خاتم المرسلین محمد عربی صلی اﷲ علیہ وسلم اور مسلمان مکہ
مکرمہ سے ہجرت کرکے622 ء میں مدینہ منورہ آئے ،اس کے ساتھ ہی ریاست مدینہ
کی بنیاد رکھی گئی۔ دس برس تک اس کی سربراہی جناب رسالت ماب صلی اﷲ علیہ
وسلم نے خود فرمائی۔خلفائے راشدینؓ،بشمول حضرت معاویہ رضی اﷲ عنہ کا دور
بھی اسی کا تسلسل تھا،اگرچہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے دور میں دارالخلافہ
مدینہ منورہ سے کوفہ منتقل ہوچکاتھا۔ریاست مدینہ کی سیاست کے دو بنیادی
نکتے تھے:ایک یہ کہ مقتدر اعلی اورحاکمیت اعلی اﷲ تعالی کی ذات بابرکات ہے۔
دوسرا یہ کہ دعوت حق کا فروغ کیا جانا چاہیے۔ چناں چہ ریاست مدینہ کی ساری
سیاست اسی نکتے کے گرد گھومتی تھی۔ کوئی لشکر روانہ کرنا ہو یا مذاکرات،
خارجہ پالیسی ہو یا عسکری پالیسی، ان ہی دو نکتوں کو مدنظر رکھ کر بنائی
جاتی تھی۔ اس کے علاوہ کسی اندرونی ،بیرونی دباؤ،ترغیب وتحریص اور دھونس
دھمکی کو خاطر میں نہیں لایا جاتا تھا۔ریاست مدینہ میں صرف عقائداور عبادات
پر زور نہیں دیا گیا،بلکہ اس ریاست میں وہ تمام اقدامات بروئے کار لائے
گئے،جن کی کسی بھی کام یاب معاشرے اور سوسائٹی کے لیے ضرورت ہے،ذیل میں اس
کے اہم گوشوں کوپیش کیا جاتا ہے،تاکہ معلوم ہوکہ ریاست مدینہ کیسی ریاسست
تھی ؟اور اس جیسی ریاست کے قیام کے لیے کیا کیا اقدامات کیے جانے چاہییں؟
میثاق مدینہ:
نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم ابھی ہجرت کے بعد حضرت ابوایوب انصاری رضی اﷲ
عنہ کے مکان میں ہی قیام فرماتھے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے میثاق ِمدینہ
کااہتمام کیا ، اس مقصد کے لیے آپ صل اﷲ علیہ وسلم نے مہاجرین ، انصار ،
یہود ، عیسائی اور دیگر قبائل کوجمع کیا ، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے کچھ
گفتگو فرمائی، اس کے بعد آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس موقع پر ایک تحریر
لکھوائی ، یہ حکمرانِ وقت کا ایک فرمان تھا ، ساتھ ہی تمام لوگوں کااقرار
نامہ بھی تھا ،جس پران لوگوں کے دستخط تھے ، اس میں مسلمان اور مشرکین
دونوں شریک تھے ، اس میثاق کے بنیادی نکات یہ تھے :
(۱)آبادیوں میں امن و امامن قائم رہے گا ؛تاکہ سکون سے نئی نسل کی تربیت کی
جاسکے۔(۲)مذہب اور معاش کی آزادی ہوگی ۔(۳)فتنہ وفساد کوقوت سے ختم کیاجائے
گا ۔(۴)بیرو نی حملوں کا مل کر مقابلہ کیاجائے گا ۔(۵)حضورِ اکرم صلی اﷲ
علیہ وسلم کی اجازت کے بغیر کوئی جنگ کے لیے نہیں نکلے گا ۔(۶)میثاق کے
احکام کے بارے میں اختلاف پیدا ہو تو اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم سے رجوع
کیاجائے گا۔
یہ رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کاسیاسی معجزہ ہے کہ آپ صل اﷲ علیہ وسلم نے
میثاق مدینہ کے ذریعے دشمن قبائل عرب کو ایک سیسہ پلائی ہوئی قوم میں تبدیل
کردیا اور ان کی ان گنت سیاسی اکائیوں کی جگہ ایک مرکزی حکومت قائم فرمادی،
جس کی اطاعت بدوی اورشہری تمام عرب باشندے کرتے تھے ، اس کا سب سے بڑا؛
بلکہ واحد سبب یہ تھا کہ اب قبیلہ یاخون کے بجائے اسلام یادین ہی معاشرہ
وحکومت کی اساس تھا، اسلامی حکومت کی سیاسی آئیڈیالوجی اب اسلام اور صرف
اسلام تھا ۔اس معاہدے سے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ کی شہری
ریاست کو ایک مستحکم نظام عطا کیا اور خارجی خطرات سے نمٹنے کی بنیاد قائم
کی۔ اس اقدام سے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی بطور منتظم صلاحیتیں
بھی عوام کے سامنے آئیں اور یہ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی زبردست کام
