بسنت

آجکل آئے روز نت نئے فتنے جنم لے رہے ہیں اور پر فتن دور چل رہا ہے جہاں اپنے آپ کو برائیوں سے بچاکر نیکی طرف لا نا ہو گا جس کیلئے اﷲ اور ا سکے رسول ؐ کے احکامات پر عمل کر نا ہو گا ،جن کاموں سے پیارے نبی نے منع کیا ان سے رک جا نا چاہیئے اور جن کاموں کا حکم دیا ان پر عمل کر نا چاہیے،لیکن آج اس گئے گزرے جدت کے بڑے دور میں اسلامی تعلیمات سے ہما ری نو جوان نسل دور ہو تی چلی جا رہی ہے ،سوشل میڈیا و دیگر ابلاغ انٹر نیٹ نے نوجوان نسل کے ذہنوں میں ذہر گھول کر رکھ دیا ہے اس کے ساتھ ساتھ دیگر رسومات جو ہندوآنہ رسمیں ہیں جو ہمارے معاشرے میں تیزی سے پھیلتی جا رہی ہیں جس کی در اصل بنیادی وجہ دین سے دوری ہے ،ان رسموں میں ویلنٹائن ڈے بسنت اور ہماری شادی بیاہ کی تقریبات میں بھی یہ تمام رسمیں عروج پکڑے ہو ئے ہیں، بسنت بھی غیر مسلموں کی رسم ہے یہاں پر اس حقیقت کا انکشاف ہوگا کہ ہندؤوں کی رسم ہے۔اس کا آغاز کیسے ہوا؟ مسلمانوں میں کیسے شروع ہوئی؟ اور علماء وفقہا اس کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟اور اس غیر اسلامی رسم کو منانے کے نقصانات کیا ہیں؟اس غیر اسلامی رسم کو پاکستان میں بڑے جوش وخروش سے منایا جاتا ہے۔ہمارا الیکٹرانک میڈیا اس کو بڑی کوریج دیتا ہے۔اور ہمارے حکمران چہ جائیکہ اس خبیث رسم کو ختم کریں الٹااس کو سرکاری طور پر منانے کی تیاریاں کی جاتی ہیں بے پردگی بے حیائی عام ہوتی ہے۔ ویلنٹائن ڈے کی طرح اس میں بھی عورتوں اور مردوں کا عام اختلاط ہوتا ہے۔

جیسے ہی موسم بہار کا آغاز ہوتا ہے۔ ہرطرف بو کاٹا کی صدائیں بلند ہو جاتی ہیں اسکے ساتھ ساتھ محبوبوں کا دن ویلنٹائن ڈے بھی بہار میں بھی منایا جاتا ہے۔ہر طرف بدتمیزی عام ہوتی ہے۔لوگ جوش وخروش سے اس کو منانے کیلئے ملک پاکستان سے بلکہ پوری دنیا سے لوگ پاکستان کے دل لاہور شہر میں جمع ہوتے ہیں۔ہوٹل بک کئیے جاتے ہیں مکانات کی چھتیں بک ہوتی ہیں۔رات کے وقت لائٹنگ اور ساؤنڈ سپیکر لگا کر اونچی آوازوں سے شرفاء کا جینا دو بھرکر دیتے ہیں پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا اس کو بہت زیادہ کوریج دیتا ہے دوسرے الفاظ میں بسنت منانے والوں کو زندہ دلانے لاہور کہا جاتا ہے۔

پہلے پہل اس رسم یعنی بسنت کا آغاز ہندوستان کے مشہور صوبوں اتر پردیش اور پنجاب میں ہوا۔پھر یہ لاہورمیں گستاخِ رسول ہندو کوجہنم واصل کرنے کے بعد اس کی یاد میں ہندوں نے اس کو منایا حدیثِ نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم ہے مَن تَشبَہَ بِقَوم فَھُوَمِنْہُمْ (داؤدشریف)فرمایا کہ جوکوئی کسی قوم سے مشابہت اختیار کرتا ہے تو وہ انہیں میں سے ہے افسوس کہ ہم بسنت منا کر ایک گستاخِ رسول کی یاد مناتے ہیں۔اس حدیث کو مدِنظررکھ کر اپنا انجام خود ہی سوچنا ہوگا۔ مشہور و معروف عوامی شاعر نظیر اکبر آبادی نے اپنی شہرہ آفاق کتاب'کلیاتِ نظیر آکبر آبادی'کے صفحہ نمبر 413میں تقریباتِ اہل ہنود کے عنوان سے بسنت کے موضوع پر لکھتے ہوئے اس کو ہندوانہ تہوار قرار دیا ہے۔ اسی طرح ایک ہندو منشی رام پر شاد ماتھر ہیڈ ما سٹر آف گورنمنٹ ہائی سکول پنشز اپنی کتاب 'ہندو تیو ہاروں کی دلچسب اصلیت 'میں رقم کرتا ہے۔کہ بسنت پنچمی اب فصل کے بارآور ہو نیکا اطمینان ہو چلا کچھ عرصہ میں کلیاں کھل کر تمام کھیت کی سبزی زردی میں تبدیل ہونے لگی۔ اسلئے کا شتکار کے دل میں قدرتی امنگ اور خوشی پید ا ہوتی ہے اور وہ ماگھ کے آخر ہفتہ میں بسنت پنچمی کے روز زرد پھولوں کو خوش خوش گھر لا کر بیوی بچوں کو دکھاتا ہے اور پھر سب ملکر بسنت کا تہوار مناتے ہیں۔ پھر زرد پھول اپنے کانوں میں بطور زیور لگا کر خدا سے دعا کرتے ہیں کہ اے پرماتما ہماری محنت کا پھل عطا کر اور پھولے ہوئے درختوں میں پھل پیدا کر۔ پھر لکھتا ہے کہ بسنت پنچمی کو وشنو بھگوان کا پوجن ہوتا ہے (ہندو تیوہاروں کی دلچسپ اصلیت، منشی رام پرشاد،مطبوعہ دی فائن پریس لکھنؤ1942ء)میرے مسلمان بھائیو:اس ہندو کی تحریر سے بھی ثابت ہو گیا کہ بسنت اہل ہنود کا تہوار ہے لہٰذا میرے بھائی یہ دیکھ کہ مسلمان مصنفین نے تو اسے اہل ہنود کا تہوار قرار دیا ہے مگر دیکھ اس ہندو مصنف نے بھی یہ ظاہر کر دیا ہے کہ بسنت اہل ہنود کا تہوار ہے۔ میرے بھائی ذرا سوچ تو ان کا تہوار مناتا ہے۔ جو کہ مسلمانوں پر حملہ کرتے ہیں۔ تو ان کا تہوار مناتا ہے جو کہ تیرے معاشی دشمن، مذہبی دشمن، معاشرتی دشمن، ثقافتی دشمن ہیں۔ کیا کبھی انہوں نے مسلمانوں کے تہوار بھی منائے ہیں۔ ایک سکھ مؤرخ ڈاکٹر بی۔ ایس نجار نے اپنی کتاب 'پنجاب آخری فعل دورحکومت میں ' کے صفحہ نمبر 279میں لکھتا ہے کہ' 'پنجاب کا بسنت میلہ اس گستاخ ِرسول اور گستاخ اہل بیت (حقیقت رائے) ہندو کی یاد میں منایا جاتا ہے،اب سکھ مؤرخ کی کتاب سے بھی یہ ثابت ہو گیا ہے کہ بسنت کا تہوار مسلمانوں کا نہیں بلکہ اہل ہنود کا تہوار ہے جو وہ اس گستاخ رسول کی یاد میں مناتے ہیں۔ اب عاشقانِ رسول۔ نبی کے نام لیوا۔ نبی کا کلمہ پڑھنے والوں کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ ان اہل ہنود کے تہوار کو منا کر اپنی عاقبت خراب کریں۔ انہیں زیب نہیں دیتا کہ وہ ایک گستاخ کی یاد منا کر اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنائیں۔ ان کا موں سے شیطان خوش ہو رہاہے رحمان ناراض ہو رہا ہے۔ مسلمانوں میں حیاء و شرم ختم ہو رہی ہے۔ میرے بھائیوں ابھی بھی وقت ہے کہ تم اپنے آپ کو ان تہواروں سے بچاؤ۔لہٰذا ہمیں چاہئے کہ ہم نیکی کو فروغ دیں اور برائی کا قلع قمع کرتے ہوئے برے رسم و رواج ثقافت، تہواروں کا ختم کریں۔ تاکہ قیامت والے دن ہم کامیاب لوگوں میں شامل ہوں ا ور سرور دوجہاں۔ امام الانبیاء صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کے سامنے شرمندہ نہ ہوں۔ خدا ہمیں برائی سے بچنے کی توفیق دے۔ آمین ثم آمین

Salman Usmani
About the Author: Salman Usmani Read More Articles by Salman Usmani: 182 Articles with 159833 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.