سوال(1): ایک شخص کو اکلوتی بیٹی تھی اس نے ایک لڑکا گود
لیا ، جب یہ دونوں بچے بالغ ہوگئےکیا اس وقت لڑکی اپنے منہ بولے بھائی سے
پردہ کرے گی؟
جواب : منہ بولے بہن بھائی کی اسلام میں کوئی حقیقت نہیں ہے ، بھائی وہی
ہیں جو سگے ہوں خواہ نسب سے ہوں یا رضاعت سے ۔ اگر لڑکی کی ماں نے لے پالک
کو شیرخواری میں اپنا دودھ نہیں پلایا توبلوغت کے بعد اس لے پالک سے نہ صرف
لڑکی پردہ کرے گی بلکہ اس کی ماں کو بھی پردہ کرنا لازم ہےاور اگرلے پالک
لڑکی ہے تووہ منہ بولےباپ سے بھی پردہ کرےگی۔جب لے پالک(لڑکا/لڑکی) کا
بلوغت کے بعد منہ بولےماں باپ سے پردہ ہےتو منہ بولے بہن بھائی کے درمیان
بدرجہ اولی پردہ ہوگااس لئےلڑکی کو چاہئے کہ اپنے منہ بولے بھائی سے خلوت
نہ کرے، مصافحہ نہ کرے،اس کے ساتھ سفر نہ کرے، بلاضرورت اور بلاحجاب بات
چیت نہ کرے ، نہ ننگے سر آئےاور نہ اس کے سامنے اپنی زینت کا اظہار کرے
کیونکہ یہ متبنی اس لڑکی کے لئے غیرمحرم ہے۔ آج کل انٹرنیٹ پہ بھی منہ بولے
بہن بھائی بنائے جاتے ہیں ، دوران حج میدان عرفات میں عورتیں اجنبی لڑکے
کوعرفاتی بھائی بنالیتی ہیں ۔ یاد رہے اس طرح بھائی بنالینے سے آپس میں
پردہ نہیں اٹھجاتا ہے، اجنبی ان احوال میں بھی اجنبی ہی رہیں گے ، آپس میں
پردہ کرنا ہوگا اوراسی طرح آپس میں نکاح بھی جائز ہے ۔
سوال(2):ایسے پھل کھانے کا کیا حکم ہے جو نجس پانی سے پٹایا گیا ہو؟
جواب : اگر نجس پانی سے کوئی درخت سیراب ہوا ہو تو اس کا پھل کھانا جائز ہے
کیونکہ وہ درخت، اس کی ڈالی، اس کا پتہ اور اس کا پھل سب کچھ پاک ہیں ۔ جب
پاک چیز سے مل کر نجس چیز کا وصف بدل جائے تو وہ پاکی کے حکم میں ہے، اسے
استحالہ کہتے ہیں ۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے استحالہ سے متعلق
یہی موقف اختیار کیا ہے ۔ آپ خنزیر فرائی کئے تنور کی پاکی پر دوسرا قول
ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
وهو مذهب أبي حنيفة ، وأحد قولي المالكية وغيرهم ، أنها لا تبقى نجسة .
وهذا هو الصواب ، فإن هذه الأعيان لم يتناولها نص التحريم لا لفظا ولا معنى
، وليست في معنى النصوص ، بل هي أعيان طيبة فيتناولها نص التحليل(مجموع
الفتاوى:21/ 610 –611) .