یابی تھی۔بقول محمد حسین ہیکل: اس تحریری معاہدہ کی رو سے حضرت محمد مصطفی
صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے آج سے چودہ سو سال قبل ایک ایسا معاشرتی ضابطہ
قائم کیا جس سے شرکائے معاہدہ میں سے ہر گروہ اور ہر فرد کو اپنے اپنے
عقیدے کی آزادی کا حق حاصل ہوا۔ اس سے انسانی زندگی کی حرمت قائم ہوئی اور
اموال کے تحفظ کی ضمانت مل گئی۔ ارتکاب جرم پر گرفت اور مواخذے نے دبا ڈالا
اور معاہدین کی یہ بستی اپنے رہنے والوں کے لیے امن کا گہوارابن گئی۔
مہاجرین کی آباد کاری:
ہجرت کے بعد مدینہ میں مہاجرین کاسیلاب امڈ پڑاتھا اور آخرکار مدینہ میں
مقامی باشندوں کے مقابلے میں مہاجرین کی تعداد کئی گنابڑھ گئی ۔ ( بخاری)
ان نوواردوں کی آباد کاری کے متعلق حضور پاک صل اﷲ علیہ وسلم نے شروع دن ہی
سے ایک جامع منصوبہ تیار کرلیاتھا ، اس منصوبہ کی جزئیات کا گہرائی سے
مطالعہ کرنے کے بعد اندازہ ہوتاہے کہ آج سے چودہ سو سال پہلے رسول اﷲ صلی
اﷲ علیہ وسلم نے نوآبادی اور شہری منصوبہ بندی میں عظیم انقلاب برپا
کردیاتھا ، دنیا کو سب سے پہلے رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس راز سے
آگاہ کیاکہ ہم آہنگ اورصحت مند تمدنی ماحول امن وامان اور خوش حالی کے لیے
لازمی ہے۔اسی لیے مہاجرین اور انصار کے درمیان بھائی چارے کا معاہدہ کریا
گیا،جسے ’’مؤاخات‘‘کہتے ہیں۔۔ مہاجرین کی آمد کے ساتھ ہی ریاست مدینہ میں
ایک طرح کی ہنگامی حالت کا نفاذ تھا۔ انصار مدینہ کی معاشی حالت ایک جیسی
نہ تھی بلکہ ان میں سے کچھ متوسط تھے اور کچھ مالدار تھے۔ اس صورت حال میں
محسن انسانیت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے یہ طریقہ اختیار فرمایا کہ مہاجرین
اور انصار مسلمانوں کو بھائی بھائی بنا دیا۔ انصار صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم
نے اسلامی فلاحی نظام پر پختہ یقین رکھنے کے سبب مہاجرین کے لیے قربانیاں
دیں جس کے دو طرفہ فوائد حاصل ہوئے۔ ایک طرف مہاجرین کو ضروریات زندگی کا
سامان میسر آگیا اور دوسری طرف انصار کے دو طبقوں میں جو معاشی فرق تھا، وہ
ختم ہو گیا۔مواخات کے طرز عمل نے مسلم معاشرے کو استحکام بخشا اور اسے ہر
جارحیت کے خلاف مجتمع ہو کر لڑنے میں مدد دی۔ جن لوگوں میں مواخات قائم کی
گئی تھی ان کے متعلق دل چسپ اور حیرت انگیز تفصیلات کتب سیرت میں موجود ہیں
کہ کس طرح انصار نے اپنے مال و دولت میں مہاجرین کو شریک ٹھہرایا۔ منافقین
نے مہاجرین و انصار کے درمیان منافرت پھیلانے کی ہر ممکن کوشش کی مگر
مواخات نے ان کی تمام چالیں ناکام بنادیں۔
مساوات و اخوت: مدینہ منورہ کی ریاست میں کسی سیاسی اور سماجی حیثیت کی وجہ
سے اس کو دوسرے انسانوں پر فوقیت نہ دی جاتی تھی اور تمام انسانوں کو برابر
سمجھا جاتا تھا۔ نبی کریم ﷺ نے اپنے خطبہ حج الوداع میں بھی اس امر کا
اعلان فرما دیا کہ کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر
اور کسی گورے کو کالے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ۔ ہاں فضیلت کی اگر کوئی وجہ
ہو سکتی ہے تو وہ تقوی ٰہے جس کی وجہ سے ایک انسان دوسر ے انسان سے اﷲ کی
نظروں میں افضل ہو سکتا ہے۔
مسجد کی تعمیر ومرکزیت:
ریاست مدینہ کی پہلی ترجیح مساجد کی تعمیر تھی۔حضور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ
وآلہ وسلم کی مدینہ منورہ میں تشریف آوری کے فوری بعد مسجد نبوی کی بنیاد
رکھی گئی تھی۔ امور مملکت کے اہم فیصلے مسجد میں ہوا کرتے تھے، ریاست مدینہ
کی مقننہ مسجد میں ہی تھی۔ ریاست مدینہ کا جی ایچ کیو بھی مسجد تھا، ریاست
