یہ 2003 ء کی بات ہے استاد المحدثین شیخ الحدیث حضرت
مولانا سلیم اﷲ خان صاحب رحمۃ اﷲ علیہ نے جامعۃ الرشید کراچی میں علماء
وطلبہ کی ایک نشست میں ایک سوال کے جواب میں فرمایا عام لوگ پوچھتے ہیں
مولوی کا کردار کیا ہے؟ مولوی کی خدمات کیا ہیں ؟ اور ہمارے فضلاء پوچھتے
ہیں معاشرے میں کام کیسے کریں ؟میں کہتا ہوں سب مولویوں کی بات نہ کرو صرف
ایک مولوی عبدالستار کو دیکھ لو وہ کیسے اور کتنا کام کررہے ہیں ؟‘‘حضرت
شیخ کی زبان سے مولانا عبدالستار صاحب کا نام سنا تو رشک آیا ،تجسس
ہوا،اشتیاق بڑھا کہ یہ مولانا عبدالستار ہیں کون؟کیاکام کررہے ؟کیسے
کررہے؟کراچی میں مقیم دوست احباب سے کچھ معلومات ملیں لیکن مولانا
عبدالستار کے کام کی مکمل تفصیل سامنے نہ آسکی اور نہ ہی مولانا سے ملاقات
کی کوئی سبیل بن پائی پھر رفتہ رفتہ ان کے کام ،کارگزاری اور محنت سامنے
آتی رہی ،خوشی ہوتی رہی، چند برس قبل ملاقات کے لیے حاضری ہوئی ، پھرمختلف
مواقع پر بعض اتفاقیہ ملاقاتیں بھی رہیں، مولانا عبدالستار صاحب کا جوکام
سامنے آتا ،حیرت ہوتی ،خوشی ہوتی ……مسجد کی خدمت کرتے ہوئے عوام الناس میں
دینی کام کرنے کا احساس ہوا توحضرت مولانا عبدالستار صاحب کا فہم دین کورس
اور ان کی عوامی محنت قابل تقلید لگی ،قلم کتاب سے تعلق اور طباعت اشاعت کا
ذوق ہے اور ہر کسی کے کام کو اسی نظر اور توقع سے دیکھنا ہوتاہے مولانا
عبدالستار صاحب کے ادارے سے عربی ،انگلش،اردوکے تین مجلات موصول ہونے لگے
تو ان کی ڈیزئننگ ،ان کی پیشکش ،ان کا مواد اور ان کا ہر پہلو ایسا لگا کہ
دل باغ باغ ہوگیا ،میجر بشیر صاحب اور برادرم ماجد صاحب کے ذریعے بیت
السلام ٹرسٹ کا تعارف ہوا تو حیرت کے کئی درواہوئے (بیت السلام ٹرسٹ ایک
مستقل موضوع ہے)
چند برس قبل کراچی جانا ہوا ،نماز مغرب مولانا عبدالستار صاحب کی مسجد میں
پڑھی ،درس وتدریس کے حلقے ،نورانی چہرے ،چند برس کے بچوں سے لے کر بوڑھے
بوڑھے طلبہ، عجیب بہا رتھی اور عجیب رونق تھی ……مولانا کی خدمت میں حاضر
ہوا تو خوشی سے کھل اٹھے ۔فرمایا’’ ابھی کل ہی آپ کا ذکر خیر ہورہا تھا ‘‘۔کراچی
کے حالیہ سفر میں اتفاقیہ طور پر حضرت سے ائرپورٹ پر ملاقات ہوگئی۔ برادرم
عبدالرؤف محمدی ہمراہ تھے ۔ائر پورٹ کے ویٹنگ روم میں مولانا کو دیکھ کر
عبدالرؤف سے کہا’’ ماشا ء اﷲ وہ دیکھیں مولانا عبدالستار تشریف فرما ہیں
‘‘وہ ایک سفید ریش بزرگ کی طرف اشارہ کرکے فرمانے لگے ’’وہ‘‘جب میں ایک