یعنی دوسرا مذہب جوکہ ابوحنیفہ اور مالکیہ وغیرہ کا ہے کہ نجس چیزیں اپنی
کیفیت بدلنے سے نجس نہیں رہتیں اور یہی قول درست ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان
چیزوں کو حرمت شامل نہیں ہے ، نہ لفظی طور پر اور نہ ہی معنوی طورپر بلکہ
یہ چیزیں پاک ہیں اور حلال چیزوں کے نصوص میں شامل ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ شیخ
الاسلام نے نجس فضلات خشک ہوکر مٹی میں مل کر مٹی ہوجانے پراس جگہ کو پاک
کہا ہے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ نجس پانی سے سیراب ہوئے درخت کا پھل کھانا
جائز ہے۔
سوال(3):پانی کا کاروبار کرنا کیسا ہے جبکہ میں نے سنا ہے کہ پانی بیچنا
حرام ہے ؟
جواب : متعدد احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ پانی بیچنا منع ہے ، حضرت جابر بن
عبداللہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا:
نهى رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ عن بيعِ فضلِ الماءِ .( أخرجه
مسلم :1565، والنسائي :4670 مطولاً، وابن ماجه :2477، وأحمد:14639)
ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے بچ جانے والے پانی کو فروخت کرنے سے منع فرمایا۔
بظاہر اس حدیث سے پانی بیچنا ممنوع معلوم ہوتا ہے مگر علماء نے کہا ہے کہ
یہاں پانی سے مراد نہروں اور چشموں کا پانی ہے جس پہ کسی کی ملکیت نہ ہو۔
جب پانی کو جمع کرلیا جائے اور اپنی ملکیت میں لے آیا جائے تو اس کا بیچنا
جائز ہے ۔
سوال(4):نکاح کن کن باتوں سے ٹوٹ جاتا ہے؟
جواب : ان باتوں سے نکاح ٹوٹ جاتا ہے ۔طلاق سےیا خلع سےیا ارتداد سےیا شوہر
کے لاپتہ ہونے پر عدالت کے ذریعہ فسخ نکاح سے۔ احناف کے یہاں بیٹی یا ساس
کو شہوت سے چھولینے یا سسر کا بہو سے زنا کرنے یا شہوت کے ساتھ چھولینے سے
نکاح ٹوٹ جاتا ہے ۔ احناف کا یہ مسئلہ قرآن وحدیث کے خلاف ہے ۔ حدیث میں
وارد ہے کہ حرام کام کسی حلال کو حرام نہیں کرسکتا (ابن ماجہ: 2015) گوکہ
اس حدیث کو شیخ البانی نے ضعیف کہا ہے مگر کئی آثار سے یہ بات منقول ہے ۔
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی صحیح اثر میں مذکور ہے :عنِ ابنِ عباسٍ أنَّ
وطءَ الحرامِ لا يُحرِّمُ۔
ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حرام وطی (مباشرت) سے
(کوئی حلال چیز) حرام نہیں ہوجاتی ۔
احناف سے گئے گزرے بریلوی ہیں جو اپنے مخالف مذہب والوں سے سلام ومصافحہ تک
کرنے سے عورتوں کا نکاح توڑ دیتے ہیں بلکہ بسااوقات پورے پورے گاؤں کی
عورتوں کا نکاح توڑ دیا جاتا ہے ۔ ایک جگہ ایک دیوبندی نے بریلویوں کو
جنازہ کی نماز پڑھائی ، جب بریلوی ملاؤں کو معلوم ہوا تو پورے گاؤں کا نکاح
ٹوٹ جانے کا اعلان کیا ۔ پھر تجدید نکاح کے نام پہ فیسوں سے جیب گرم کی
جاتی ہے۔ چند باتیں عوام میں نکاح ٹوٹنے سے متعلق غلط مشہور ہوگئی ہیں ۔ ان
میں بیوی کی پچھلی شرمگاہ میں وطی کرنے ،بیوی کا دودھ پینے، سالی سے زنا
کرنے، بیوی سے کئی سال لاتعلق اور باپ چیت نہ کرنے سے نکاح ٹوٹ جاتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ان باتوں سے نکاح نہیں ٹوٹتا۔
سوال(5):کیا خواب کی تعبیر جاننا ضروری ہے اور اگر کسی نے برا خواب دیکھ
لیا اسے کسی سے بیان کردیا تو اس کے شر سے بچنے کی تدبیر کیا ہوگی؟
جواب : حضرت ابو سلمہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں ایسے خوفناک خواب
دیکھتا تھا جو مجھے بیمار کردیتے یہاں تک کہ میں نے حضرت ابو قتادہ ؓ کو
فرماتے سنا: میں ایسے خواب دیکھتا جو مجھے بیمار کردیتے حتیٰ کہ میں نے نبی
ﷺ کو فرماتے سنا:
الرؤيا الحسنةُ مِن الله ، فإذا رأى أحدُكم ما يُحِبُّ فلا يُحدِّثُ به إلا
مَن يُحِبُّ ، وإذا رأى ما يَكرَهُ فلْيَتعوَّذْ باللهِ مِن شرِّها ، ومِن
شرِّ الشيطانِ ، ولْيَتفُلْ ثلاثًا ، ولا يُحدِّثُ بها أحدًا ، فإنها لن
تَضُرَه .(صحيح البخاري:7044)
ترجمہ: اچھا خواب اللہ کی طرف سے ہوتا ہے، اس لیے جب تم میں سے کوئی اچھا
خواب دیکھے تو وہ صرف اس سے بیان کرے جس سے وہ محبت کرتا ہے اور جب کوئی
ناپسند خواب دیکھے تو اس کے شر اور شیطان کے شر سے اللہ کی پناہ مانگے، تین
بار تھو تھو کرے اور کسی سے بیان نہ کرے۔ ایسا کرنے سے وہ اسے کوئی نقصان
نہیں دے سکے گا۔
ایک دوسری روایت میں ہے ، نبی ﷺ فرماتے ہیں :إِذَا حَلَمَ أَحَدُكُمْ فَلَا
يُخْبِرْ أَحَدًا بِتَلَعُّبِ الشَّيْطَانِ بِهِ فِي الْمَنَامِ(صحيح
مسلم:2268)
ترجمہ:جب تم میں سے کوئی شخص برا خواب دیکھے تو وہ نیند کے عالم میں اپنے
ساتھ شیطان کے کھیلنے کی کسی دوسرے کوخبر نہ دے۔
نبی ﷺ کا فرمان ہے:فمَن رأى شيئًا يَكْرَهُهُ فلا يَقُصَّهُ على أحدٍ
ولْيَقُمْ فلْيُصَلِّ(صحيح البخاري:7017)
ترجمہ:جس نے خواب میں کسی بری چیز کو دیکھا تو چاہیے کہ اسے کسی سے بیان نہ
کرے اور کھڑا ہوکر نماز پڑھنے لگے۔
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ اچھے خواب صرف اچھے لوگوں سے بیان کیا جائے تاکہ
اس کے اندر حسد نہ ہو اور برے خواب کسی سے بھی نہ بیان کیا جائے کیونکہ اس
کے بیان کرنے سے پریشانی کا اندیشہ ہے ۔
اگر کسی نے انجانے میں یا دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے لئے کسی سے اپنا برا
خواب بیان کردیا ہے تو اسے چاہئے کہ برے خواب اور شیطان کے شر سے اللہ کی
پناہ مانگے کیونکہ کسی کے برا چاہنے سے بھی کچھ نہیں ہوتا جب تک کہ اللہ نہ
چاہے اورنماز پڑھ کراللہ سے دعائیں کرے تاکہ برے خواب کے شر سے اللہ بچائے
۔آئندہ کسی سے برا خواب بیان نہ کرے ۔
سوال(6):کسی نے اپنے موزہ پر مسح کرکے نماز پڑھی ، نماز کے بعد معلوم ہوا
