تبلیغی جماعت پاکستان میں بحیثیت نئے امیر مولانا نذر الرحمن صاحب کا تقرر

بسم اﷲ الرحمان الرحیم

قیام پاکستان 14 اگست1947ء کے بعد جب وطن عزیز ملک پاکستان میں1948ء میں دعوت و تبلیغ کے کام کا آغاز ہوا تواس وقت ضرورت تھی کہ جماعت کا کوئی امیر مقرر کیا جائے۔ چنانچہ شوریٰ کی طرف سے پاکستان میں اس جماعت کے سب سے پہلے امیر بھائی الحاج محمد شفیع قریشی صاحب رحمہ اﷲ مقرر ہوئے، جو 1948ء سے لے کر 1971ئء تک جماعت کے امیر رہے۔ان کے انتقال کے بعدجماعت کے دوسرے امیر بھائی الحاج محمد بشیر صاحب رحمہ اﷲ مقرر ہوئے جو 1971ء سے لے کر 1991ء تک جماعت کی سرپرستی فرماتے رہے ۔ ان کے انتقال کے بعد 1992ء میں جماعت کے تیسرے امیر بھائی الحاج محمد عبد الوہاب صاحب رحمہ اﷲ مقرر ہوئے جو 1992ء سے لے کر 2018ء تک جماعت کو چلاتے رہے اور اس کی محنت کو آگے بڑھاتے رہے۔ حاجی صاحب رحمہ اﷲ کے انتقال کے آپ کی وصیت کے مطابق اب جماعت کی باگ ڈور استاذِ محترم مولانا نذر الرحمن صاحب حفظہ اﷲ کو سونپ دی گئی ہے جو عصر حاضر میں داخلی و خارجی فتنوں کے سد باب اور جماعت کے کام کو انتہائی حکمت اور بصیرت کے ساتھ چلانے کے پیش نظر بجا طور پر اس عظیم مگر نازک ترین منصب کے اہل ہیں۔

مولانا نذر الرحمن صاحب کا آبائی تعلق تحصیل و ضلع راولپنڈی کے دو افتادہ گاؤں ’’بلاول‘‘ سے ہے ، جو چکری سے مغرب کی جانب 10 کلو میٹر، ضلع اٹک کی مشہور تحصیل اور ہمارے آبائی شہر فتح جنگ کے مضافاتی علاقے ڈھرنال سے مشرق کی جانب 28کلو میٹر دوردریائے سواں کے ایک طرف واقع ہے۔یہ گاؤں تقسیم ہند سے قبل تحصیل فتح جنگ ضلع کیمبل پور (اٹک)میں شامل تھا۔

مولانا نذر الرحمن 1929ء میں حافظ غلام محی الدین رحمہ اﷲ کے یہاں ایک دین دار گھرانے میں پیدا ہوئے، جو علم و عمل اور تصوف و طریقت سے وابستہ تھا۔آپ کے والد ماجد حافظ غلام محی الدین صاحب ورع و تقویٰ اور ایک خدا شناش بزرگ تھے اور حضرت پیر علی شاہ صاحب رحمہ اﷲ کے عقیدت مندوں میں سے تھے۔ تیس کی دھائی میں جب آمد و رفت کے ذرائع انتہائی کم یاب بلکہ تقریباً نہ ہونے کے برابر تھے آپؒ کم و بیش 60,70 میل کا پیدل سفر طے کرکے ’’بلاول‘‘ سے گولڑہ شریف حضرت پیر مہر علی شاہ صاحب رحمہ اﷲ کی خدمت میں جایا کرتے تھے۔

مولانا نذر الرحمن صاحب نے ابتدائی دینی تعلیم بچپن میں اپنے علاقے ہی میں حاصل کی اور پھر جب سن شعور کو پہنچے تو آپ کے والد ماجد نے آپ کو موضع ’’بھترال‘‘ ضلع راولپنڈی میں داخل کرایا، جہاں آپ نے ابتدائی کتب کی تعلیم حضرت مولانا عبد الخالق صاحب رحمہ اﷲ سے حاصل کی، اس کے بعد آپ جامعہ دار العلوم ربانیہ بھوئی گاڑ تشریف لے آئے اور یہاں آکر اعلیٰ درجہ کی کتابیں آپ نے مفتی عبد الحی قریشی اورحضرت مولانا فرید الدین قریشی رحمہما اﷲ سے حاصل کی۔ اس کے بعد منتہی کتب کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے آپ نے ضلع گجرات کی مشہور و معروف دینی درس گاہ موضع ’’اَنِّیْ‘‘کا رُخ کیا اور وہاں حضرت شیخ الہند رحمہ اﷲ کے ہونہار شاگرد فاضل دیوبند حضرت مولانا سلطان محمود رحمہ اﷲ سے 1949ء کے اوائل اور 1950ء کے اواخر میں دورۂ حدیث کرکے سند فراغت حاصل کی۔

