اِنسانیت اور نظریات

 ہردور میں ابن آدم کاکوئی نہ کوئی نظریہ ضرور رہاہے اورکروڑوں برس سے دنیا میں نظریہ ضرورت کے تحت فیصلے ہوتے آئے ہیں۔مفادات کی ہوس نے انسان کوانسان اورایک ریاست کودوسری ریاست کادشمن بنادیا۔انسان کے نظریات وقت اورحالات کے ساتھ ساتھ تبدیل بھی ہوتے رہے تاہم انسانیت کیلئے نظریات کی اہمیت سے انکار نہیں کیاجاسکتا۔یوری بزمنوف 1939ء میں ماسکو کے مضافات میں ایک فوجی آفیسر کے ہاں پیدا ہوا ، سترہ برس کی عمر میں مشرقی علوم سکھانے کے ایک ادارے میں داخلہ لیا جس میں صرف ذہین و فطین نوجوانوں کو داخلہ ملتا تھا ،یہ ادارہ بظاہر مشرقی زبانیں اور علوم سکھاتا تھا لیکن اندرون خانہ انہیں جاسوسی ، پراپیگنڈے اور اور بر اندازی کے طریقے سکھائے جاتے تھے اور ساتھ یہ بھی سکھایا جاتا کہ کسی بھی ملک کی زبان و ادب پر عبور حاصل کر کے لوگوں کے دلوں میں کیسے جگہ بنائی جاتی ہے ، 1963ء میں تربیت مکمل کرنے کے بعد اس نوجوان کو بھارت بھجوا دیا گیا ، یہاں یوری دو سال رہا اور سوویت یونین کی نیوز ایجنسی RIAمیں کام کرنے لگا جہاں بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی کے جی بی نے اس فن بر اندازی کے اسرار و رموز سکھائے اور خاص طور پر یہ سکھایا کہ دشمن ملک کا سیاسی اور معاشرتی نظام کس طرح بربادوفنا کیا جا سکتا ہے ، پھر 1969ء میں اس کو دوبارہ بھارت بھجوا دیا جاتا ہے جہاں اس کا مشن پاکستان کو توڑنا تھا ، اس نے اپنی تمام تر صلاحیتوں ، تربیت اور نظریاتی بر اندازی کے فن کو بروئے کار لاتے ہوئے ہندو اساتذہ ، کاروباری ایجنٹوں اور بنگلہ دیشی غداروں کی مددسے یہ پراپیگنڈا شروع کر دیا کہ مغربی پاکستان کی افواج ان کا استحصال کر رہی ہے ، ایڈورڈ گریفن کو دیے گئے ایک انٹرویو میں اس نے تفصیل سے بیان کیا کہ بھارت میں روس کے سفارت خانے مشرقی پاکستان میں اسلحہ ، پراپیگنڈا مواد اورخطیر رقم اسمگل کر کے علیحدگی پسندوں کو بھجواتے رہے۔ اس انٹرویو میں یوری نے نظریاتی براندازی (Idealogical Subversion) کی اصطلاح کے چار مختلف مراحل یعنی اخلاقی ابتری(Demoralization)،عدم استحکام (Destabilization)، بحران (Crisis)،اور معمول پر آنا (Nomalization)کو نہ صرف تفصیل سے بیان کیا بلکہ جاسوس ایجنسیوں کے کردار کو بھی بے نقاب کیا جس میں کوئی بھی ایجنٹ اپنے پوشیدہ روپ میں سب سے پہلے دشمن ملک کے معاشرتی، سیاسی اور معاشی نظام میں بگاڑ پیدا کرنے کے لئے اس قوم کے افراد کو پندرہ سے بیس سال کے عرصے کے دوران ایک نسل میں اخلاقی انحطاط پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ اس ملک کے میڈیا میں موجود کالی بھیڑوں کو جو نامور صحافیوں ، دانش وروں ، ماہرین تعلیم اور پروفیسروں کی صورت میں ہوتی ہیں بھاری رقم دے کرخرید لیتا ہے اور پھر یہی لوگ اس بر اندازی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور اپنی تحریروں ، فلموں اور ڈراموں کے ذریعے ملک میں فحاشی، بے حیائی کو فروغ دیتے ہیں اسی دوران ایجنٹ کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ مذہبی تنظیموں ، این جی اوز، سکول، کالج اور یونیورسٹیوں اور کلچرل اداروں میں داخل ہو کر قوم کو فحاشی اور عیاشی کی افیون کا اتنا عادی کر دے کہ ان کو سچ اور جھوٹ کی پہچان بھی بھول جائے ، اس سلسلے میں بھارت کے مشیر قومی سلامتی اجیت دوال اور کلبھوشن یادو کو نہیں بھولنا چاہئے جو جاسوسی حلقوں میں نظریاتی بر اندازی کے ماہر شمار کئے جاتے ہیں بلکہ اجیت دوال تو مختلف بھیس بھر کر چھ سے سات سال پاکستان مقیم رہا ہے اورکلبھوشن بھی اپنے جرم کی پاداش میں قید ہے۔موجودہ دور کے میڈیا بشمول پرنٹ ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیاکے میڈیا کے منفی کردارپر بات کی جائے تو موجودہ میڈیا نے عوام کے درمیان انتشار پیدا کرنے ،بغاوت اور نافرمانی پر اْبھارنے،لوگوں کے دلوں میں اپنی مرضی کے نظریات کے بارے میں شکوک و شبہات کو فروغ دینے اور واقعات کو توڑ مروڑ کر پیش کر کے عوام کو گمراہ کرنے کے علاوہ کوئی قابل ذکر کارنامہ سر انجام نہیں دے سکابلکہ مخصوص نااہل افراد اور جماعتوں کی تعریف میں آسمان و زمین کے قلابے ملا کر رائے عامہ کو ہموار کرنے جیسے سر گرمیوں میں بدنامی کی حد تک ملوث ہونے کے شواہد بھی ہیں جس کا بنیادی مقصد اپنی ریٹنگ بڑھانا اور اپنا مخصوص مقاصد کاچورن بیچنا ہے۔

جاسوسی ماہرین اور تربیت کاران کے مطابق نظریاتی بر اندازی کے پہلے مرحلے یعنی اخلاقی ابتری میں پندرہ سے بیس سال کا عرصہ لگتا ہے اور یہی وہ مرحلہ ہے جہاں کسی بھی قوم یا ملک کی عوام کی برین واشنگ کر کے ان کو اپنے قومی نظریات اوراساس کے خلاف بھڑکایا جاتا ہے اور کوشش کی جاتی ہے کہ ملک کی دفاعی لائن کو کمزور کر دیا جائے اگر پاکستان کی بات کی جائے تو اس مملکت کی بنیاد نظریہ پاکستان اور دو قومی نظریہ تھا جس کا تمسخر اڑانے کے لئے نہ صرف نام نہاد دانشور خریدے گئے بلکہ نصاب تعلیم کو اپنے خریدے ہوئے غداروں کی مدد سے اتنا منحرف کر دیا گیا کہ مستقبل کی نسل کو خود ایسے نظریات کا علم ہی نہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ملک کی دفاعی لائن یعنی افواج پاکستان کے خلاف اپنے پالتو میڈیا پرسن کے علاوہ مخصوص لابی کو اتنا متحرک کیا گیا کہ وہ سوشل اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے نہ صرف ان کی کردار کشی کی مہم چلا رہے ہیں بلکہ افواج پاکستان کی چھوٹی سی غلطی یا خامی کاجان بوجھ کر واویلا کرنا ایک معمول بن چکا ہے منظور پشتین کا معاملہ ہو یامسنگ پرسن کا ،اظہار رائے کی آزادی کی بات ہو یا مذہبی تشدد پسندی کی، سب سے پہلے الزام افواج پاکستان پر لگا دیا جاتا ہے اور پھر زر خرید غلاموں کی زبان اور قلم چلنا شروع ہو جاتے ہیں۔ بات میں پتہ چلتا ہے کہ جن غائب شدہ لوگوں کا رونا میڈیا چینلز اور سوشل میڈیا پر ڈالا جا رہا تھا وہ تو خود پاکستان مخالف سر گرمیوں میں مصروف تھے ۔ بات خیبر پختون خواہ کے حقوق کی ہو یا بلوچستان کی حق تلفی کی ، سرائیکی ، مہاجر اور سندھی کے مسائل ہوں ان میں ہمیں کہیں بھی اجتماعیت کا عنصر نظر نہیں آ رہا ۔ اگر پاکستان میں ہر انسان اور ہر قوم ہی محروم اور مظلوم ہے تو ظالم کون سی قوم ہے ، اب چونکہ موجودہ نسل اتنی معصوم اذہان کی مالک نہیں کہ ان کی تربیت سکولوں ، کالجوں یا یونیورسٹیوں میں کی جا سکے بلکہ میڈیا ہی ایک ایسا ہتھیار ہے جو پاکستان کی عوام کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے میں مدد کر کے مخالف قوتوں کو منہ توڑ جواب دے سکتا ہے ۔