مدینہ کی سپریم کورٹ بھی مسجد میں ہی تھی۔ریہ مسجد جہاں ایک طرف مسلمانوں
کے لئے جائے عبادت ٹھہری وہاں ریاست کے سیکرٹریٹ کے طور پر بھی اقدامات کا
مرکز قرار پائی۔ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم تمام وفود اور سفیروں سے یہیں
ملاقات کیا کرتے تھے۔ گورنروں اور عمائدین حکومت کو ہدایات مسجد نبوی صلی
اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے دی جاتیں۔ سیاسی و دیگر معاملات میں صحابہ کرام رضی
اﷲ عنہم سے یہیں مشورہ کرتے۔ ہر قسم کی سیاسی اور مذہبی تقاریب کا انعقاد
مسجد نبوی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم میں ہوتا۔ اس وقت مسجد مسلمانوں کا
معاشرتی مرکز تھی، مال غنیمت مسجد نبوی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم میں آتا تھا
اور یہیں پر نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اسے مستحقین میں تقسیم کیا
کرتے تھے۔ الغرض ریاست مدینہ کے تمام امور مسجد میں طے ہوتے تھے۔ریاست
مدینہ نے اپنی نیشنل یونیورسٹی کا درجہ بھی مسجد کو ہی دیا ہوا تھا۔
دارالخلافہ اورمہاجرین کی رہائش گاہوں کی تعمیر:
اسلامی ریاست کے قیام کے بعد دار الخلافہ کی تعمیر کے لیے موزوں جگہ کا
انتخاب اور اس غرض کے لیے وسیع قطعہ اراضی پہلے ہی حاصل کرلیا گیاتھا ،
مسجد اور ازواجِ مطہراتؓ کے لیے مکانات بن جانے کے ساتھ دار الخلافہ کی
تعمیر کاپہلا مرحلہ تکمیل کوپہنچا ، دوسرے مرحلہ کا آغاز نووارد مہاجرین کی
اقامت اور سکونت کے کوارٹرزکی تعمیر سے کیاگیا۔مہاجرین کی عارضی رہائش
کاانتظام مسجد کے اندر کیمپ لگاکریا صفہ میں کیاجاتا، اگر مہاجرین کی تعداد
زیادہ ہوتی یا قافلہ پورے قبیلہ پرمشتمل ہوتا تو انھیں عموما شہر کے باہر
خیموں میں ٹھہرایاجاتا؛ تاآں کہ مستقل رہائش کا معقول انتظام نہ ہوجاتا۔
داخلہ پالیسی:
معاشی انصاف قائم کرنے کے بعد حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اسلامی
مملکت کی داخلی سیاسی پالیسی کا اعلان فرمایا۔ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے
مدینہ اور اس کے نواحی علاقوں پر مشتمل خطے کو ایک وحدت قرار دیا۔ اس وحدت
میں بسنے والے غیر مسلموں کے ساتھ معاہدہ فرمایا اور ان کو مکمل شہری حیثیت
دی گئی۔ شہری ریاست کو اندرونی خلفشار سے بچانے، استحکام بخشنے، امن کو
فروغ دینے اور اخلاقی اقدار کو پیدا کرنے کے لیے آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم
نے مسلسل تدابیر اختیار کیں۔مواخات اور میثاق مدینہ کے علاوہ بھی قریبی
قبائل سے معاہدے کیے۔ اس طرح مدینے کے گرد و نواح میں دوستوں کا اضافہ ہوا
اور مخالفتوں میں مسلسل کمی ہوتی چلی گئی۔ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ایک
یہ تدبیر بھی اختیار فرمائی کہ عرب میں جو شخص، خاندان یا قبیلہ مسلمان ہو
تو وہ ہجرت کر کے مدینہ یا مضافات میں آبسے تاکہ آبادی بڑھنے سے فوجی و
سیاسی پوزیشن مضبوط ہو۔ اس طرز عمل کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ مسلمان فوج کے
لیے محفوظ رضا کاروں میں روز افزوں اضافہ ہوا اور دوسری طرف مدینہ کے قریب
ہونے کی وجہ سے نو مسلموں کے لیے تعلیم و تربیت کا انتظام بھی ہوتا گیا۔
مدینہ منورہ کے لوگ اسلامی ریاست کے دفاع کے لیے ہمہ وقت سرگرم رہا کرتے
تھے اور خود نبی مہرباںﷺ مدینہ طیبہ کے خلاف ہونے والی ہر جارحیت کی روک
تھام کے لیے قائدانہ کردار ادا کیا کرتے تھے۔
خارجہ پالیسی:
خارجہ پالیسی کے لیے حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے امن عامہ اور بین
الاقوامی اتحاد کو بنیاد بنایا۔ اسلامی ریاست کی خارجہ پالیسی جغرافیائی