مرنجان مرنج اور وجیہ مگر نسبتاجوان مولانا عبدالستار صاحب کی طرف بڑھا
تومولانا عبدالروف حیران رہ گئے اور بعد میں کہنے لگے میرے ذہن میں مولانا
عبدالستا ر صاحب کا عمر کے اعتبار سے بھی ایک بزرگ ہستی کا نقش بیٹھا
ہواتھا۔مولانا سے ملے،ان کے ہاں حاضری کا ارادہ ظاہر کیا بالخصوص جامعہ بیت
السلام کے نیو کیمپس جانے کی بات کی تو فرمایا’’ آپ کل کی نماز فجر بیت
السلام مسجد میں ادا کرلیں پھر اکٹھے جامعہ بیت السلام چلیں گے‘‘ عرض کیا’’
کل تو ممکن نہیں پرسو حاضری ہوگی‘‘ ۔ نماز فجر کے لیے بیت السلام مسجد
گئے،ابھی مسجد کے اندر پہنچے نہیں باہر کا ماحول ہی حوصلہ افزا تھا ۔نماز
فجر کے لیے مسجد کے باہر اتنی گاڑیاں تھیں جتنی عموما دیگرمساجدمیں جمعہ کی
نمازمیں ہوتی ہیں ۔مولانا خود نمازفجر پڑھاتے ہیں اور ترتیب سے قران کریم
کی تلاوت فرماتے ہیں اور جس طرح باقی مساجد میں صرف رمضان المبارک میں قران
کریم کی تکمیل ہوتی ہے مولانا کے ہاں نماز فجر میں بھی قران کریم ترتیب سے
پڑھا جاتا ہے۔ نماز فجر کے بعد مختصر سا درس دیا ،پھر بعض لوگوں کے مسائل
سنے ،کچھ معمولات اورتلاوت فرمائی اور اس کے بعد ہم جامعہ بیت السلام کے
نیو کیمپس کی طرف روانہ ہوگئے ۔
کراچی شہر سے باہر تاحد نگاہ پھیلا ہو اایک لق ودق علاقہ ……گاڑی کراچی شہر
سے نکل گئی تھی اور فراٹے بھرتی ہوئی چلی جارہی تھی ، ہمارے پاس حضرت شیخ
کے فرمان کے بعد سے تاحال مولانا کے بارے میں جتنے سوالات جمع ہوئے تھے ہم
نے مولانا پر ان سوالات کی بوچھاڑ کررکھی تھی اور وہ دھیمے لہجے میں
مسکراتے ہوئے پیار بھرے انداز میں اپنے کاموں کا تعارف کرواتے رہے ،بیت
السلام ٹرسٹ ،جامعۃ بیت السلام ،مسجد کورسز ،اسکولز ،تلہ
گنگ،مکاتب،مطبوعات،مجلات،مستقبل کے عزائم ……ہم نے ایک دن مولانا عبدالستار
صاحب کے ساتھ گزارا۔ اس ایک دن پر ایک مکمل کتاب لکھی جاسکتی ہے ……حیرت
ہے،کمال ہے،اﷲ کی نصرت اور اس کی توفیق کیا ہوتی ہے ؟اس کا اندازہ مولانا
عبدالستار صاحب سے مل کر اور ان کے کام دیکھ کر ہوتا ہے ……حضرت شیخؒنے
بالکل بجا فرمایا تھا ……جی چاہتا ہے دینی مدارس کے جدید فضلاء اور طلبہ
مولانا عبدالستار جیسے مضبوط ایمان اور ہمت والے لوگوں کی داستان پڑھیں
،سنیں،جانیں اور دیکھیں تاکہ اندازہ ہوکہ جب انسان اﷲ کے دین کی محنت کے
لیے کمر بستہ ہوجائے ،اﷲ کی مخلوق کی خدمت کا قصد کرلے ،دیانت سے ،ہمت