’’اَنِّیْ‘‘ کا یہ مدرسہ عمدہ تعلیم و تربیت میں اپنی مثال آپ تھا۔ چنانچہ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اس زمانے میں یہ دستور تھا کہ مختلف دینی مدارس و مراکز سے جب طلباء علوم و فنون کی کی تکمیل کرلیتے تو بعد دورۂ حدیث کے لئے ازہر الہند دار العلوم دیوبند کا رُخ کرتے جہاں پہلے طلباء سے سخت اور کڑا امتحان لیا جاتا اور اس کے بعد انہیں ترجیحی بنیادوں پر ان کا داخلہ ہوتا، لیکن ’’اَنِّیْ‘‘ سے پڑھے ہوئے طلباء کے بارے میں یہ اُصول تھا کہ انہیں بغیر کسی امتحان اور سفارش کے داخلہ دیا جاتا۔

مدرسہ اَنِّیْ میں چوں کہ قیام و طعام کا کوئی انتظام نہیں تھا اس لئے مولانا نذر الرحمن صاحب نے اپنے قیام و طعام کا انتظام مدرسہ سے دُور ’’کٹھیالہ شیخاں‘‘ نامی بستی میں بنا رکھا تھا ،جہاں آپ رات گزارتے اور صبح ہوتے ہی بلا ناغہ پیادہ پا سبق پڑھنے کے لئے وقت سے پہلے مدرسہ پہنچ جاتے اور ایک مرتبہ سبق یاد کرتے سنادیتے۔ بلکہ آپ نے درسی کتب کی پڑھائی کے ساتھ ساتھ مکمل قرآنِ مجید بھی حفظ فرمالیا تھا۔

1950ء میں درسِ نظامی کی تکمیل کے بعد مولانا نذر الرحمن صاحب اپنے گاؤں میں واپس تشریف لائے ، وہاں ایک مسجد میں آپ کے بڑے بھائی حافظ فضل حسین صاحب رحمہ اﷲ امامت فرمایا کرتے تھے، آپ نے بھائی جان کے سامنے مسجد کی خدمت و امامت کی خواہش ظاہر کی تو انہوں نے بخوشی یہ ذمہ داری آپ کو سونپ دی اور خود مندرہ سے جاتے ہوئے چکوال روڈ پر تحصیل گوجر خان کے ایک گاؤں ’’جاتلی‘‘ کی ایک مسجد میں امامت و خطابت شروع کردی۔ 1953ء میں جب ختم نبوت کی تحریک چلی تو مولانا نذر الرحمن صاحب اپنے رفقاء سمیت اس میں شرکت کے لئے ’’بلاول‘‘ سے براستہ چکری راولپنڈی کی طرف روانہ ہوئے تو چکری پولیس چوکی کے انچارج نے آپ کے دیگر رفقاء کو واپس بھیج دیا اور آپ کو دو بزرگ ساتھیوں کے ہم راہ راولپنڈی جانے دیا، جہاں آپ نے تحریک ختم نبوت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اس کی خاطر جیل بھی کاٹی۔ آپ نے اپنے گاؤں ’’بلاول‘‘ میں1950ء سے لے کر 1955ء تک تقریباً 5 سال امامت و خطابت کے فرائض سر انجام دیئے۔

1955ء میں مولانا نذر الرحمن صاحب ’’بلاول‘‘ سے دارالعلوم ربانیہ بھوئی گاڑ نزد ٹیکسلا ضلع اٹک تحصیل حسن ابدال تشریف لائے جہاں آپ نے 1955ء سے لے کر 20 جنوری1960ء تک کم و بیش 5 سال تک درس و تدریس فرمائی۔علاوہ ازیں آپ کے دو صاحب زادگان استاذِ محترم مولانا عبد الرحمن صاحب حفظہ اﷲ اور حافظ عبد الحنان صاحب رحمہ اﷲ بھی بعد میں اس مدرسہ میں تدریسی خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ بہرحال بعد ازاں آپ حضرت مولانا قاضی شمس الدین ہزاروی صاحب رحمہ اﷲ (برادرِ نسبتی مفتی عبد الحق قریشی صاحب رحمہ اﷲ) کے ہم راہ خانقاہِ سراجیہ کندیاں شریف میں سلسلۂ نقش بندیہ کے شیخ کامل حضرت مولانا محمد احمد صاحب رحمہ اﷲ سے بیعت ہوئے اور پھر ان کے وصال کے بعد حضرت مولانا خواجہ خان محمد صاحب رحمہ اﷲ کی خدمت میں حاضر ہوکر پہلے آپ کے دست مبارک پر بیعت فرمائی، پھر اس کے بعد علوم و سلوک و معرفت کی تکمیل فرمائی اورآخر میں سلسلۂ نقش بندیہ، مجددیہ میں بیعت و خلافت کی اجازت حاصل کی۔