حدود میں وسعت اور جنگ و جدل پر مبنی نہیں ہوتی۔ اگر ایسا ہوتا تو حدیبیہ
کے مقام پر صلح کا معاہدہ طے نہ پاتا۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس وقت
مسلمان کم زور تھے اور غیر مسلموں کی قوت سے خوف زدہ تھے۔ اس لئے کہ صحابہ
کرام نے تو جانیں قربان کر دینے کی قسمیں کھائی تھیں مگر ہادی کونین صلی اﷲ
علیہ وآلہ وسلم نے غیر مسلموں کی تمام شرائط مان کر صلح کر لینا ہی بہتر
سمجھا۔اسلام کی خارجہ پالیسی کا اصول یہ ہے کہ باوقار زندگی کے لیے پر امن
جدو جہد جاری رکھی جائے۔ اگر کوئی شرپسند اس راہ میں حائل ہو تو اس حد تک
اس کے خلاف کارروائی کی جائے جس حد تک اس کی ضرورت ہو۔ یہی وجہ ہے کہ آپ
صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے مختلف اقوام کے ساتھ دوستی کے معاہدے کیے۔ جو
قومیں غیر جانبدار رہنا پسند کرتی تھیں ان کی غیر جانبداری کا احترام کیا۔
احتساب :
اگرچہ رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے عہد میں احتساب کا کوئی مستقل
محکمہ قائم نہیں تھا مگر حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم یہ فرض خود انجام
دیا کرتے تھے۔ تجارتی معاملات کی بھی نگرانی فرماتے۔ عرب میں تجارتی
معاملات کی حالت نہایت قابل اصلاح تھی۔ مدینہ منورہ آنے کے بعد آپ صلی اﷲ
علیہ وآلہ وسلم نے اصلاحات جاری کیں۔ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم تمام لوگوں
سے اصلاحات پر عمل کراتے، جو باز نہ آتے انہیں سزائیں دیتے۔ آپ صلی اﷲ علیہ
وآلہ وسلم کے عہد میں کوئی باقاعدہ جیل خانہ نہیں تھا اس لیے صرف اتنا خیال
کیا جاتا تھا کہ مجرم کو کچھ مدت کے لیے لوگوں سے ملنے جلنے اور معاشرتی
تعلقات قائم نہ رکھنے دیے جائیں۔ حضور سرورِ کائنات صلی اﷲ علیہ وسلم مدینہ
کے بازاروں میں نکلتے تو جگہ جگہ رک کر ، ناپ تول کر ، پیمانہ دیکھتے ،
چیزوں میں ملاوٹ کا پتا لگاتے ، عیب دار مال کی چھان بین کرتے ، گراں فروشی
سے روکتے ، استعمال کی چیزوں کی مصنوعی قلت کا انسداد کرتے تھے۔آپ صلی اﷲ
علیہ وآلہ وسلم عمال(گورنروں) پر کڑی نگاہ رکھتے، کسی عامل کی شکایت پہنچتی
تو فورا تحقیقات کراتے
بلدیاتی نظام:
میثاق مدینہ میں بلدیاتی نظام کے تعلق سے حسب ذیل امور سامنے آتے ہیں : امن
و امان کاقیام ،تعلیم و تربیت کی سہولتیں ،روزگار ، سکونت اور ضروریات
زندگی کی فراہمی ۔اس کے علاوہ بھی ریاست مدینہ کے بلدیاتی نظام میں کھانے
پینے کی چیزوں کے خالص بونے پر زور دیاگیا ہے ، ملاوٹ کر نے والوں کے لیے
سخت سزائیں اور عذاب کی وعید ہے ، پینے کے پانی کوصاف رکھنے اور گندے پانی
کی نکاسی کے احکام بھی اسی عنوان کے تحت آتے ہیں ، اسی عنوان سے متعلق
بیماریوں کے علاج کی سہولتیں بھی ہیں، ان میں وباوں کے خلاف حفاظتی تدابیر
اور ہر وقت ان کے انسداد کی ذمہ داری شہری حکومت پر ہے ۔سایہ ، چمن بندی ،
عوامی تفریح گاہوں کا انتظام بھی عین اسلامی تعلیم کے مطابق ہے ۔بلدیاتی
نظام میں سب سے اہم سڑکوں ، پلوں کی تعمیراور دیکھ بھال کے علاوہ نئی شاہ
راہوں کی تعمیر اور آئندہ کے لیے ان کی منصوبہ بندی کا کام ہوتاہے ۔
تجاوزات کا خاتمہ:
بعض لوگ ذاتی اغراض کے لیے سڑکوں کو گھیر لیتے ہیں ، بعض مستقل طورپر
دیواریں کھڑ ی کر لیتے ہیں ، فقہِ اسلامی میں اس کے بارے میں واضح احکام
ملتے ہیں؛ صحیح مسلم کی ایک روایت ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ کہتے
ہیں کہ اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: جب تم راستے میں
اختلاف کرو تو اس کی چوڑائی سات ہاتھ ہوگی ، اس سے کم گلی بھی نہیں ہوسکتی