سے،سلیقے سے،کام کرنے لگے توکیسے اﷲ رب العزت کی رحمت اسے اپنی آغوش میں لے
لیتی ہے۔
جامعہ بیت السلام کا نیوکیمپس کراچی سے باہر جس علاقے میں ہے وہ ایجوکیشن
سٹی کہلاتا ہے۔ وہاں آغا خان بورڈ اور دیگر یونیورسٹیز ،تعلیمی اداروں کو
پلاٹ الاٹ ہونے لگے تو مولانا عبدالستار صاحب جو ان دنوں اپنے ادارے کے لیے
کسی وسیع اور کشادہ جگہ کی تلاش میں تھے انہیں کسی نے اس علاقے میں نصف
ایکڑ جگہ دلوانے کو کہا۔ انہوں نے کہا’’ نصف ایکڑ کو کیا کریں گے؟ اپنے وژن
کے مطابق اﷲ رب العزت سے مزید جگہ مانگی اور پھر مالک نے کرم فرمایا اِس
وقت مولانا عبدالستار صاحب کے پاس تقریبا سترایکڑ جگہ ہے۔آج تو پھر بھی
وہاں زندگی کے آثار ہیں لیکن جب مولاناعبدالستار صاحب نے اس جگہ پر کام
کاآغاز کیا اس وقت کا تصور کرتے ہی انسان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔اس
جگہ کے ارد گرد اربوں روپے بجٹ رکھنے والے اداروں اور گروپوں کے پلاٹ ہیں
لیکن وہ جوں کے توں پڑے ہیں اور مولانا عبدالستار صاحب نے جو خواب دیکھا وہ
اﷲ رب العزت کے فضل وکرم سے شرمدنہ تعبیر ہوچکا……ایک عظیم الشان ادارہ
……عالیشان مسجد ……مسجد ہی ایسے اندازے سے بنی ہے کہ عظیم الشان اور مکمل
ادارہ…… اس کے دائیں بائیں کو ئی اور بلڈنگ نہ بھی بنتی تو وہ ایک مستقل
ادارہ تھا ……ہاسٹلز ،درسگاہیں،قران کمپلیکس …… کچھ بن گیا ،کچھ بن رہاہے،
تعمیراتی سلسلہ تیز ی سے جاری ہے۔کراچی کے نامی گرامی ماہرین تعمیرات پر
مشتمل مجلس شوری تعمیراتی کاموں کی نگرانی کرتی ہے۔ اس روز بھی تعمیراتی
شوری کا اجلاس تھا۔ اس کے ایک حصے میں ہمیں شامل ہونے کا موقع ملا ۔اﷲ کے
نیک ، مخلص اور خوش نصیب بندے کیسے خلوص سے مولانا عبدالستار صاحب کے دست
وبازو بن گئے…… اﷲ رب العزت اپنی شان کے مطابق اجر عطافرما ئیں ۔
میں نے مولانا سے عرض کیا کہ آج ہماری حالت وہی ہے جو حضرت زکریا علیہ
السلام نے حضرت مریم کے پاس بے موسم پھل دیکھ کر اﷲ رب العزت سے دعا کی تھی
ہم نے بھی کچھ دینی کاموں کے ارادے کر رکھے ہیں ،کچھ نقشے بنوا رکھے ہیں
،کچھ خواب دیکھ رکھے ہیں اﷲ رب العزت ہمارے لیے بھی اپنی رحمت سے سب سہل
فرمادیں ……آمین
ادارہ دیکھنا شروع کیا تو ہر پہلو ہی انوکھا اور نرالا ……حفظ کے ننھے منے
بچوں نے مختلف لہجوں میں قران کریم سنایا توحیرت ہوئی…… ایک بچہ بلایا گیا
……وہ کمپیوٹر تھا ……کمپیوٹر……صرف ایک کلک کی بات تھی۔ اسے جو کہتے ،جہاں سے
