل کر قتل کیا اور ویرانے میں لے جا کر نعشیں جلا دیں،پولیس نے اولذکر چاروں ملزمان کو گرفتار کر لیا جبکہ مسعود علی خان اور عثمان علی خان نے پروٹیکٹد ضمانت کروا رکھی ہے جس کا عدالت سے فیصلہ ہو جانے کے بعد ان کے خلاف حسب ضابطہ کاروائی عمل میں لائی جائے گی،ڈی پی او عادل میمن نے اس واردات کا سراغ لگانے اور مجرمان کی گرفتاری پر انسپکٹر خاور سعید اور ان کی ٹیم کے لیے تعریفی اسناد اور نقد انعام کا اعلان کیااس کے علاوہ عنصر ولد مشتاق وغیرہ نے دلشاد کو کلر کہار میں 28جون کو قتل کر دیا تھا اور فرار ہوگئے تھے کو بھی پولیس نے گرفتار کر کے آلہ قتل برآمد کر لیا ہے،ایک اور انتہائی سنگین واردات جس میں 23جولائی2018 کو ایک شخص محمد اقبال نے اپنے ہی گاؤں دروٹ تلہ گنگ کے 6افراد جن میں محمد حسن،اقبال،صدیق،نذیر احمد،اظہراور حسن عثمانی جو گاؤں میں موجود کھوکھا ہوٹل پر چائے پی رہے تھے سب کو ممنوعہ اسلحہ کا برسٹ مار کر قتل کر دیا تھا اور موقع سے فرار ہو گیا تھا کو بھی گرفتار کر لیا،ان کے علاوہ ایک اور سنگین بڑی اور لرزہ خیز واردات جس میں اسی سال 23ستمبرکو چکوال کچہری میں تاریخ پیشی پر آئے ہوئے تین افراد شوکت،غلام مہدی اور عظمت کو اڈھروال بائی پاس پر اس وقت قتل کر دیا گیا جب وہ واپس اپنے گاؤں میرا تھر چک جا رہے تھے کہ صبح ساڑھے گیارہ بجے کے قریب نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے ان کی گاڑی پر اندھا دھند فائرنگ کر دی جس سے تینوں افراد موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے جب کہ ان کے ساتھ ایک خاتون زخمی ہو گئی ،اس واردات کو بھی چیلنج سمجھتے ہوئے پولیس نے کچھ ہی دنوں کے بعد عزیز،ابوذر،ایوب ،ربنواز،زوہیب اور خلیل کو گرفتار کر لیا وجہ عناد خاندانی دشمنی تھی اور مقتولین نے قاتل پارٹی کے افراد کو اسی طرح تاریخ پیشی پر چکوال آتے ہوئے راستے میں فائرنگ کر کے قتل کر دیا تھا،ان بڑی وارداتوں کے علاوہ پولیس نے 16مزید ایسے افراد کو گرفتار کیا جنہوں نے مختلف اوقات میں مختلف لوگوں کو قتل کیا تھا،ان میں دو ایسے گینگ بھی گرفتار کیے گئے جو ڈکیتی کے دوران مزاحمت پر عام افراد کو قتل کر دیتے تھے،ان دونوں گینگز نے چکوال کے علاوہ تلہ گنگ اور ڈوہمن کے علاقوں میں متعدد وارداتیں کی تھیں پولیس نے نہ صر ف ان کو گرفتار کر لیا بلکہ ان کے قبضے سے مال مسروقہ نقدی اور گاڑیاں بھی برآمد کر لیں،اس کے علاوہ 21اشتہاری ملزمان کو گرفتار کیا گیا جو مختلف واردوتوں کے بعد روپوش ہو گئے تھے ان میں سب سے اہم محمد آصف جس کا تعلق لاوہ سے ہے کو انٹر پول کے ذریعے دبئی سے گرفتار کروایا گیا یہ 2014میں ملک سے فرار ہو گیا تھا اور 