۔(صحیح مسلم)
آب رسانی:
مدینہ کی شہری مملکت میں پینے کے پانی کا انتظام یہودیوں سے کنوئیں خرید کر
کیا گیا،شہر میں پینے کے پانی کی بہم رسائی کا سرکاری طورپر انتظام کیاگیا،
مدینہ میں پینے کے لیے میٹھے پانی کے کنوئیں اورچشمے بمشکل دستیاب ہوئے ۔
حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ نے جوخود بھی مدینہ کی نوآبادی میں رہتے تھے
حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق اہلِ مدینہ کے لیے یہودیوں سے میٹھے
پانی کا کنواں بئررومہ خرید کر وقف کردیا ۔(صحیح بخاری)
صفائی ستھرائی:
حفظانِ صحت کا خیال رکھنا اسلامی زندگی کا بنیادی نظریہ ہے ، صفائی
اورپاکیزگی کو اسلام نے نصف ایمان کا درجہ دیاہے ، گھر، گھر کے باہرکا ہر
مقام، اپنے جسم ، اپنے کپڑوں کی پاکی کاحکم بار بار آیا ہے، مسجدوں کو
پاکیزگی کے نمونے کے طورپر پیش کیا گیا ہے، سرکاری عمارتوں کو پاک صاف
رکھنے کا حکم دیا گیا ہے ، احادیث سے معلوم ہوتاہے کہ بعض بدوی مسجدنبوی کی
دیواروں پر تھوک دیتے تواﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم اپنے ہاتھوں سے اس جگہ
کوصاف کرتے تھے، وضو اور غسل کا نظام ، غلاظت سے صفائی کے احکام ، چوپال ،
کھلیانوں کی جگہ ، دریاں کے کنارے اور تفریح کے مقامات کو پاک صاف رکھنا
حفظانِ صحت کے اصول کے مطابق بھی ہے اور اس میں شائستگی کا اظہار بھی ہے۔
اسلام جسم و جان کی پاکیزگی او رظاہر و باطن کی صفائی پر بہت زیادہ زور
دیتاہے ، وضو ، طہارت ، غسل کے احکامات اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ریاست مدینہ
میں حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے سڑکوں پر گندگی ڈالنے سے روکا ،قبل از
اسلام مدینہ کی گلیوں میں گندے پانی کی نکاسی کا انتظام نہ تھا ، بیت
الخلاء کااس زمانہ میں رواج نہ تھا؛ لیکن مسلمانوں کی آمد کی وجہ سے جب
شہروں کی آبادی بڑھنے لگی تو پھر ان مسائل کا حل تلاش کیا گیا ۔۔ آپ صلی اﷲ
علیہ وسلم نے مسجدیں بناکر وہاں طہارت خانہ تعمیر کر نے کی ہدایت جاری کی ،
اسلام کے عمومی مزاج اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے اس فرمان کے بعد گھر گھر
غسل خانے بن گئے ۔ ہرمسجد کے ساتھ طہارت خانے تعمیر کیے گئے۔(ابن ماجہ) آپ
صلی اﷲ علیہ وسلم نے سڑکوں پر سے رکاوٹ کی چھوٹی موٹی چیز کو ہٹا دینے کو
صدقہ قرار دیا۔
شجرکاری :
ہجرت کے وقت مدینہ باغوں کی سرزمین کہلاتا تھا ، اور یہاں کے لوگ باغات کے
بہت شوقین تھے، رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے شہر اورمسجد کی تعمیر کے وقت یہ
کوشش کی کہ وہاں موجود کھجور کے درختوں کو کم سے کم نقصان پہنچے، مسجد
النبی صل اﷲ علیہ وسلم کے دروازہ کے قریب کھجور کے درختوں کا ذکر کتب
احادیث میں ملتا ہے ۔مسجد کے بڑے دروازہ کے بالمقابل حضر ت ابو طلحہ انصاری
رض اﷲ عنہ کا وسیع و شاداب باغ بیر حا تھا ، جہاں حضورپاک صل اﷲ علیہ وسلم
اکثر تشریف لے جاتے (صحیح بخاری ، نسائی ، ابن ماجہ )اس کے علاوہ بھی
خصوصیت سے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے سڑکوں پر سایہ دا ر درخت لگانے کا
حکم دیا ۔
ٹریفک کنٹرول :
موجود ہ دور میں ایک اہم مسئلہ ٹریفک کاہے ، اس کے بار ے میں تعلیماتِ بنوی
صلی اﷲ علیہ وسلم سے احکام ملتے ہیں، سڑکوں پر بیٹھ کر باتیں کرنے اور
راستہ میں رکاوٹ کھڑی کرنے سے آپ صل اﷲ علیہ وسلم نے منع کیا ، جانوروں تک
کے لیے راستے کی آزادی برقرار رکھی۔
آزاد بین الاقوامی تجارت کی داغ بیل:
ہجرت کے بعد مدینہ میں خرید و فروخت کی سہولت کے لیے علیحدہ منڈی یابازار