کہتے وہ پڑھتا،آیت نمبر بتایا، سورت کی تفصیل بتاتا،صفحے کا آغاز
سناتا،رکوع کی تفصیل بتاتا یہ دیر سے تعلق رکھنے والا ایک غریب بچہ تھا جو
گھر سے صرف پانچ سو روپے لے کر نکلا تھا اور اب وہ قرآن کا حافظ ہی نہیں
کمپیوٹر بن گیا تھا۔اسکول کے شعبے میں گئے تو حیران رہ گئے، بچوں کو او
لیول کروایا جاتا ہے…… مولانا عبدالستار نے تعلیمی معیار اور نظام ایسا
رکھا کہ ان کا اپنا بچہ بھی اسی نظام میں پڑھ سکے ۔ ملک بھر کے بچے ،حفاظ
بچے اس ادارے میں او لیول کررہے ہیں جی ہاں وہی تعلیم اور وہی معیار جس کی
ماہانہ فیس بیس ہزار کے لگ بھگ ہوتی ہے مولانا کے ہاں تعلیم کے ساتھ ساتھ
قیام وطعام اور دیگر جملہ ضروریات بھی مہیا کی جاتی ہیں ۔شعبہ کتب کی
درسگاہوں کا جائز ہ لیا تو وہاں بھی معیار پر توجہ…… اگر کسی کلاس میں تیس
بچے ہیں تو ان میں بائیس بچے وفاق المدارس کے امتحانات میں ممتاز آتے ہیں
،کسی بچے کو اردو میں پرچہ حل کرنے کی اجازت نہیں ،عربی اردو میڈیم کی
تفریق نہیں، عربی سے متعلقہ مضامین عربی میں اور فنون اردو میں پڑھائے جاتے
ہیں ۔زبان عربی ہے اور پرچے عربی میں کرنے پڑتے ہیں ۔ہم مولانا عبدالستار
کے ساتھ مدرسہ کے چمن میں بیٹھے تھے ایک شناسااور مانوس چہرے والے جوان سال
عالم دین تشریف لائے۔ میری طرف اشار ہ کرکے مولانا سے عرض کیا کہ ہم تخصص
کے سات شرکاء ان کے شاگرد ہیں اس لیے ان کا کچھ وقت چاہیے۔ مولانا نے خوشی
کا اظہار کیا ۔تخصص کی درسگاہ میں جانا ہوا ۔مولانا محمود صاحب اور مولانا
ضیاء صاحب ہمیشہ رابطے میں رہتے ہیں۔ ان سے اور ان کے تلامذہ سے کچھ دل کی
باتیں کرتے ہوئے خوشی ہوئی ،مولانا نے نئی تعمیرات کا معاینہ کروایا
،مستقبل اور بدلتے حالات کے تمام تقاضوں کو سامنے رکھا گیا ہے اﷲ رب العزت
ان کے لیے کام کو سہل فرمادیں ۔یہ ایک ادارہ ہی نہیں ایک نیا جہاں آباد
ہورہا ہے ،ایک نئی دنیا وجود میں آرہی ہے۔واپسی پر مولانا اپنے اسکول سسٹم
میں لے گئے ۔ایلیٹ کلاس کے لیے تما م جدید وسائل اور ضروریات کا حامل اسکول
سسٹم جو رقبے کے لحاظ سے کراچی کا دوسر ا بڑا اسکول ہے (ا س پر مستقل کالم
کی ضرورت ہے )
الغرض یہ مولانا عبدالستار صاحب کے بہت سے دینی کاموں میں سے صرف ایک
پروجیکٹ کی یہ ایک مختصر سی جھلک ہے ورنہ ان کے عزائم اور ان کے کاموں کی
تفصیلات ،ان کا وژن حیران کن ہے ،ایمان افروز ہے…… اﷲ رب العزت انہیں بہت
کامیا بیوں سے نوازیں ……آمین |