ہندوستانی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں تمام سرکاری دفاتر
میں کشمیر کا روائتی لباس پھیرن(فیرن) پہن کر آنے پر پابندی عائید کی
ہے۔مقبوضہ کشمیر میں متعین ہندوستانی گورنر انتظامیہ کی طرف سے جاری
حکمنامے میں محکمہ تعلیم کے انتظامی دفاتر اور سول سیکریٹیریٹ میں افسروں،
ملازمین اور سائلین کے پھیرن پہننے کو ممنوع قرار دیا گیا ہے۔اس حکم نامے
کا جواز یہ بتایاگیا ہے کہ دفاتر میں غیر رسمی لباس سے بے ضابطگی کا ماحول
پیدا ہوتا ہے۔''بی بی سی ' کے مطابق ''کشمیر میں پہلے تو اسے سیکورٹی رسک
قرار دیا گیا جسکے بعد فوجی اداروں اور پولیس کیمپوں میں عام لوگوں اور
صحافیوں کے پھیرن پہن کر داخل ہونے پر پابندی عائد کردی گئی''۔مقبوضہ کشمیر
میں 1988ء میں بھارت سے آزادی کی مسلح اورسیاسی تحریک کے شروع ہونے کے بعد
بھی ہندوستانی حکام نے اس خوف سے کئی بار پھیرن پہننے پر پابندی عائید کی
کہ کشمیری پھیرن کے نیچے بندوق چھپا سکتے ہیں۔مقبوضہ کشمیر میں بھارتی
فوجیوں کا یہ خوف نمایاں ہے کہ انہیں پھیرن پہننے والا ہر کشمیری پھیرن کے
نیچے بندوق یا پتھر تھامے محسوس ہوتا ہے۔کشمیری کے ہاتھ میں بندوق ہو یا
پتھر، بھارتی فوجی ایک ہی طرح کا خوف محسوس کرتے ہیں۔یوں یہ کہنا بے جا
نہیں کہ نہتے کشمیریوں نے ہر طرح کے جنگی ہتھیاروں سے لیس بھارتی فوج کو
خوفزدہ کر دیا ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں پھیرن تمام سال استعمال کیا جاتا ہے۔ مرد وزن ،بچے بھی
پھیرن استعمال کرتے ہیں۔سردیوں میں گرم کپڑے اور گرمیوں میں دوسرے کپڑے سے
بنے ۔مقبوضہ کشمیر میں پھیرن دو طرح کے بنائے جاتے ہیں،گھر میں پہننے والے
اور دفاتر ،سکولوں وغیرہ میں پہننے والے۔دونوں میں فرق یہ ہوتا ہے کہ گھر
میں استعمال والے پھیرن نچلے حصے سے زیادہ کھلے ہوتے ہیں تا کہ بیٹھتے وقت
ٹانگوں کو بھی اچھی طرح ڈھانپے رہے ،جبکہ دفاتر وغیرہ میں پہن کر جانے والے
پھیرن نسبتا کم کھلے ہوتے ہیں۔خواتین کے پھیرن پہ خوبصورت کڑھائی کی جاتی
ہے۔سردیوں میں کشمیری پھیرن کے اندر ہاتھ میں کوئلے سے گرم کانگڑی تھامے
رہتے ہیں جس سے برف کے سرد موسم میں بھی وہ گھروں سے باہر بھی نگڑی سے خود
کو گرم رکھتے ہیں۔گھر کے اندر بھی ہر فرد کے پاس اپنی کانگڑی ہوتی ہے جسے
وہ پھیرن کے نیچے جسم کے قریب رکھتے ہوئے گرمائش حاصل کرتے ہیں۔بلاشبہ
پھیرن کشمیریوں کے کلچر کا ایک اہم حصہ ہے اور کشمیر میں مذہب کی تخصیص کے
بغیر سب ہی اسے استعمال کرتے ہیں۔تاہم کشمیری ہندوئوں (پنڈتوں) کے پھیرن
میں بناوٹ کے لحاظ سے ایک فرق رکھا جاتا ہے۔
مقبوضہ کشمیر کے تمام حلقوں نے بھارتی حکومت کے اس فیصلے کی سختی سے مذمت
کرتے ہوئے اس حکم نا مے کو کشمیریوں کی ثقافت اور تمدن پر حملہ قرار دیا
ہے۔کشمیری ہندوئوں(پنڈتوں) کی طرف سے بھی پھیرن پر پابندی کے فیصلے کی
مخالفت کی جا رہی ہے۔پھیرن پر پابندی کے اس حکم کے بعد سوشل میڈیا پر
کشمیریوں کی طرف سے سخت ردعمل کا اظہار کیا جا رہا ہے اور بھارتی حکومت کے
اس اقدام کی مذمت میں سوشل میڈیا پہ خصوصی مہم بھی شروع کی گئی ہے جس میں
لوگ پھیرن پہننے اپنی تصاویر شیئر کر رہے ہیں۔سوشل میڈیا پہ پھیرن کی حمایت
میں انسٹاگرام پہ #PheranLove کے نام سے پھیرن پہنے تصاویر شیئر کرنے کی
مہم شروع کرنے والی روحی ناز نے '' بی بی سی'' سے گفتگو میں کہا ہے کہ
پھیرن کشمیریوں کی شناخت کا مرکزی حصہ ہے، اس مقابلے کو شروع کرنے کے پیچھے
یہ سوچ تھی کہ ہم پھیرن کے لیے اپنی محبت اور فخر کا اظہار کریں،پھیرن
ہماری تاریخ اور ثقافت کا حصہ ہے۔آزاد کشمیر ،پاکستان اور دنیا بھر میں
متعدد کشمیری،کشمیر کی یاد میں،سردیوں میں اپنے گھروں میں پھیرن استعمال
کرتے ہیں۔
کشمیریوں کلچر کے ایک ا ہم حصے ،پھیرن پر پابندی کا یہ فیصلہ واضح طور پر
بھارتی حکومت کی بوکھلاہٹ کا اظہار ہے۔انہی دنوں بھارتی فوج کی طرف سے
بھارتی فورسز ہر پتھرائو کرنے والے کشمیری مظاہرین کو بھی فائرنگ کرتے ہوئے
ہلاک کرنے کا اعلان کیا گیا لیکن اس کے باوجود کشمیریوں کی پرجوش مزاحمتی
تحریک شدت سے جاری ہے۔کشمیری جس بہادری کے ساتھ اپنی آزادی کے حق میں بھارت
کے خلاف شدید مزاحمت جاری رکھے ہوئے ہیں،اس صورتحال میں پھیرن پر پابندی کا
فیصلہ مقبوضہ کشمیر میں مسلسل فوج کشی کے فیصلے کی طرح کا احمقانہ اقدام
ہے۔کچھ بعید نہیں کہ کل بھارت کہے کہ کشمیریوں کی آنکھیں انہیں گھورتی
ہیں،کشمیریوں کی زبانیں بے خوف ہیں،کشمیریوں کے جسم بھارت کے قابو میں نہیں
ہیں! کشمیریوں نے بھارت کی کونسی پابندی کو تسلیم کیا ہے جو بھارت کو فوج
کشی کی ہٹ دھرمی یا ظالمانہ ،انسانیت سوز مظالماور پابندیوں کو تسلیم کریں
گے؟مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے تمام تر مظالم اور جبر کے باوجود بھارت کی
ناکامی کے عنوانات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ |