دنیا میں جہاں بہت سی دوسری
سیاسی و معاشرتی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں وہیں موسمی تغیر و تبدل اور
ماحولیاتی تبدیلیاں بھی معاشروں پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ قدرتی وسائل کی
موجودگی اور مقدار معاشروں کی ضروریات اور فرائض میں بھی اتار چڑھاؤ کا
باعث بن جاتی ہیں۔
پانی خدا کی عطا کردہ نعمتوں میں سے وہ نعمت ہے جس پر زندگی کی بنیاد ہے۔
ابتدائی انسانی تہذیبوں کی بنیاد ہراس جگہ پڑی جہاں پانی موجود تھا۔ دریاؤں
کے کنارے یا چشموں اور نخلستانوں کے اردگرد آبادیاں بڑی بڑی تہذیبوں کا پیش
خیمہ بنیں اور آج بھی پانی کی فراوانی اور درست استعمال قوموں کی ترقی میں
انتہائی اہم ہیں۔ اگر پانی وافر ہے تو ہی زرعی خود کفالت کی منزل طے ہوسکتی
ہے۔
ایک زرعی ملک ہونے کے ناطے پاکستان کیلئے پانی کی اہمیت بہت زیادہ ہے اور
یہ بہت ضروری ہے کہ موجود ذخائر ِآب کو انتہائی سوچ سمجھ کر اور سمجھداری
سے استعمال کیا جائے۔ لیکن دیگر قومی معاملات کی طرح ہم اس معاملے میں بھی
غفلت برت رہے ہیں۔ 1992میں پاکستان کو پانی کی کمی کا شکار ملک قرار دیا
گیا اور 2003میں اسے عالمی بینک کی طرف سےWater Stressممالک میں شامل کیا
گیا لیکن اس ساری صورت ِ حال کے باوجود بھی نہ تو ملک میں پانی کا ضیاع
روکنے کی کوشش کی گئی نہ آبی ذخائر بنا کر پانی محفوظ کرنے کی ۔
ڈیمز بنانے کو سیاست کی نذر کیا جا رہا ہے اور لگتا یوں ہے کہ پورے ملک میں
ڈیموں کی تعمیر کو کالا باغ کی تعمیر سے مشروط کر دیا گیا ہے یعنی جب تک
کالا باغ نہ بنے تب تک دوسرے ڈیموں کی تعمیر پر بھی کام شروع نہیں کیا جائے
گا۔ کالاباغ کی اہمیت اپنی جگہ لیکن جن دوسرے مقامات پر ہم پانی کے ذخیرے
بنا سکتے ہیں ان پر تو کام شروع کر دیا جائے اور اس سے پہلے کہ ہم
خدانخواستہ پانی کی بوند بوند کو ترسیں ہماری ضرورت کے مطابق پانی کا
بندوبست اور انتظام ضروری ہے۔
اس وقت پاکستان میں فی کس موجود پانی 1000مکعب میٹر سے کچھ زیادہ ہے جبکہ
یہی مقدار سال 2000میں 2961مکعب میٹر تھی اگر دس سال میں پانی کی مقدار تین
گنا کم ہوگئی ہے تو آنے والے سالوں کا اندازہ بخوبی کیا جاسکتا ہے اور جبکہ
اس وقت بھی پاکستان پانی کی کمی کے شدید ترین دباؤ کے شکار ممالک میں شامل
ہے۔
اس صورت حال میں اگرچہ بھارت کا ایک بہت بڑا حصہ ہے جس نے ہمارے حصے کے
دریاؤں پر ڈیم بنا کر ہمارا پانی روکا اور ان دریاؤں کو یا تو پاکستان
پہنچنے سے خشک کر دیا یا اسے ندیوں میں بدل دیا جس نے ان پر انحصار کرنے
والے علاقوں کو بنجر کر دیا۔ بھارت کے ساتھ تو ہمیں اپنا مقدمہ لڑتے ہی
رہنا ہے اور بین الاقوامی سطح پر بھارت کی اس چوری اور جرم کو اجاگر بھی
کرنا ہے اور اپنا حق بھی لینا ہے لیکن ساتھ ہی ہمیں موجود اور مہیا آبی
وسائل کو بہتر انداز میں اور احتیاط سے استعمال میں لانا ہوگا۔
اس وقت ہمارے آبی وسائل میں گلیشئرز اور مون سون کی بارشیں اہم کردار ادا
کرتی ہیں۔ سندھ اور اس کے معاون دریاؤں کا سالانہ بہاؤ 141.67ملین ایکڑ فٹ
ہے جس میں سے 106ملین ایکڑ یعنی 97%زرعی اور بقیہ 3%گھریلو اور صنعتی مقاصد
کیلئے استعمال ہوتا ہے۔زراعت میں استعمال ہونے والے پانی میں سے تقریباً
50%پانی کھیتوں تک پہنچنے سے پہلے یا تو زمین میں جذب ہو کر یا زمین پر
پھیل کر ضائع ہو جاتا ہے۔ کچھ ہمارے یہاں آبپاشی اس بیدردی سے کی جاتی ہے
کہ چاہے ضرورت سے زیادہ پانی کھیتوں کو دیا جائے اپنے حصے کے وقت تک پانی
دیا ہی جاتا ہے جو نہ صرف فصل کو متاثر کرتا ہے بلکہ وہ پانی جو پاکستان کی
آنے والی نسلوں کیلئے بھی بہت ہی اہم اور قیمتی ہے ضائع کر دیا جاتا ہے۔ اس
وقت بھی پاکستان کا نہری نظام دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام ہے اور ہمارے
قابلِ کاشت 34ملین ہیکٹر اراضی میں سے 16ملین ہیکٹر کو سیراب کرتا ہے اور
یہی زراعت ہماری سالانہ آمدنی کا 25%حصہ بناتی ہے لیکن اس نہری نظام کو
جدید بنانا اب وقت کا تقاضا اور ہماری ضرورت ہے اگرچہ کئی نہروں کو پختہ تو
کر دیا جاتا ہے لیکن بعد میں اس کی مناسب دیکھ بھال نہیں کی جاتی اور سالہا
سال تک اسے ایک ہی حالت میں رہنے دیا جاتا ہے اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار یہ
نہریں پھر بے تحاشا پانی جذب کر کے ضائع کر دیتی ہیں جبکہ ان نہروں سے
نکلنے والی ندیاں اور نالے اکثر کچے ہوتے ہیں اور اگر یہ ندی نالے آبادیوں
سے گزریں تو ان میں گند پھینک کر انہیں اس قدر بھر دیا جاتا ہے کہ بہت سارا
پانی کھیتوں تک پہنچنے کی بجائے راستے میں ہی ضائع ہوجاتا ہے۔ یوں ہم پانی
ضائع بھی کر رہے ہیں اور پانی کے ذخائر بنا بھی نہیں رہے۔ جبکہ ہماری آبادی
جس تیزی سے بڑھ رہی ہے ہماری ضروریات بھی بڑھ رہی ہے اور ماضی کے مقابلے یہ
استعمال تین گنا بڑھ چکا ہے۔
بین الاقوامی معیار کے مطابق اگر کسی ملک میں سالانہ فی کس 1700مکعب میٹر
پانی موجود نہ ہو تو اسے پانی کی کمی کے دباؤ کا شکار ملک سمجھا جاتا ہے
جبکہ پاکستان میں یہ مقدار 1000مکعب میٹر ہے اسی سے مسئلہ کی سنگینی کا
اندازہ لگایا جاسکتا ہے لیکن ہم زرعی سے لے کر گھریلو اور صنعتی ہر سطح پر
پانی ضائع کر رہے ہیں۔ گھریلو استعمال کیلئے پانی کی انتہائی کمی کے باوجود
اسے صفائی بلکہ بے جا صفائی کے نام پر ضائع کیا جاتا ہے۔ آبپاشی کے جدید
طریقے نہیں اپنائے جارہے جبکہ اس سلسلے میں کسانوں کو آگاہ کرنا انتہائی
ضروری ہے۔ حکومت کو ہر قیمت پر اورہر مناسب مقام پر ڈیم بنا دینا چاہیئے۔
چھوٹے چھوٹے یہ آبی ذخائر نہ صرف ہماری آبی ضروریات کو پورا کرنے میں مدد
کریں گے بلکہ ہماری توانائی کی ضروریات بھی پوری کرنے میں معاون ثابت ہو
سکتے ہیں۔ ہمیں میڈیا اور ہر دوسرے ذریعے قوم کو اس حقیقت سے آگاہ کرنا
ہوگا کہ ہم نے پانی کی کمی پر قابو پانے کی کوشش نہ کی تو ہمارا ملک صحرا
میں تبدیل ہو سکتا ہے اور ہمیں اس ناخوشگوار عمل کو ہمیں ہر صورت اور ہر
قیمت پر روکنا ہوگا۔ |