تحریر: *محمد طلحہٰ سعید*
میری آنکھیں اکثر ان عجیب لوگوں کو دیکھتی ہیں جو سرد شاموں میں، تیز ہواؤں
کا سینہ چاک کر کے، برفوں پر اپنی نشانیاں چھوڑتے ہوئے، وطن کے دفاع کیلیے،
ملک عزیز کے تحفظ کیلیے دشمن کو نیچا دکھانے کیلیے وہ آگے بڑھتے جاتے ہیں۔
میری آنکھیں اکثر ان عجیب لوگوں کو دیکھتی ہیں جو سخت ترین گرمی میں کہ جس
میں ٹھنڈا "سانس" بھی نہیں آتا،،،کہیں سے کوئی پانی کا چشمہ نہیں ملتا،
میری حفاظت کی خاطر گھروں سے نکلے ہوتے ہیں۔ آپ لوگوں نے اکثر غور کیا ہوگا
کہ جن حشرات کو گرمی بہت لگ رہی ہو تو وہ ایک ٹھنڈی جگہ ڈھونڈتے ہیں مگر
میری آنکھیں ان لوگوں کو بھی دیکھتی ہیں جو جلا دینے والی گرمی میں اور اس
گرمی میں چلنے والی لو میں کھلے میدانوں میں چٹیل صحراؤں میں جنت کے متلاشی
ہوتے ہیں اور انہیں گرمی و سردی سے کوئی سروکار نہیں ان کے لیے یہ امتحان
ہوتا ہے اور وہ اپنے مقصد سے بھی گھبراتے نہیں، پیچھے ہٹتے نہیں، یہ لوگ
میری حفاظت کی خاطر مصائب کے مقابل صبر و استقامت کی آہنی چٹان بن جاتے ہیں،
میری آنکھیں ان استقامت کی چٹانوں کے دشمن کیلیے سخت اور اپنوں کیلیے نرم
ہاتھوں کو بھی دیکھتی ہیں۔ جو باطل کی صفوں میں ان پر رب کا عذاب ہوتے ہیں۔
جو ایمان والوں کے لیے خوشبوئے گلاب ہوتے ہیں۔ ہر معرکہ میں جو کامیاب ہوتے
ہیں اور ہاں اس دنیا میں حق پرستوں کیلیے جو عزت مآب ہوتے ہیں۔
میری آنکھیں ان عجیب لوگوں کو دیکھتی ہیں جو ثابت قدمی کی اعلیٰ مثال ہوتے
ہیں۔ ان کے قدموں کو دیکھیے کہ پانیوں ہر چلنے لگ جاتے ہیں۔ ان کے قدموں کی
تھرتھراہٹ سے دشمن کے سینے دہل جاتے ہیں۔
میری آنکھیں ان عجیب لوگوں کو دیکھتی ہیں جو وطن کے دفاع کیلئے سمندر کے "اندر"
جی ہاں سمندر کے "اندر" جاکر بستے ہیں۔ میری آنکھیں مجھ سے پوچھتی ہیں کہ
یہ کیسے لوگ ہیں جو اغیار کی سازشوں سے چمن کو بچانے کیلئے گلشن کو مہکانے
کیلیے یقیں محکم کی شمشیر کو تھامے باطل کو نیچا دکھانے کیلئے جگر کے ہنر
آزمانے کے لیے اپنے گھر بار چھوڑ نکلتے ہیں؟ پھر میری آنکھیں خود ہی جواب
دیتی ہیں کہ یہ شہادت کے متلاشی دنیا کی رنگینیوں میں گم نہیں ہوتے ہاں اسی
لیے یہ فردوس کی راہوں پر چل نکلتے ہیں۔
پھر میری آنکھیں ان عجیب لوگوں کو دیکھتی ہیں جو اپنی ماں سے پیشانی پہ
بوسہ لیتے ہیں اور شمشیر تھامے وردی کو درست کیے محاذ کی جانب چل دوڑتے ہیں
تاکہ دوسری ماؤں کے لال کو بچا سکیں۔ پھر میری آنکھیں کسی ایسے شخص کو بھی
دیکھتی ہیں جو اپنی معصوم سی پھول جیسی بیٹی کو یہ سوچ کر بوسہ دے رہا ہوتا
ہے کہ یہ اسکا آخری بوسہ ہے۔ مگر دیکھیں وہ یہ بھی عزم مصمم لے کر چل دیا
کہ وہ دوسرے باپوں سے ان کی بیٹیاں اور دوسری بیٹیوں سے ان کی عصمتیں چھننے
سے بچائے گا۔
پھر میری آنکھیں ان عجیب لوگوں کو دیکھتی ہیں جو تیز ہوا میں مثل شاہین
