تحریر:امان اﷲ باجوڑی
حجر کا معنی ہے پتھر اور اسود کہتے ہے کالے کو،تو حجر اسودِ کا معنی ہوا
’’کالا پتھر‘‘۔یوں بظاہر حجر اسود تو ایک عام ساپتھر ہے لیکن تاریخی اعتبار
سے یہ پتھر بہت بابرکت اور حرمت والا ہے ۔اس کا قطر 13انچ ہے، جو خانہ کعبہ
کے دروازے کے قریب مشرقی گوشہ میں زمین سے پانچ فٹ بلندی پر نصب ہے۔ اس وقت
اس کے کل پندرہ چھوٹے بڑے ٹکڑے ہیں جن کودرختوں سے حاصل ہونے والے ایک
خوشبودار مادے سے ملائے گئے ہیں۔یہیں سے طواف شروع ہوتا ہے، اس کی تاریخ
ہزاروں سال پرانی ہے۔ اس کو سب سے پہلے ابراہیمؑ او اسماعیلؑ نے اپنے مبارک
ہاتھوں سے نصب کیا تھا اور رسول اﷲﷺ نے ان کو شرفِ تقبیل و استلام
بخشا۔ہمارے نبی پاکﷺ نے قسم کھا کر ارشاد فرمایا کہ ،’’حجراسود کو اﷲ تعالی
قیامت کے دن ایسی حالت میں اٹھائیں گے کہ ان کی دو آنکھیں ہوں گے جن سے وہ
دیکھے گا اور زبان ہوگی جس سے وہ بولے گا اور گواہی دے گا اس شخص کے حق میں
جس نے اس کو حق (یعنی ایمان )کے ساتھ بوسہ دیا ہو‘‘۔(ترمذی)
کچھ لوگوں کو اعتراض بھی ہے کہ مسلمان پتھر کی تعظیم کرکے بت پرستوں کی
مشابہت کررہے ہیں حالاں کہ یہ وہ پتھر ہے جس میں برکت اﷲ نے اپنے جانب سے
رکھا ہے، ورنہ حضرت عمرفاروقؓ تو یہاں تک فرمادیتے ہیں کہ میں اس کی گواہی
دیتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے نہ نفع پہنچا سکتا ہے نہ نقصان۔میرا رب صرف وہی
ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، اگر میں یہ نہ دیکھتا کہ حضورﷺ نے تجھے بوسہ
دیا اور ہاتھ لگایا، تو میں نہ بوسہ دیتا نہ ہاتھ لگاتا۔
یہ پتھر ابتداًء چاندی کی طرح سفید تھا اور اس کو رکن یا گوشہ کہا جاتا تھا۔
البتہ 64ھ میں جب عبداﷲ بن زبیرؓ کے زمانے میں آتشزدگی ہوئی تو اس وقت حجرِ
اسود جل کر تین ٹکڑے ہوگیا تھا،اس کے بعد اس کو حجر اسود کہا جانے لگا۔
حجر اسود کے واقعات و حادثات:
کعبہ کی تعمیر سب سے پہلے بابائے آدمؑ نے کی البتہ اس وقت حجر اسود کی
موجودگی یا غیر موجودگی سے تاریخ خاموش ہے، اس پتھر کی مستند تاریخ ابراہیمؑ
کے زمانے سے شروع ہوتی ہے۔ حضرت ابراہیمؑ جب خانہ خدا کی تعمیر کررہے تھے
تو ان کو ایک ایسے پتھر کی ضرورت ہوئی جو بطور علامت اسے دیوار میں نصب کیا
جائے جہاں سے طواف کی ابتداء ہو، تو اس وقت جبرائیلؑ نے یہ پتھر لاکر پیش
کردیا۔حضورﷺ کی پیدائش سے بہت پہلے مکہ کے ایک قبیلہ جرہم کو اولادِ
اسماعیل بنو بکر سے شکست ہوئی،تو قبیلہ جرہم نے اس متبرک پتھر کو زمزم میں
دفن کرکے اسے برابر کردیا، کیوں کہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ یہ مبارک پتھر ان
کے دشمنوں کے پاس چلا جائے البتہ تاریخ اس بات سے خاموش ہے کہ کس نے زمزم
سے اس پتھر کو نکال کر کعبہ میں دوبارہ نصب کردیا۔
اس کے بعد جب حضورﷺ کی عمر مبارک 35 سال تھی، کعبہ کی عمارت میں آگ بھڑک
اٹھی، کعبہ کو جزوی نقصان پہنچا، کچھ دن بعد سیلاب آیا اور نالا بہت زور کے
ساتھ کعبہ میں داخل ہوا، کعبہ کی دیواریں گرنے لگیں تو قریش نے مل کر اس کی
