آپ نے یہ تو سنا ہی ہوگا کہ کچھ روز قبل عمران خان نے
خطاب کے دوران مدینہ کی ریاست کا تصور پیش کیا تھا ۔ جس کے بعد بہت سی
مخالف پارٹیوں نے اسکو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا تو وہیں دوسری طرف
معروف عالم دین مولانا طارق جمیل نے اس حوالے سے عمران خان کو سراہا بھی
اور کہا کہ مدینہ کی ریاست کا تصور پیش کرنے پر عمران خان کو سلام ہے ۔اور
کہا کہ حکمرانوں کی نیت کے اچھے یا بُرے ہونے سے ملک پہ اثر پڑتا ہے ۔
|
|
ریاست مدینہ :
واضع رہے کہ مدینہ مسلمانوں کے لیے مقدس ترین جگہوں میں سے ایک ہے ۔ مدینہ
کی عقیدت ہر مسلمان کے دل میں موجود ہے ۔ رسول اکرم ؐ کی قائم کردہ اس
ریاست میں سے روحانی اور مادی اعتبار سے پوری دنیا کی رہنمائی کا فریضہ
بہترین طریقے سے انجام دیا۔ مدینہ ایک زرعی معاشرہ تھا اور اس کے نظام کو
بہتر بنانے کی ضرورت تھی اور سماجی تبدیلی لانی تھی اس وجہ سے وہاں کچھ
قوانین بنائے گئے جن میں عدل و انصاف ،غلاموں کے حقوق ،مساوات و اخوت ،سودی
معشیت کا خاتمہ ، حیاء اور پردے کا فروغ ، ریاست کا دفاع شامل ہیں ۔ ریاست
مدینہ میں ان اوصاف کے ساتھ ساتھ بہت سے دیگر اعلیٰ اوصاف بھی پائے جاتے
تھے ۔
پاکستان کا دورہِ حاضر :
چونکہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے اور یہاں کے قوانین بھی اسلامی ہیں اور
یہاں بھی معاشرتی تبدیلی کی ضرورت ہے تو حکومت پاکستان کی جانب سے مدینہ کی
ریاست کا تصور پیش کرنے پر اور اس طریقہ کار کو پاکستان میں استعمال کرنے
سے معاشرتی تبدیلی رونما ہوگی اور پاکستان ترقی کی جانب گامزن ہوگا ۔
پاکستان اسلامی ملک ہونے کے باوجود اب ایک سیکولرازم نظام پر رائج ہوتا
جارہا ہے جسکی وجہ سے یہاں بسنے والے لوگ ماڈرن خیالات کا چناؤ کر رہے ہیں
۔ لوگوں کی سوچ تبدیل ہورہی ہے جس کے بعض وہ اپنے مذہب کو کہیں پیچھے
چھوڑتے جارہے ہیں ۔ جس سے وہ نہ صرف مذہب سے دور ہوتے جارہے ہیں بلکہ ان کا
روئیہ بھی تبدیل ہوتا جارہا ہے ۔ یہ بات بولی جائے تو غلط نہ ہوگی کہ جب یہ
ملک مدینہ کی ریاست کے عین مطابق چلے گا تو یہاں معاشرتی فلاح وبہبود پروان
چڑھے گی ۔ جس سے پاکستان کا نظام بہتر ہوجائے گا خواہ وہ تعلیمی نظام ہو ،
قانوںی نظام ہو یا معاشی مسائل ہو ۔پاکستان ترقی کی جانب گامزن ہوگا اور
اسکا شمار بھی ایک ترقی یافتہ ممالک میں ہوگا ۔
|
|
قصہ مختصر :
اگر ہمارے سیاسی اور مذہبی رہنما پاکستان کو حقیقی معنوں میں مدینہ کی
ریاست کے نقش قدم پہ چلانا چاہتے ہیں تو انکو ریاست مدینہ میں پاںے جانے
والے مذکورہ بالا اوصاف پر ضرور غور کرنا چاہیے ۔فقط ایک یا دو اجزاء کے
نفاذ سے یہ سمجھنا کہ ریاست مدینہ کا ماڈل مکمل ہوگیا ہے درست نہیں ہوگا۔
|