بنادیا گیا، خیال یہ ہے کہ یہ منڈی بنو قینقاع کے اخراج کے بعد قائم ہوئی
ہوگی؛ کیونکہ اس سے پیشتر عبد الرحمن بن عوف رضی اﷲ عنہ اوردوسرے تجارت
پیشہ مسلمان اپنا کاروبار قینقاع کے بازار میں کرتے تھے ۔(صحیح مسلم)یہ
بازار مسجد النبی صلی اﷲ علیہ وسلم سے کچھ زیادہ فاصلہ پر نہ تھا ، بازار
خاصا وسیع و عریض تھا اور آخر عہد بنوی صلی اﷲ علیہ وسلم میں نہایت بارونق
اور تجارتی سرگرمیوں کا مرکز بن چکا تھا ، تجارت کے فروغ کے لیے جناب رسالت
مآب صلی اﷲ علیہ وسلم نے زبردست کوششیں کی،جن میں سب سے اہم آپ صلی اﷲ علیہ
وسلم کا یہ فرمان تھا۔ مدینہ کی منڈی میں کوئی خراج (ٹیکس)نہیں ہے۔(فتوح
البلدان، بلاذری)واضح رہے کہ خراج(ٹیکس،چونگی) کی وجہ سے تجات میں بڑ ی
رکاوٹیں تھیں ، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے مختلف سیاسی اور عسکری مصالح کے پیش
نظر یہ حکم صادر فرمایا جو دور رس نتائج کاسبب تھا۔ ، اور دراصل اس طرح آپ
صلی اﷲ علیہ وسلم نے چنگی کی لعنت ہی ختم نہ کی؛ بلکہ تمام ملک میں ، مدینہ
کی طرح آزادانہ درآمدات او ر برآمدات کی اجازت دے کر بین الاقوامی آزاد
تجارت کی داغ بیل ڈالی۔اس بات میں دو رائے نہیں، کہ آزاد بین الاقوامی
تجارت ،جس کے ذریعہ بین الاقوامی طورپر اشیا کی قیمتیں متوازن رکھ کر عوام
کوفائدہ پہنچایاجاسکتاہے،نہ صر ف اقوام و ملل کے لیے، بلکہ پوری نو عِ
انسانی کی مادی ترقی کے لیے ضروری ہے ، اس طرح اقوام خوشحال بن سکتی ہیں ۔
تعلیمی اداروں کا قیام :
ریاست مدینہ کے بانی صلی اﷲ علیہ وسلم نے تعلیم پر بڑا زور دیاہے ، پہلا
نصابِ تعلیم رسول اﷲ صل اﷲ علیہ وسلم نے ہی ترتیب دیا، اﷲ کے رسول صلی اﷲ
علیہ وسلم نے مسجد نبوی کی تعمیر کے وقت ایک چبوترہ (صفہ)بناکر اسلام کے
پہلے رہائشی مدرسے ہ کی بنیاد ڈالی ۔عرب میں چوں کہ لکھنے کا رواج نہیں تھا
اس لیے مسجد نبوی میں ہی حضرت عبد اﷲ بن سعید بن العاص اور حضرت عبادہ بن
صامت کو لکھنا سکھانے پر مامور کیا گیا۔ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کو مختلف
زبانیں سکھائی گئیں اور فنون جنگ کی تعلیم ہر جوان کے لیے ضروری قرار دی
گئی۔ خواتین گھریلوں صنعتوں کے ساتھ علاج معالجے کا انتظام بھی کرتی تھیں،
حتی کہ ایک صحابیہ نے مسجد نبوی ہی میں خیمہ لگا دیا تھا جہاں زخمیوں کی
مرہم پٹی کی جاتی تھی۔ ریاست مدینہ نے ریاست کے خلاف لڑنے والے سزائے موت
کے مستحق دہشت گردوں(جنگی قیدیوں) کو صرف اس شرط پر رہا کردیا تھا کہ آپ
ہمارے بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دیں۔ چناں چہ ایسے دہشت گردوں کو شرط پوری
کرنے پر ریاست مدینہ نے بطور صلہ تختہ دار سے رہائی بھی دی۔ریاست مدینہ نے
اپنی نیشنل یونیورسٹی میں پڑھنے والے طالب علموں سے کبھی فیس نہیں لی، بلکہ
لوگوں کو ترغیب کے ان کے ساتھ بڑھ چڑھ کر تعاون کیا جائے۔
عدل وانصاف کی بالادستی:
معاشرے کی تعمیر و ترقی کے لیے یہ بات نہایت ضروری ہے کہ قانون کی بالادستی
ہو اور قانون میں امیر غریب، چھوٹے بڑے طبقے کا فرق مٹا دیا جائے،چناں چہ
ریاست مدینہ کے بانی صلی اﷲ علیہ وسلم نے عدل و انصاف پر مبنی معاشرہ قائم
کیا، قانونی مساوات کو رائج کیا۔ قانون سب کے لیے ایک تھا، امیر غریب کا
کوئی فرق نہیں تھا۔مشہور واقعہ ہے کہ بنومخزوم کی ایک فاطمہ نامی عورت جب
چوری کے جرم میں گرفتار ہوئی اور اس کے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا گیا ،تو اس
کے قبیلے والے ہر قسم کی سفارشیں، رشوتیں دینے کے لیے تیار ہو گئے کہ کسی
طرح اس عورت کو قانون کے ہاتھوں سے چھڑا دیا جائے،یہاں تک کہ آپ صلی اﷲ