کہ مسح کی مدت ختم ہوگئی تو کیا اپنی نماز پھر سے لوٹائے گا؟
جواب :اس میں چند مسائل ہیں ۔ اگر کبهی ایسا ہو کہ بهول کر بغیر وضو کے
موزہ پہن لیا اور اسی حالت میں موزے پہ مسح بهی کرلیا یا مسح کی مدت ختم
ہونے کے بعد مسح کرکے نماز ادا کرلی تو ان صورتوں میں نماز باطل ہے، اس
نماز کو دہرانی ہوگی کیونکہ یہ معاملہ ایسے ہی ہے جیساکہ کوئی بلا وضو نماز
پڑهے اورمسلم شریف کی حدیث ہے کہ بغیر وضو کے نماز قبول نہیں ہوتی۔
دوران نماز امام (کسی کو امامت کے لئے بڑھادے)ہو یا مقتدی اگر اسے اس بات
کا علم ہوجائے کہ مسح کی مدت ختم ہوگئی تھی پھر بھی مسح کرکے نماز ادا
کررہاہے تو نماز توڑ دے اور نیا وضو کرکے پھر سے نماز پڑھے ۔
اگر امام نے ایسی حالت میں نماز پڑھایا کہ اس نے مسح کی مدت ختم ہونے کے
بعد مسح کیا تھا تو صرف امام کو نماز دہرانی ہوگی بقیہ لوگوں کی نماز درست
ہے الا یہ کہ اگر مقتدی کو شروع میں ہی معلوم ہوگیا ہو تو وہ بھی اپنی نماز
دہرالے ۔
ایک مسئلہ یہ ہے کہ مسح کی مدت تو ختم ہوگئی تھی مگر آدمی کا وضو باقی تھا
تو ایسی صورت میں پڑھی گئی نماز صحیح ہے۔
سوال(7):عقیقہ کے موقع سے مہندی لگانے کا شرعی حکم کیا ہے ، آجکل اس کا
رواج بڑھنے لگا ہے ؟
جواب: عورتیں کبھی بھی مہندی لگاسکتی ہیں مگر کسی وقت کو متعین کرلینا رسم
ورواج میں داخل ہے۔ایسے رسم ورواج سے بچنا چاہئے جس سے شر پھیلنے کا اندیشہ
ہو۔ عقیقہ نومولود کے نام سے خون بہانے کا نام ہے ،اس عقیقہ سے عورت کے
مہندی لگانے کا کیا تعلق ہے ؟ یاد رہے اگر عورتیں اجنبی مردوں سے مہندی
لگواتی ہیں یا مہندی لگاکر اجنبی مردوں پر اپنی زینت ظاہر کرتی ہیں تو
گناہگار ہوں گی ۔
سوال(8):کیاعورتوں کے بالوں کو جو زمین پر گرجائیں انہیں دفن کردینا چاہئے
تاکہ لوگ انہیں غلط مقاصد کے لئے استعمال نہ کریں ؟
جواب: بالوں کو دفن کرنے سے متعلق کوئی نص موجود نہیں ہے تاہم بعض اہل علم
اسے دفن کرنے کو اچھا خیال کرتے ہیں ۔اگر جادو ٹونا کا اندیشہ ہو جیساکہ آج
کل اس کا بڑا رواج ہے تو پھر کسی محفوظ جگہ دفن کردینا چاہئے ۔اجنبی مردوں
کی نظر نہ پڑے اس مقصد سے بھی بال زمین میں چھپایا جاسکتا ہے۔اکثرعورتیں
توہمات کا شکار ہوتی ہیں اور ہربات کو جناتی اثرات سے منسوب کرتی ہیں ۔ میں
ان عورتوں کو پابندی سے نماز ادا کرنے، کثرت سے استغفارپڑھنے اورطہارت
واذکار پہ ہمیشگی برتنے کی نصیحت کرتا ہوں ۔ اللہ کی توفیق سے نہ کسی انسان
کا جادو آپ پر اثر کرے گا اور نہ ہی کوئی شیطان آپ کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
سوال(9):کیا عورت اپنے میکے میں قصر کرے گی ؟
جواب: جب عورت اپنے شوہر کے ساتھ اس کے گھر میں سکونت پذیر ہو اور والدین
کی زیارت کے لئے میکے جایا کرے تو دو شرطوں کے ساتھ قصر کرے گی ۔ پہلی شرط
یہ ہے کہ میکے کی مسافت پیدل یا اونٹ کے ذریعہ ایک دن اور ایک رات یعنی