اس کے بعد مولانا نذر الرحمن صاحب ، مفتی عبد الحیٔ قریشی صاحب کی خواہش کے مطابق پہلے مرکزی جامع مسجد ٹیکسلا میں 3 سال اور اس کے بعد تبلیغی مرکز مسجد F-3 واہ کینٹ میں 4 سال تک امامت و خطابت کے فرائض، جب کہ اسی دوران مولانا حکیم محمد داؤد کے قائم کردہ مدرسہ تعلیم القرآن ٹیکسلا میں طلباء کو عربی زبان کی تعلیم و تعلم کے فرائض سر انجام دیتے رہے۔ بعدازاں آپ راولپنڈی تشریف لے گئے اور وہاں آپ نے D,M ٹیکسٹائل ملز نزد تبلیغی مرکز راولپنڈی کی ایک جامع مسجد میں آپ نے امامت و خطابت اور دعوت و ارشاد کا سلسلہ شروع فرمادیا۔ اس دوران مدرسہ عربیہ تبلیغی مرکز زکریا مسجد کے اس وقت کے روحِ رواں اور مہتمم استاذِ محترم حضرت مولانا خلیل الرحمن صاحب رحمہ اﷲ کا آپ سے تعلق قائم ہوگیا، مولانا خلیل الرحمن صاحب رحمہ اﷲ نے اس تعلق و علاقہ کی بناء پر آپ کو تبلیغ میں سال لگانے کے لئے تیار فرمایا آپ فوراً تیار ہوگئے اوراﷲ تعالیٰ کے راستہ میں سال لگانے کے لئے گھر سے روانہ ہوگئے۔

تبلیغ میں سال لگانے کے بعد 1971ء میں مولانا نذر الرحمن صاحب کا بطورِ مقیم و مدرس مدرسہ عربیہ رائے ونڈ مرکز میں تقرر ہوگیا۔آپ خود فرماتے ہیں کہ 1971ء میں جب رائے ونڈ میں میرا تقرر ہورہا تھا تو میں نے حاجی عبد الوہاب سے رحمہ اﷲ سے دو تین دن کی مہلت مانگی تاکہ یہاں کا نظم و نسق دیکھا جائے یہ جگہ مستقل قیام پذیر ہونے کے قابل ہے یا نہیں؟ چنانچہ جب یہاں کا میں نے نظم و نسق دیکھا تو بہت اعلیٰ پایا کہ یہاں ایک عمدہ درس گاہ کے ساتھ ساتھ ایک بہترین تربیت گاہ بھی ہے، اس لئے میں یہاں مستقل قیام کرنے کے لئے ہاں کردی۔ حاجی صاحب رحمہ اﷲ نے مجھے فرمایا کہ یہاں ہم تنخواہ وغیرہ کچھ بھی نہیں دیں گے! میں نے عرض کیا کہ دعائیں تو دیں گے ناں؟ حاجی صاحب رحمہ اﷲ نے فرمایا کہ ہاں! دعائیں بہت دیں گے۔اس کے بعد میں نے رائے ونڈ میں مستقل طور پر اقامت پذیر ہوگیا۔

مدرسہ عربیہ رائے ونڈ مرکز میں مولانانذر الرحمن صاحب نے شروع شروع میں کچھ عرصہ شعبۂ حفظ میں اپنی خدمات انجام دیں اور پھر اس کے بعد دیگر علوم و فنون کی مختلف کتابیں پڑھانی شروع کردیں۔ مدرسہ عربیہ رائے ونڈ مرکز میں دورۂ حدیث شروع ہونے سے پہلے ’’تفسیر جلالین‘‘ اور مشکوٰۃ المصابیح‘‘ آپ کے زیر تدریس تھیں۔ 1999ء میں رائے ونڈ میں باقاعدہ دورۂ حدیث شروع ہوا تو آپ کے حصہ میں ’’صحیح مسلم‘‘ ’’ جامع ترمذی‘‘ اور ’’شمائل ترمذی‘‘ آئیں۔ چنانچہ 2007ء میں ہم نے یہ تینوں کتابیں مکمل آپ ہی کے پاس پڑھی ہیں۔آپ ایک قابل استاذ، کہنہ مشق مدرس اور علم میں بلند مقام کی حامل شخصیت ہیں۔ تمام علوم و فنون کی کتابوں میں مشکل اور پیچیدہ مقامات کو حلوہ بناکر کھلانا آپ کے درس کا وطیرۂ خاص ہے۔2014ء میں استاذِ محترم مولانا جمشید علی صاحب رحمہ اﷲ کی وفات کے بعد آپ کے حصے میں ’’صحیح بخاری جلد اوّل‘‘ اور استاذِ محترم مولانا احسان الحق صاحب حفظہ اﷲ کے حصہ میں ’’صحیح بخاری جلد ثانی‘‘ آئی، جو آپ تاہنوز پڑھارہے ہیں اور اس طرح آپ شیخ الحدیث جیسے عظیم الشان بلند مقام پر فائز ہوگئے ہیں۔