علیہ وسلم کے منہ بولے بیٹے سے بھی سفارش کرائی، لیکن حضورصلی اﷲ علیہ وسلم
نے فرمایا: اگر اس فاطمہ کی جگہ میری بیٹی فاطمہ بھی اس جرم کی مرتکب ہوتی
تو میں اس کے بھی ہاتھ بھی کاٹ دیتا۔یہی تسلسل خلفائے راشدین ؓ کے ادوار
میں بھی نظر آتا ہے ،چناں چہ :حضرت عمررضی اﷲ عنہ نے مصر کے گورنر کے بیٹے
کو سرعام کوڑے مارے ،حضرت علی رضی اﷲ عنہ عدالت کے طلب کرنے پر عدالت میں
پیش ہوئے اور اپنے عمل سے ثابت کردیا کہ قانون سب کے لیے ہے۔
شرعی سزاؤں(حدود ) کا نفاذ:
درندہ صفت انسانوں کو جرائم سے روکنے کے لیے مدینہ منورہ کی ریاست میں اﷲ
تعالیٰ کی نازل کردہ حدود کو پوری طرح نافذ کیا گیا تھا؛ چناں چہ غیر شادی
شدہ زانی کو 100کوڑے اور شادی شدہ زانی کو سنگسار کیا جاتا۔ چور کے ہاتھ
کاٹے جاتے شراب پینے والے کوکوڑوں کی سزا دی جاتی اور کسی مومنہ عورت پر
اقلیتوں اور غلاموں کے حقوق:
مدینہ طیبہ کی ریاست میں اقلیتوں اور غلاموں کے حقوق پوری طرح محفوظ تھے۔
مذہبی اختلاف یا طبقاتی تقسیم کی وجہ سے کسی کے بھی بنیادی حقوق کو سلب
کرنے کا کوئی بھی تصور مدینہ طیبہ میں موجود نہ تھا۔ یہود ونصاری ٰکے
بنیادی حقوق بھی مدینہ طیبہ میں پورے ہوتے رہے اور ان کو مذہبی اختلاف کی
وجہ سے کبھی بھی ظلم اور جبر کا نشانہ نہ بنایا گیا۔
پردے کا رواج:
ریاست مدینہ نے معاشرے کی سطح پر فحاشی اور عریانی کو مٹایا،لوگوں میں پردے
کا نظام رائج کیا۔ محرم اور غیر محرم کا فرق لوگوں کے ذہنوں میں
بٹھایا۔نظروں اور شرم گاہوں کی حفاظت کے لیے نکاح کو سستا اورآسان بنایا،جب
کہ بدکاری کی سخت ترین سزا نافذ کی،تاکہ کوئی اس کی جراء ت نہ کرسکے۔یہی
وجہ تھی کہ مدینہ منورہ کی ریاست میں حیا اور پردہ اپنے پورے عروج پر تھا
اور وہاں پر اختلاط بے پردگی اور بے حیائی کا کوئی تصور موجود نہ تھا۔ مردو
زن اپنے اپنے دائرہ کار میں رہ کر اپنے جملہ امور کوپایہ تکمیل تک پہنچانے
اور اﷲ تبارک وتعالی کی بندگی کو بجا لانے کا فریضہ احسن طریقے سے انجام
دیتے رہے۔
خواتین کے حقوق :
خواتین زمانہ جاہلیت کی مظلوم ترین مخلوق سمجھی جاتی تھیں،نبی کریم صلی اﷲ
علیہ وسلم نے خواتین کے حقوق بالخصوص شادی میں زبردستی، وراثت سے محروم
رکھنا، یتیم کا مال ہڑپ کرنا،حرام قراردیا اور عورتوں کو حق ملکیت عطا
کیا،جو اس سے پہلے کسی مذہب نے نہیں دیا تھا۔ ریاست مدینہ نے بچے جننے والی
ماؤں اوران کے نوزائدہ بچوں کے وظائف جاری کیے۔ریاست مدینہ میں مردعورت
دونوں کے حقوق برابرتھے ، البتہ صنفی فرق اورپیدائشی ذمے داریوں کے اختلاف
کی وجہ سے دونوں دائرہ کار علیحدہ علیحدہ تھا۔
سود کا خاتمہ:
ریاست مدینہ نے ارتکاز دولت پر بھی پابندی لگا دی۔ اور ایسی ایسی پالیسیاں
جاری کیں کہ دولت چند ہاتھوں تک سمٹ کر نہ رہ جائے بلکہ دولت ہر وقت حرکت
میں رہے۔اس مقصد کے حصول کے لیے سود حرام اور زکوٰۃ فرض قرار دی گئی۔سب اہم
چیز سود پر مکمل پابندی تھی، یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ان دنوں مدینہ
منورہ کی معیشت کا سارا انحصار یہودیوں کے سودی کاروبار پر تھا ،مگر حضور
اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے مہاجرین سے یہ نہیں فرمایا کہ تم بھی
یہودیوں سے سود پر قرض لے کر اپنا کاروبار شروع کر دو، بلکہ آپ صلی اﷲ علیہ
وآلہ وسلم نے انصار مدینہ سے فرمایا کہ اپنے بھائیوں کی مدد کرو اور پھر
قرض حسنہ کا نظام رائج فرمایا۔ جب معاشرے کے افراد عملا ًباہمی تعاون کے
ذریعے بلا سود قرضوں پر معیشت کو قائم کرنے میں لگ گئے تو آپ صلی اﷲ علیہ
وآلہ وسلم نے سود کو مکمل طور پر حرام قرار دے کر اس لعنت کو ختم کر دیا۔جس