گزشتہ دنوں ہمارے دفاعی ادارے کے ترجمان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے نہ صرف ففتھ جنریشن وار کی حقیقت کو تسلیم کیا بلکہ میڈیا سے گزارش کی کہ جیسے سانحہ پشاور کے بعد میڈیا نے عوام الناس کے ذہنوں میں ملکی سلامتی کے تصور کو اجاگر کیا تھا اب بھی ضرورت اس امر کی ہے کہ میڈیا ایک بار پھر عوام کو تصویر کا اصل رخ دکھاتے ہوئے ملک میں پھیلی نفرت ، تعصب اور محرومی کی آگ کو بجھانے میں اپنا کردار ادا کرے تو مجھے مشہور سیاہ فام نو مسلم راہنما میلکم ایکس کا ایک قول یاد آیا کہ "دنیا میں میڈیا سب سے طاقتور ہتھیار ہے جو معصوم کو گناہگار اور اور مجرم کو معصوم بنا سکتا ہے ، ایسا اس لئے کہ میڈیا عوام کے ذہنوں کو کنٹرول کرتا ہے " جبکہ اس سے پہلے بی بی سی اردو جیسے ایک مستند ادارے کی ویب سائٹ پر چیف آف آرمی سٹاف کی طرف سے ایک منسوب بیان بھی میری نظر سے گزر چکا تھا جس میں کہا گیا کہ اب ففتھ جنریشن وار فیئر کی اصطلاح کو استعمال کیا جاتا ہے جس کو پاکستان سمیت دنیا بھر کی 'اسٹیبلشمنٹ' کسی جگہ پر اپنی طاقت اور اپنی موجودگی برقرار رکھنے کے لیے جواز بناتے ہیں لیکن یوری کے انٹرویو اور اقوام عالم کی تاریخ کو اٹھا کر دیکھا جائے تو موجودہ دور میں ذہنوں کو اپنے قابو میں کرنا یعنی برین واشنگ ہی وہ سب سے آسان عمل ہے جس کے ذریعے کسی بھی قوم کو فتح کر نا بہت آسان ہے جس کی کئی مثالیں ہماری دنیا میں موجود ہیں ، افواہ سازی تو ایک عام سے اصطلاح ہے جس کو ہر دشمن قوم پر آزمایا جاتا ہے لیکن انٹر نیٹ کی ایجاد کی بعد تو جغرافیائی سرحدیں ہی ختم ہو گئی ہیں جس کی وجہ سے اسلام اور پاکستان دشمن طاقتوں کو نہ صرف کھل کر کھیلنے کا موقع مل گیا ہے بلکہ نوجوان نسل اور اقبال کا شاہین ان کے لئے ایک آسان ٹارگٹ بن چکا ہے اور تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں کہ غیر ملکی طاقتوں کی جنگ میں ہم نے صرف نقصان ہی نقصان اٹھایا ہے انہوں نے نہ صرف ہمیں ٹشو کی طرح استعمال کیا ہے بلکہ ہم تو وہ ٹشو ہیں کہ ایک کنجوس شیخ کی طرح عالمی طاقتیں ہمیں دھو کراور استری کرکے کسی بھی موقع پر استعمال کرنے کے لئے پھر رکھ دیتی ہیں کہ ہم وہ قوم ہیں جس کو ارزاں نرخوں پر فروخت کرنے والے راہنما بہت مل جاتے ہیں ، موجودہ وار فئیر میں میڈیا کے کردار سے ہرصاحب ذی علم وعقل واقف ہے ، موجودہ دور میں گو پرنٹ میڈیا کو اتنی اہمیت حاصل نہیں لیکن الیکٹرانک اور سوشل میڈیا ایک ایسا تیز اور تباہ کن وار ہیڈ ہے جو پلک جھپکتے ہی عوام الناس کے ذہنوں کو ابتر اور بد حال کر کے پوری قوم کو مفلوج کر دیتا ہے لیکن مجھے یہ کہتے ہوئے کوئی عار نہیں کہ ہماری قوم کی نوجوان نسل کوذہنی اور جسمانی طور پر معذور کرنے میں ہمارے میڈیا کا بہت بڑا ہاتھ ہے ، اگر ایک جھلک ہی دیکھنا ہے تو ڈش چینلز پر نشر ہونے والے اشتہارات سے لے کر مارننگ اور نائٹ شوز کا ماحول دیکھ لیں یا پھر اس کے ثمرات دیکھنا ہیں تو چھوٹے معصوم بچوں اور نوجوان نسل کے لباس دیکھ لیں تو ہمیں سب کچھ نظر آ جائے گا ، فیشن اور فحاشی کی اس دوڑ کو نہ کوئی روک رہا ہے اور نہ ہی سوچ رہا ہے جس میں سب سے زیادہ حصہ میڈیا ہی ڈال رہا ہے جس کے مذہبی، علمی اور سیاسی ٹاک شوز میں نہ صرف بھانڈ اور میراثی چھائے ہوئے ہیں اور اہل علم کسی کونے کھدرے میں چھپے کسی اچھے وقت کے منتظر ہیں ، بلکہ اہل علم، علماء دین ، مفکرین تو خود سے یہ سوال کرتے دکھائی دے رہے ہیں کہ
؂کھڑا ہوں آج بھی روٹی کے چارحرف لئے
سوال یہ ہے کہ کتابوں نے کیا دیا مجھ کو

Muhammad Shahid Altaf
About the Author: Muhammad Shahid Altaf Read More Articles by Muhammad Shahid Altaf: 27 Articles with 18353 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.