ملک میں تعلیم کے نظام اور معیار کا مسئلہ

وزیر اعظم عمران خان نے وزیر اعظم ہائوس کو اسلام آباد نیشنل یونیورسٹی میں تبدیل کرنے کا اعلان کیا ہے۔انہوں نے 'پاکستان کے لئے نمایاں ہوتے چیلنجز اور مواقع'' کے عنوان کے سیمینار سے خطاب میں اس کا مقصد حکومت اور عوام میں فاصلے کو کم کرنا بتایا۔وزیراعظم نے ہائیر ایجوکیشن کو حکومت کی طرف سے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ یونیورسٹی کے قیام کے پہلے مرحلے میں وزیر اعظم عمران خان نے اسٹیٹیوٹ آف ایڈوانسڈ سٹیڈیز کے قیام کی منظوری بھی دی ۔اس سے پہلے ' پی ٹی آئی' حکومت کی طرف سے ملک میں یکساں نظام تعلیم قائم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے ۔ ملک میں تین طرح کے تعلیمی اداروں میں یکساں نظام تعلیم قائم کرنے کے حوالے سے بتایا گیا کہ دینی مدارس ، سرکاری سکولوں اور نجی تعلیمی اداروں میں یکساں نظام تعلیم متعارف کرانے کے لئے ٹاسک فورس کا قیام بھی عمل میں لایا گیا ہے اوراس حوالے سے 'این جی اوز'،ماہرین کی خدمات حاصل کی جائیں گی اور صوبائی سطح پر کانفرنس میں منعقد کی جائے گی۔ حکومت کی طرف سے اسلام آباد کے سرکاری سکولوں میں سمارٹ سکول سسٹم اوررضا کار اساتذہ کا علان کرتے ہوئے بتایا گیا کہ صوبائی حکومتوں کو نجی تعلیمی اداروں کی فیسیں ریگولیٹ کرنے کے لئے کہا گیا ہے۔حکومت کے مطابق دینی مدرسوں میں داخل بچوں کی تعداد تقریبا چار کروڑ ہے جبکہ ڈھائی کروڑ بچے اس وقت بھی سکول نہیں جارہے۔حکومت کے یکساں نظام تعلیم کے اس منصوبے کے مطابق حکومت گورمنٹ سکولوں میں مفت کتابیں مہیا کرے گی، سرکاری سکولوں میں ڈبل شفٹ لگائی جائے گی اور تینوں طرز ( دینی مدرسے،سرکاری سکول،نجی سکول) کے تعلیمی نظاموں میں اردو، انگریزی، میتھ،سائینس،اسلامیات،مطالعہ پاکستان،اور مسلم طلبہ کے لئے قرآن پاک کی تعلیم لازمی ہو گی۔

ملک کے نظام تعلیم کی ابتر صورتحال کے تناظر اور حکومت کے تعلیمی منصوبے سے تعلیمی شعبے میں بہتری ممکن نظر نہیں آتی۔ ملک میں طبقاتی تقسیم کی بنیادوں پر سرکاری تعلیمی اداروں کو برباد کرکے عوام کو نجی تعلیمی اداروں کی لوٹ مار کی بھینٹ چڑہایا گیا ہے۔ملک میں تین طرح کے تعلیمی اداروں میں چند مضامین لازمی طور پر پڑہانے، وفاقی دارلحکومت کے سرکاری سکولوں میں سمارٹ سکول سسٹم قائم کرنے، سرکاری سکولوں میں مفت کتابیں دینے اورڈبل شفٹ شروع کرنے سے ملک کے غیر معیاری اورعوا م پر ایک بڑے معاشی بوجھ کے باعث تعلیمی نظام میں بہتری ہوتے معلوم نہیں ہوتی۔حکومت کیتعلیمی منصوبے کے خدو خال ایسے نہیں ہیں کہ جن سے ملک میں تعلیم کے نظام اور معیار میں بہتری کی توقع کی جا سکے۔

طالب علموں کی سب سے زیادہ تعداد(چار کروڑ) دینی مدرسوں میں ہے جن سے فارغ التحصیل ہونے والے نوجوان ملک کی معاشی سرگرمیوں میں شامل نہیں ہو پاتے۔اس کے بعد پرائیویٹ سکولوں میں سب سے زیادہ بچے زیر تعلیم ہیں۔گزشتہ تیس سالوں میں بالخصوص ملک کے سرکاری سکول ،کالجز کا معیار اتنا خراب کر دیا گیا کہ عوام اپنے بچوں کو پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں پڑہانے کا بڑا معاشی بوجھ اٹھانے پر مجبور ہیں ۔یہ بات اہم اوردلچسپ ہے کہ پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں کوالیفیائیڈ اساتذہ بہت کم ہیں جبکہ سرکاری تعلیمی اداروں میں کوالیفائیڈ ٹیچرز ہیں، لیکن اس کے باوجود سرکاری تعلیمی ادارے معیار کے لحاظ سے کمتر اور پرائیویٹ تعلیمی ادارے بہتر سمجھے جاتے ہیں۔یوں یہ فرق ایڈ منسٹریشن کا نظرآتا ہے۔ سرکاری تعلیمی اداروں کی ناقص ایڈ منسٹریشن نے انہیں معیار کے نام سے بدنام کر رکھا ہے جبکہ پرائیویٹ تعلیمی ادارے اچھی ایڈ منسٹریشن کے ذریعے نان کوالیفائیڈ ٹیچرز سے بھی بہتر نتائج حاصل کر لیتے ہیں۔ اگر پاکستان میں یہ سرکاری حکم جاری کر دیا جائے کہ تمام سرکاری اہلکاران،افسران اپنے بچوں کو سرکاری تعلیمی اداروں میں پڑھانے کے پابند ہوں گے تو دنوں میں ہی ملک کے سرکاری تعلیمی اداروں کا ماحول اورمعیار بہترین ہو جائے گا۔

اب ملک میں سکول کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم دولت سے مشروط ہو چکی ہے۔اگر والدین کے پاس بچوں کی تعلیم کے لئے لاکھوں روپے ہوں گے تو ہی وہ اپنے بچوں کو تعلیم دلا سکتے ہیں۔پاکستان جیسے ملک، جہاں آبادی کا بڑا حصہ بنیادی سہولیات سے محروم ہو،وہاں نظام تعلیم کوحصول دولت کا ایک بڑا ذریعہ بنانے سے ملک کی طباقاتی تقسیم مزید مضبوط ہوتی ہے،عوام بدستور کمتری کے مقام اور خواص بالاتر ہی رہتے ہیں۔جب ملک میں حاکمیت کا توازن ہی درست نہ ہو، طاقت، دھونس اور سازشوں کی بنیاد پر اقتدار و حاکمیت کے فیصلے ہوں،جہاں اقتصادی،معاشی،سیاسی،حکومتی فیصلوں پر عوام کا اختیار نہ ہو،جہاں عقل و شعور کو مغلوب رکھے جانے کی فکر لاحق ہو،اس ملک کے معیار تعلیم تو کیا، کسی بھی شعبے میں بہتری کا خواب بھی نہیں دیکھا جا سکتا۔

Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 770 Articles with 612263 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More