کی وجہ سے غریب کو سر اٹھانے کا موقع ملا اور امیر کے منہ میں لگام ڈال دی
گئی۔یہی وہ بنیادی پتھر تھا جسے اٹھاتے ہی ریاست کی معیشت کی ترقی کا سفر
شروع ہوا۔
نظام زکوٰۃ کاقیام:
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں زکو ٰۃوعشر کے نظام کو قائم کیا
،جس کے ذریعے غریب مفلوک الحال اور استحضال زدہ طبقات کی بھرپور طریقے سے
امدادہوئی۔ مدینہ منورہ کی ریاست میں غریبوں اور مفلوک الحال طبقات کی
دردمندی ہر دل میں موجود تھی اور لوگ زکوٰۃ، عشر ،صدقات اور خیرات کے ذریعے
اپنے بھائیوں کی بھرپور طریقے سے اہتمام کیا کرتے تھے۔یہی وجہ تھی کہ ایک
وقت ایسا بھی آیا کہ ریاست مدینہ میں زکو ٰۃدینے والے تو تھے لیکن زکو
ٰۃلینے والا کوئی نہیں ملتا تھا۔
غریبوں کو ٹیکس کی چھوٹ:
ریاست مدینہ نے امیروں پر زکوٰۃ تو فرض کی ،لیکن غریبوں پر کسی قسم کا کوئی
ٹیکس نہیں لگایا۔ ریاست مدینہ شہریوں کو لوٹنے کے بجائے ان کی کفالت کرتی
تھی۔
ڈکٹیٹر شپ کاخاتمہ:
ریاست مدینہ کی ایک اور شانداربنیادمشاورت تھی۔ آج صدیوں کے بعد جمہوریت کے
نام پر اکثریت کی بات کو تسلیم کرنے کا رواج پیداہوا جبکہ ریاست مدینہ کے
حکمران محسن انسانیت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے تاریخ انسانی میں سب سے پہلے
اپنی رائے کی قربانی دے کر اور اکثریت کی رائے پر فیصلہ کر کے ثابت کیا کہ
جمہور کا فیصلہ قابل اقتدا ہوا کرتا ہے،جب کہ یہ وہ دور تھا جب دنیائے
انسانیت میں سرداری و بادشاہی نظام نے پنجے گاڑرکھے تھے اور حکمران سے
اختلاف تو بڑی دور کی بات تھی اس کے سامنے بولنا بھی جوئے شیر لانے کے
مترادف تھا۔
آزادی اظہار رائے:
ریاست مدینہ کا وجود صحیح آزادی رائے کا مجسم نمونہ تھاجس میں معاشرے کے ہر
طبقے خواہ وہ غلام ہوں، خواتین ہوں یا دیگر شہری سب کو اپنے مافی الضمیرکے
اظہارکے مکمل مواقع میسرتھے اور ان پر کوئی قدغن نہیں تھی۔ فجرکی نماز کے
بعد محسن انسانیت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم مسلمانوں کی طرف متوجہ ہو کر بیٹھ
جاتے اور مردوخواتین میں سے جو بھی جو پوچھنا چاہتا اسے ادب و احترام کی
حدود کے اندر مکمل آزادی تھی۔
عہدے دینے میں میرٹ کی پاس داری:
حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے عہد میں چوں کہ یمن اور حجاز اسلامی
حکومت میں شامل ہو چکے تھے۔ اس لیے آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ان علاقوں میں
والی مقرر کرتے ہوئے ان کے تقوی، علم و دانش، عقل و عمل اور فہم کا خاص طور
پر خیال رکھتے تھے۔اسلامی ریاست میں مختلف عہدوں پر تقرر کا ایک معیار مقرر
کیا گیا ۔ امرا کے انتخاب میں حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی حکمت
عملی کا ایک اہم جز یہ تھا کہ جو لوگ والی بننے کی درخواست کرتے، ان کی
درخواست رد کر دیتے۔ افسروں کے انتخاب کے سلسلے میں آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ
وسلم کی حکمت عملی قرآن پاک کی اس آیت کی تعبیر تھی:
ترجمہ:بے شک اﷲ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں انہی لوگوں کے سپرد کرو جو ان
کے اہل ہیں۔)سورۃ النساء،آیت:58)یعنی عہدہ اور منصب بھی ایک طرح کی امانت
ہے جو بد دیانت کے سپرد نہیں کیا جا سکتا۔
جب آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کو ریاست بنایا تو آپ نے حکومتی
اختیارات کو نچلی سطح تک یوں منتقل کیا ،کہ ہر دس افراد پر ایک نقیب مقرر
کیا، دس نقیبوں پر ان کا سربراہ عریف بنایا اور پھر سو عرفا پر مشتمل
پارلیمنٹ بنائی۔ اس طرح عوام کو براہ راست پارلیمنٹ میں شراکت دے کر ان کی
آواز ایوان تک پہچانے کا ذریعہ بنا دیا۔ |