اپنے جوہر دکھاتے ہیں۔ جو باطل کی صفوں میں، ہواؤں کے زور پر استقامت کی
چٹانیں تیز ہوا میں اڑ جاتے ہیں اور ظلمت کے بادل ان استقامت کی چٹانوں کو
دیکھ کر خالی واپس مڑ جاتے ہیں۔
میری آنکھیں ان عجیب لوگوں کو دیکھتی ہیں جو گولیاں سینے پر کھا کر بھی
اپنے سبز ہلالی نشان کو گرنے نہیں دیتے۔اور جب یہ فردوس کے راہی فردوس کی
جانب روانہ ہوتے ہیں تو یہ جھنڈا تھام لیتے ہیں اور جب فردوس کو پا لیتے
ہیں تو اسی سبز ہلالی نشان سے اپنے جسم کو ڈھانپ لیتے ہیں۔
میری آنکھیں ان عجیب لوگوں کو دیکھتی ہیں جو بدر سے سبق نشیں ہوتے ہیں کہ
جیتا ایمان کی قوت سے جاتا ہے۔ یہ استقامت کی چٹانیں طائف سے ہی تو سیکھے
گئے سبق سے بنتی ہیں۔ میری آنکھیں ان عجیب لوگوں کو دیکھتی ہیں کہ جنہیں
دنیا ماسٹر مائینڈ کے نام سے اور پتا نہیں کن کن القابات سے پکارتی ہیں یہ
غزوہ خندق سے ہی تو حکمت عملی بنانا سیکھتے ہیں۔ جو احد کی ہر مشکل کو
پرکھتے ہیں اور پھر اسی طرح یہ لوگ استقامت کی چٹان بنتے ہیں۔
میری آنکھیں ان عجیب لوگوں کو دیکھتی ہیں جو ہر قسم کی باتوں کو سہہ جاتے
ہیں۔ میں دیکھتا ہوں کہ کچھ لوگ یہ جان کر بھی کہ یہ عجیب لوگ ان کی حفاظت
کیلیے سرحدوں ہر گھر بار سے دور مستعد ہیں، ان کو گالیاں دیتے ہیں، ان کو
طعنے دیتے ہیں اور ستم در ستم کے انہیں سے محبت رکھنے والوں کو ان کے خلاف
بہکاتے ہیں۔ ان کے خلاف پروپیگنڈہ کرتے ہیں، چالیں چلتے ہیں، مگر میں
دیکھتا ہوں کہ وہ عجیب لوگ انہیں اپنا بھائی کہتے ہیں۔ انہیں گلے سے لگاتے
ہیں۔ ان کی بھلائی چاہتے ہیں اور ہاں پھر بھی ان کی حفاظت کرتے ہیں۔
میری آنکھیں ان عجیب لوگوں کو دیکھتی ہیں جن کا جوش مسلسل ایک تیغ رواں کی
صورت ہے۔ جن کے سینے قرآن کے نور سے ضوفشاں ہیں۔ جن کے چہرے ایمان کی رونق
سے فروزاں ہیں۔ جن کی ہمت قوی اور قوت جوان ہے۔ جن کی ہیبت سے صحرا گھبرا
جاتے ہیں۔ کوہ و دمن لرزا جاتے ہیں۔ دشت تھرا جاتے ہیں۔ زمین کانپ اٹھتی ہے
اور آسمان جھوم اٹھتا ہے۔ جن کے لیے کوئی چٹان کوئی بلند قامت کچھ رکاوٹ
نہیں بنتی۔جو آسمان تک پرواز کرتے ہیں مگر ان کے پروں میں تھکاوٹ نہیں
ہوتی۔ وہ جن کی تاریخ کو پڑھ کر، حال کو جان کر باطل کے تخت کانپ اٹھتے
ہیں۔ جن کے دشمن بھی یہ امر بخوبی جانتے ہیں کہ ان کےمقابل ٹھہرنا ناممکن
ہے۔ جو چپ رہ کر بھی دنیا کی سپر پاور کو پیغام دے جاتے ہیں کہ ان کی اہمیت
کیا ہے۔
میری آنکھیں ان عجیب لوگوں کو دیکھتی ہیں۔ میری آنکھیں ان عجیب لوگوں کو
دیکھتی رہتی ہیں اور کب نجانے یہ پانی بہانے لگتی ہیں اور ان عجیب لوگوں کو
یہ پیغام دے جاتی ہیں:
میرے مجاہد قدم بڑھاؤ کہ زندگی یہ گزر نہ جائے
حسین موسم شہادتوں کا ہے اب کہیں یہ گزر نہ جائے
کہ جب تلک دشمنوں کے سینے میں تیر تیرا اتر نہ جائے
بڑے چلو تم کہ جب تلک وہ نشان منزل نظر نہ آئے
حسین موسم شہادتوں کا ہے اب کہیں یہ گزر نہ جائے |