تقریبا اسی کلومیٹرہو ۔ دوسری شرط یہ ہے کہ چاردن یا اس سے کم ٹھہرنے کی
نیت ہو ۔ اگر عورت میکے میں چار دن سے زیادہ ٹھہرنے کی نیت کرتی ہے تو پوری
نماز پڑھے گی یا مسافت اسی کلومیٹر سے کم ہے تب بھی میکے میں مکمل نماز
پڑھے گی ۔
سوال(10):اگر شوہر مجھے بال کٹانے، ابرو بنانے، ناخن بڑے رکھنے کا حکم دے
تو میں کیا کروں ؟
جواب : نبی ﷺ کا فرمان ہے :لا طاعةَ في مَعصيةِ اللَّهِ إنَّما الطَّاعةُ
في المَعروفِ(صحيح أبي داود:2625)
ترجمہ:اللہ کی معصیت میں کسی کی اطاعت نہیں ، اطاعت تو بس نیکی کے کام میں
ہے۔
اگر والدین اپنی اولاد کو کفر کرنے کا حکم دیں، یا شوہر بیوی کو معصیت کے
کاموں پر مجبور کرے یا حاکم رعایا کو ظلم وجور پر ابھارے تو ایسی صورت میں
نہ والدین کی اولاد پر، نہ شوہر کی بیوی پر اورنہ حاکم کی رعایا پر اطاعت
واجب ہے ۔ اللہ کی معصیت اور نافرمانی کے کاموں میں کسی کی بات نہیں مانی
جائے گی ۔
لہذا بیویاں اپنے شوہر وں کی اطاعت صرف بھلی باتوں میں کریں اور بال کٹانے،
ابروبنانےاوربڑے ناخن رکھنے کا حکم دیں تو ان کی بات ٹکراادیں ۔
سوال(11):مجھے شوہر حمل روکنے کی دوا کھانے پر مجبور کرتا ہے ، ایسی صورت
میں شوہر کی اطاعت کا کیا حکم ہے ؟
جواب : اگر شوہر کسی ضرورت ومصلحت اورشرعی عذر کی وجہ سے بیوی کو مانع حمل
گولی کھانے کا حکم دے تو بیوی شوہر کی اطاعت کرےلیکن شوہر کی اجازت کے بغیر
بیوی کا مانع حمل دوا استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔ صرف شوقیہ طورپر اولاد سے
بچنا نہ صرف شادی کے مقصد کے خلاف ہے بلکہ رسول اللہ ﷺکے اس فرمان کے بھی
خلاف ہے جس میں کثرت سے بچہ جننے والی عورت سے شادی کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ
بھی یاد رہےکہ کثرت سے مانع حمل گولی استعمال کرنے سے ،بعد میں اولاد سے
محرومی ہوتی ہے کیونکہ اس کے برے اثرات ہیں جو حیض اور رحم مادر پر مرتب
ہوتے ہیں ۔
سوال (12):آج کل عورتیں باریک موزے پہنتی ہیں کیا اس پر مسح کیا جاسکتا ہے
؟
جواب: بعض علماء نے باریک موزوں پر مسح کرناجائز کہنا ہے ، اس سلسلے میں
زیادہ قوی بات یہ ہے کہ ایسے باریک موزے جس کے اندر سے قدم کی چمڑی اور رنگ
دکھائی دے ان پرمسح کرنا جائز نہیں ہے ۔ایسی صورت میں وضو کرتے وقت موزہ
اتار کر قدم دھونا ضروری ہے ورنہ وضو نہیں ہوگا۔ شیخ ابن باز رحمہ اللہ
کہتے ہیں: من شرط المسح على الجوارب أن يكون صفيقا ساتراً ، فإن كان شفافاً
لم يجز المسح عليه ؛ لأن القدم والحال ما ذكر في حكم المكشوفة ۔(فتاوى
الشيخ ابن باز:10/110).
ترجمہ: جرابوں پر مسح کرنے کی شرط یہ ہے کہ جرابیں موٹی ہوں اور پورے قدم
کو ڈھانپتی ہوں،اگر جرابیں شفاف(باریک) ہوں تو اس پر مسح کرنا جائز نہیں
ہوگا کیونکہ اس صورت میں پاؤں ننگا ہونے کے حکم میں ہوگا۔
|