تعمیر شروع کی۔ جب حجر اسود نصب کرنے کا وقت آیاتو قبائل میں اس پر نیا
تنازعہ کھڑا ہوگیا کہ کون اس مبارک پتھر کو اٹھائے گا، ہر کسی کی تمنا تھی
کہ وہ یہ کام سر انجام دے۔ یہاں تک کہ سب نے مل کر حضورﷺ کو اپنے درمیان
حاکم بنایا اور پھر سب ان کے فیصلے پر راضی ہوگئے۔جب عبداﷲ بن زبیر نے یزید
کی بیعت کا انکار کردیا تو64ھ میں یزید کی فوج نے مکہ پر یلغار کردیا۔
منجنیق نصب کرکے پتھر اور ہانڈیوں کی بارش کردی گئی، جس سے غلاف کعبہ جل
گیا، دیواریں ہلنے لگیں، جب فوج واپس ہوئی تو ابن زبیرؓ نے کعبہ کی ازسرنو
تعمیر کرائی اور حجر اسود کے ارد گرد چاندی کا حلقہ جڑدیا۔
317ھ میں قرامطہ فرقہ نے مکہ پر چھڑائی کی، تیس ہزار لوگوں کو قتل کیا،
انہوں نے حجر اسود کو اکھاڑا اور اپنے ساتھ مقام ہجر لے گئے۔ بائیس سال بعد
انہوں نے حجراسود واپس کردیا۔
363ھ کو حجر اسود کے ساتھ ایک واقعہ پیش آیا، دوپہر کے وقت جب سب لوگ سوئے
ہوئے تھے، ایک رومی نے بڑھ کر حجر اسود پر کدال کا وار کیا جس سے اسے خفیف
سا صدمہ پہنچا، لوگوں نے اسے قتل کردیا، بعد میں معلوم ہوا کہ وہ روم سے
حجر اسود کو نکالنے کے لیے آیا تھا۔
۳ھ کو ایک مصری حجر اسود کے سامنے تلوار اور لوہے کا لٹھ لے کر کھڑا تھا،
جونہی امام نماز سے فارغ ہوا اس نے حجر اسود کا رخ کیا اور اسے تین لٹھ
مارے اوروہ کہتا جارہاتھاکہ کب تک اس سیاہ پتھر کی پرستش ہوتی رہے گی۔محمدﷺ
اور علی بھی مجھے منع نہیں کرسکتے،میں نے ارادہ کیا ہے کہ اس کو توڑ ڈالوں۔
لیکن اﷲ تعالی نے حجر اسود کو اس شریر سے محفوظ رکھا۔
۹۹۰ھ میں بھی امیر ناصر کی موجودگی میں حجراسود کو لٹھ مارا گیا تھا، جسے
امیر نے خود قتل کردیا۔1088ھ ، 1143ھ اور 1155ھ کو حجر اسود کو ناپاک کرنے
اور بے ادبی کرنے کی کوشش کی گئی۔
۱۰۳۹ھ کو تیز بارش ہوئی،ایک بڑا سیلاب مسجدِ حرام مین داخل ہوا، جس سے خانہ
کعبہ کی دیواروں کو نقصان پہنچا اور مسجد کیچڑسے بھر گیا، تو سلطان مراد
خان نے اس کی دوبارہ تعمیر کرائی، سیلاب کی وجہ سے حجر اسود بھی اپنی جگہ
سے ہٹ گیا تھا، اس وقت تک حجراسود کے کل تیرہ ٹکڑے تھے جن کو مختلف مسالے
لگا کر جوڑا گیا اور واپس نصب کردیا۔
محرم ۱۳۵۱ھ میں عبدالستار نامی ایک افغانی نے حجر اسود کا ایک ٹکڑا چرا لیا
اور غلاف کعبہ اور کعبہ کی سیڑھی سے تھوڑی چاندی چرائی، اس نے جرم کا اقرار
کیااور اسے موت کی سزا ہوئی،ربیع الثانی میں وہ ٹکڑا واپس جوڑ دیا گیا۔
موجودہ آل سعود نے حجر اسود کی حفاظت کے لیے ہر قسم کے انتظامات کیے ہیں۔آج
کل ہزاروں لوگ کعبہ کے اردگرد موجود رہتے ہیں اس لیے چوبیس گھنٹوں میں
چوبیس خصوصی محافظ اس مبارک پتھر کی نگرانی کرتے ہیں۔ہر گھنٹہ کے بعد ان کی
ڈیوٹی تبدیل ہوجاتی ہے۔ سال میں ایک مرتبہ اس مبارک پتھر کو حفاظتی مراحل
سے گزارا جاتا ہے تاکہ اگر کہیں کوئی مرمت کرنی ہو تو ہوجائے۔چوبیس گھنٹوں
کے بنیاد پر خوشبو کا چھڑکاؤ کیا جاتا ہے، وقتا فوقتا زائرین کو اس کی
حفاظت کے بارے میں آگاہ کیا جاتا ہے۔
فانوس بن کر جس کی حفاظت خدا کرے
وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے |