علماء کرام کا حکمرانوں کے ساتھ تعامل کیسا ہونا چاہیے۔۔۔
اس بارے میں شریعت کیا راہنمائی کرتی ہے۔۔۔
چھوٹے بھائی فیضان فیصل کے قلم سے۔۔۔
بارک اللہ فی العلم والعمل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حکمرانوں کے پاس آنا جانا ...
حکمرانوں کے پاس آنے جانے سے متعلق دونوں طرح کی روایات ملتی ہیں. سلف
صالحین کا عمل بھی دونوں طرح کا ہے. ذیل میں اس کی کچھ تفصیل ذکر ہے:
حکمرانوں کے پاس جانے کا جواز :
أم المؤمنين عائشة رضي الله عنها سے مروی ہے کہ رسول الله صلى الله عليه
وسلم نے فرمایا :
چھ کام ایسے ہیں جن کو انجام دیتے ہوئے کوئی فوت ہو جائے تو اللہ کی طرف سے
اس کے جنت میں داخلے کی ضمانت ہے. اس میں سے ایک یہ ہے :
رجل أتى إماماً، لا يأتيه إلا ليعزِّره ويوقره !
وہ شخص جو کسی حکمران کے پاس (کسی دنیاوی مفاد کی بجائے) صرف اس کی عزت و
توقیر کرنے کیلیے جاتا ہے.
[ السلسة الصحيحة : ٣٣٨٤ ]
تابعی سعيد بن جمهان نے سيدنا عبد الله بن أبي أوفى رضي الله عنهما سے
حکمران کے مظالم کی شکایت کی تو انہوں نے فرمایا :
"... إن كان السلطان يسمع منك ؛ فأته في بيته فأخبره بما تعلم، فإن قبل منك
؛ وإلا فدعه، فإنك لست بأعلم منه."
اگر سلطان تمہاری سنتا ہو تو اس کے گھر آؤ اور اپنے علم کے مطابق اس کی
رہنمائی کرو. اگر قبول کر لے تو ٹھیک ہے. اگر نہ کرے تو اسے چھوڑ دو کیونکہ
تم (امورِ حکمرانی کو) اس سے ذیادہ نہیں جانتے.
[ مسند أحمد : ١٩٤٧٣، حسن ]
سیدنا أبو أمامة الباهلي رضي الله عنه پر حکمرانوں کے پاس بہت ذیادہ آنے
جانے کی وجہ سے اعتراض کیا گیا تو فرمایا :
"نؤدي من حقهم." ہم ان کا حق ادا کرتے ہیں.
[ الأموال لإبن زنجويه : ٥٣، حسن ]
حکمرانوں کے پاس جانے کی ممانعت :
سيدنا أبو هريرة رضي الله عنه فرماتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیه وسلم
نے فرمایا :
" ... ومن أتى أبواب السلاطين افتتن، وما ازداد أحد من السلطان قرباً إلا
ازداد من الله بعداً"
اور جو حکمرانوں کی چوکھٹ پر آئے گا فتنے میں مبتلا ہو جائے گا. اور جو شخص
بھی سلطان کے قریب ہوتا جاتا ہے وہ اللہ سے دور ہوتا رہتا ہے.
[ السلسلة الصحيحة : ١٢٧٢ ]
سيدنا حذيفة بن اليمان رضي الله عنهما نے فرمایا : فتنوں کے مواقف سے بچو.
آپ سے پوچھا گیا کہ مواقفِ فتنہ سے کیا مراد ہے ؟ فرمایا :
"أبواب الأمراء؛ يدخل أحدكم على الأمير فيصدقه بالكذب، ويقول له ما ليس فيه."
حکمرانوں کے دروازے. تم میں سے کوئی شخص حاکم کے پاس جاتا ہے تو جھوٹ بول
کر اس کی تصدیق کرتا ہے اور اس کے بارے میں وہ باتیں کرتا ہے جو اس میں
نہیں ہیں..
[ مصنف عبد الرزاق : ٢٠٦٤٣ ]
اہل علم نے دونوں باتوں کو جمع کیا ہے.
امام ابن عبد البر رحمه الله اپنی کتاب [ جامع بيان العلم وفضله : ٢٢٧ ]
میں حکمرانوں کے پاس جانے کی ممانعت پر مبنی احادیث و آثار نقل کرنے کے بعد
کہتے ہیں:
"معنى هذا كله في السلطان الجائر الفاسق، وأما العدل منهم الفاضل فمداخلته
وعونه على الصلاح من أفضل أعمال البر"
یہ سب احادیث و آثار ظالم و فاسق حکمرانوں کے متعلق ہیں. جو عادل ہیں تو ان
کے ہاں آنا جانا اور خیر میں ان کی معاونت کرنا افضل ترین نیکیوں میں سے
ہے.
علامہ مباركپوری نے حکمران کے پاس جانے سے فتنہ میں مبتلا ہونے کی تفسیر
میں نقل کیا ہے :
"من دخل على السلطان وداهنه وقع في الفتنة ـ وأما من لم يداهن ونصحه وأمره
بالمعروف ونهاه عن المنكر فكان دخوله عليه أفضل الجهاد."
جو سلطان کے پاس گیا اور مداہنت برتی تو وہ فتنے میں مبتلا ہو گیا. اور جس
نے مداہنت نہ برتی اور حاکم کو نصیحت کی اور امر بالمعروف ونھی عن المنکر
کیا تو اس کا یہ جانا افضل جہاد ہے.
[ مرقاة المفاتيح : ٢٥٥/٧ ]
امام ابن مفلح فتنے والی حدیث کے متعلق فرماتے ہیں :
"وهو محمول على من أتاه لطلب الدنيا ، لا سيما إن كان ظالما جائرا ، أو على
من اعتاد ذلك ولزمه فإنه يخاف عليه الافتتان والعجب بدليل قوله في اللفظ
الآخر (ومن لزم السلطان افتتن)
یہ حدیث اس شخص پر محمول کی جائے گی جو دنیاوی طلب کیلیے جائے بالخصوص جب
حکمران ظالم و جابر ہو. یا ایسا شخص جو اسے عادت بنا لے اور حکمران کے ساتھ
نتھی ہو جائے تو اس پر فتنے اور خود پسندی کا ڈر ہے کیونکہ ایک روایت کے
الفاظ ہیں (جس نے سلطان کی ملازمت اختیار کی) "
[ الآداب الشرعية : ٤٥٨/٣ ]
شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمه الله نے حکمرانوں کے پاس جانے والوں کی تین
قسمیں بیان کی ہیں. ایک وہ جو ان کے پاس نصیحت و اصلاح کی غرض سے جاتے ہیں,
یہ محمود ہیں. دوسرے جو دنیاوی طلب اور جھوٹی تعریفیں کرنے جاتے ہیں, یہ
مذموم ہیں. تیسرے جو محض یاری دوستی اور گپ شپ کیلیے جاتے ہیں یہ بعض دفعہ
فائدہ مند ہیں اور بعض دفعہ نقصان دہ.
[ شرح الشيخ العثيمين لرسالة الشوكاني "رفع الأساطين في حكم الاتصـال
بالسلاطين" - الشريط الأول / وجه :ب ]
پاکستانی حکمرانوں کے متعلق میرا یہ تجزیہ ہے کہ انہیں دینی رہنمائی کی اشد
ضرورت ہے. علماء جب تک فتنے سے بچ سکتے ہوں, ان کو نصیحت اور اصلاح کی غرض
سے حکمرانوں کے پاس جاتے رہنا چاہیے. واللہ اعلم بالصواب |