مولانا نذر الرحمن صاحب رائے ونڈ مرکز کی گوناگوں مصروفیات، ذاتی اعذار اور پیرانہ سالی کے باوجود انتہائی اہتمام، جاں فشانی اور لگن سے درس دیتے ہیں اور اس دوران بیماری، مشقت اور تکلیف نام کی کسی چیز کو خاطر میں نہیں لاتے۔ خوب یاد ہے کہ 1999ء میں مدرسہ عربیہ رائے ونڈ میں باقاعدہ دورۂ حدیث کا آغاز ہوا تو آپ کے جسم پر ایک چنبل جیسا ناسور پھوٹ پڑا، جس سے چلنام پھرنا دشوار ہوگیا، لیکن اس دوران بھی آپ وہیل چیئر پر بیٹھ کر درس گاہ تشریف لاتے رہے اور درس کا ناغہ نہیں ہونے دیا۔ اسی طرح ہمارے دورۂ حدیث کے سال 2007ء میں آپ کا ہرنیوں کا آپریشن ہوا ، ڈاکٹروں نے ایک ماہ مسلسل چلنے پھرنے، بولنے چالنے اور اسباق پڑھانے سے منع کردیا تھا، لیکن اس کے باوجود آپ وہیل چیئر پر بیٹھ کر درس گاہ تشریف لاتے اور سبق پڑھاتے۔

مولانا نذر الرحمن صاحب کو اﷲ تعالیٰ نے علم و فضل ، تقویٰ و طہارت اور خشیت و ﷲیت میں سے وافر حصہ عطا فرما رکھا ہے۔ استاذِ محترم مولانا عبد الرحمن خان صاحب حفظہ اﷲ فرماتے ہیں کہ جب بھی کوئی علمی بات سمجھ میں نہیں آتی تو مولانا نذر الرحمن صاحب کی خدمت میں حاضر ہوجاتے ہی سمجھ میں آجاتی ہے۔ اگر ایسے سمجھ نہ آئے تو آپ کے سامنے عبارت پڑھنے سے سمجھ آجاتی ہے۔ ااور اگر اس طرح بھی سمجھ نہ آئے تو پھر آپ سے دریافت کرنا پڑتا ہے، لیکن ایسا بہت کم ہوتا ہے۔دورانِ درس یا انفرادی ملاقات میں آپ’’ ترکِ مالا یعنی‘‘( لایعنی باتوں ) سے بچنے کی خوب ترغیب دیتے ہیں۔ آپ کی طبیعت اسراف اور فضول خرچی سے اس قدر مکدر ہوتی ہے کہ اسراف فی المال تو درکنار اسراف فی الکلام بھی آپ کے لئے سخت ناگوار بلکہ اذیت ناک ہوتا ہے۔

مولانا نذر الرحمن صاحب کی انہیں خصائل حمیدہ و شمائل جمیلہ کے پیش نظر حاجی عبد الوہاب صاحب رحمہ اﷲ نے اپنے بعد پاکستان میں دعوت و تبلیغ کے نازک ترین مگر عظیم الشان کام کی امارت کے لئے اپنی حیات مبارکہ ہی میں آپ کے نام کا انتخاب فرمادیا تھا اور اپنی وفات سے کچھ ہی عرصہ قبل یہ وصیت فرمادی تھی کہ میرے بعد تبلیغی جماعت پاکستان کے امیر حضرت مولانا نذر الرحمن صاحب ہوں گے۔ اﷲ تعالیٰ سے دُعاء ہے کہ وہ مولانا نذر الرحمن صاحب کو صحت و تندرستی عطاء فرمائے، ان کی زندگی میں برکت عطاء فرمائے، ان کا سایہ تادیر ہمارے سروں پر قائم رکھے اور ان سے پوری دُنیا میں دین کی محنت کا خوب کام لے۔ آمین بجاہ النبی الکریم۔
 

Mufti Muhammad Waqas Rafi
About the Author: Mufti Muhammad Waqas Rafi Read More Articles by Mufti Muhammad Waqas Rafi: 188 Articles with 278812 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.