زمانہ کس تیز رفتاری سے ترقی کر
رہا ہے۔ ہر طرف ہر ملک میں ترقی کی راہیں ہموار کی جا رہی ہیں۔ ترقی یافتہ
ممالک میں ہر طبقے اور ہر عمر کے افراد کے لئے خاص ادارے اور ماحول ہیں
جہاں وہ اپنی زندگی کو اپنی فطرت اور ضرورت کے مطابق گزار سکتے ہیں۔ انسان
کی یہ بد قسمتی رہی ہے کہ ہر معاشرے میں جب کوئی شخص عمر کے اس حصے میں
پہنچ جاتا ہے جب اسے زندگی گزارنے کے لئے کسی دوسرے کا سہارہ چاہیے ہوتا ہے
تو عین اس مصیبت کے دور میں اس کے اپنے قریبی لوگ اس کو بے یارو مددگار
چھوڑ دیتے ہیں۔ اس کے دوست بھی اسی دور کا سامنا کر رہے ہوتے ہیں لہٰذا اس
کی مدد کرنے والے اور اس کا غم بانٹنے والے دنیا میں ختم ہو جاتے ہیں اور
پھر اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ خدا کے سہارے زندگی گزار رہا ہے۔ ان کے
کیا کیا مسائل ہیں اس سے تو کوئی بھی انجان نہیں۔ برسوں سے ان کے مسائل کا
رونا ہر پلیٹ فارم اور ہر اس جگہ پر رویا گیا جہاں امید تھی کہ ان مسائل کا
تدارک ہو گا مگر آج کی حالت دیکھ کر لگتا ہے کہ انسان نے اس فیلڈ میں کوئی
خاص تیر نہیں مارا ہے۔ ہاں اگر ہم ترقی یافتہ ممالک کی بات کر رہے ہیں تو
وہاں کم از کم ان بوڑھے لاچار لوگوں کے لئے اتنا تو انتظام کر دیا گیا ہے
کہ ‘‘اولڈ ایج ہوم‘‘ نام کا ایک ادارہ ایسے افراد کے لئے تشکیل دیا گیا ہے
جو کہ معاشرے میں بالکل تنہا عمر کے آخری حصے میں بے یارو مدد گار زندگی
گزار رہے ہیں۔
اگر میں کہوں کہ پاکستان میں بھی ایک ادارہ اولڈ ایج ہوم کی طرح کا ہونا
ضروری ہے تو ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگوں کو یہ بات ہضم نہ ہو۔ کیونکہ ہم لوگ
گناہ تو کر لیتے ہیں مگر جب ہمارے گناہوں کو ہماری نظروں کے سامنے لایا
جاتا ہے تو ہم چیخنے چلانے لگ پڑتے ہیں۔ پاکستانی لوگ اور پاکستانی معاشرہ
اس بات کو قطعی ناپسند کرے گا کہ بڑھاپے میں ان کے ماںباپ کو کسی ادارے کے
سپرد کرکے ان سے اپنی جان چھڑا لی جائے۔ کیونکہ ہم عزت دار اور مہذب لوگ
ہیں۔۔
مگر ایک سوال ذہن میں آتا ہے کہ اگر ہم اتنے ہی عزت دار اور مہذب لوگ ہیں
تو پھر گلی گلی اور گھر گھر میں ہمیں بوڑھے ماںباپ تضحیک و توہین کے مناظر
کیوں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ آج ہم اپنی زندگی کے کتنے فیصلے ان کے رائے لیکر
کرتے ہیں۔ گھر میں ایک علیحدہ کمرہ دیکر اور کھانا کھلا کر کیا ہم اپنے
سارے فرائض سے نبرد آزما ہو جاتے ہیں۔
میں یہ نہیں کہتا کہ ہم سب لوگ ہی اس طرح کرتے ہیں ۔اللہ نہ کرے کہ ہمارا
ملک اور ہماری تہذیب اس نہج پر پہنچے۔ مگر یہ بات تو ہمیں ماننا ہی پڑے گی
کہ ہمارے معاشرے میں بہت سے بوڑھے اور لاچار لوگ ہیں جنہیں حکومتی سرپرستی
کی ضرورت ہے۔
کچھ ادارے اس ضمن میں کام کر بھی رہے ہیں مگر میرانہیں خیال کہ ان کا کام
اس سطح پر ہو رہا ہے کہ ہمارے ملک کا ہر ضرورت مند اس سے فائدہ اٹھا
سکے۔۔۔۔۔۔ |