302کے مقدمے میں پولیس کو مطلوب تھا،ان 21اے کیٹیگری کے مجرمان کے علاوہ 93بی کیٹیگری کے مجرمان کے ہاتھو ں میں بھی آہنی زنجیریں پہنائی گئیں،466سابقہ ریکارڈ یافتہ افراد کو دوبارہ گرفتار کر کے تفتیش کی گئی تو 51ملزمان کے قبضہ سے 7174182روپے مالیت کا مال مسروقہ برآمد کیا گیاناجائز اسلحہ کے خلاف کاروائی کے دوران 3کلاشنکوف،08رائفلز،10گنز،04ریوالور،84پسٹلز01کارپین اور 788روند برآمد کیے اس کے علاوہ منشیات فروشوں کے خلاف کاروائی کرتے ہوئے 79668گرام چرس،3715گرام ہیروئین اور 2395بوتل شراب برآمد کر کیمجموعی طور رپر 125مقدمات درج کر کے ملزمان کو جیل بھجوایا گیا، ان تمام وارداتوں اور ان کا کامیاب سراغ لگانے پر عوامی حلقوں نے ڈی پی او چکوال عادل میمن اور ان کی پوری فورس کو شاندار خراج تحسین پیش کیا ہے اور حکومت سے اپیل کی ہے کہ ایسے افسران اور جوانوں کی بھرپور حوصلہ افزائی کی جائے،پولیس کے بارے میں عمومی تائثر جو پایا جاتا ہے وہ یہی ہے کہ ان کی دوستی اچھی نہ دشمنی ،لوگ ان سے دور رہتے ہیں اور اکثر و بیشتر کام کے بعد کنارہ کشی اختیار کر لیتے ہیں ،کسی حد تک یہ بات ٹھیک اور درست بھی ہے کہ سابقہ ادوار میں پولیس کا رویہ عام افراد کے ساتھ کسی بھی لحاظ سے قابل ستائش کم از کم نہیں تھا،تاہم جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ پانچھ انگلیاں برابر نہیں ہوتیں اسی طرح سارے انسان بھی ایک جیسے نہیں ہوتے اور کسی بھی محکمے کی کارکردگی اور اس کا رویہ محکمے کے سربراہ کی وجہ سے بنتا اور بگڑتا ہے،موجودہ ڈی پی او عادل میمن اس لحاظ سے لائق تحسین ہیں کہ ان سے ملکر لگتا ہی نہیں کہ یہ صاحب پولیس کے ضلعی سپریم کمانڈر ہیں اﷲ کے رسولﷺ نے فرمایا تم میں سب سے زیادہ کامل ایمان والے وہ ہیں جن کے اخلاق اچھے ہیں،مجھے اونچی کرسیوں پہ براجمان بہت سے لوگوں سے واسطہ پڑا ہے اور پڑتا رہتا ہے مگر عا د ل میمن کو اس لحاظ سے منفرد پایا ہے، میں کبھی کسی کی بے جا تعریف نہیں کرتا مگر جو لائق تحسین ہو اس کے لیے کنجوسی کرنا بھی بد دیانتی ہے،جس طرح ڈاکٹر کے نرم لہجے میں بولنے سے مریض آدھا تندرست ہو جاتا ہے اسی طرح عادل میمن کے پاس جانے سے لوگ اب بالکل نہیں گھبراتے بلکہ نہایت مطمئن اور مسرور اور اپنا گھر سمجھ کے ڈی پی او آفس کا رخ کرتے ہیں اﷲ کرے یہ نرمی و حلیمی برقرار رہے ،اگرعادل میمن جیسے سربراہ اور انسپکٹر خاور سعید جیسے کمٹڈ افسران اس محکمے کو میسر ہوں تو کوئی وجہ نہیں کہ لوگ موٹر وے پولیس کی طرح ہی پنجاب پولیس پر بھی اسی طرح اعتبار اور محبت کرنا شروع کر دیں جیسی وہ اس ملک کی دیگر فورسز کے ساتھ کرتے ہیں،،،،اﷲ سب کا حامی و ناصر ہو،،