بلدیاتی ،سماجی ، ادبی و صحافتی تنظیموں میں انتخابات

کراچی کی سیاسی ، سماجی و صحافتی سرگرمیوں میں گرما گرمی رواں ہفتے بھی جاری رہیں ۔ سندھ کے کراچی سمیت دیگر اضلاع کی 65نشستوں پر 23دسمبر کو ضمنی بلدیاتی انتخاب ہوئے ۔کراچی کے 6اضلاع میں چیئرمین ، وائس چیئرمین اور کونسلرز کی نشستوں پر انتخاب ہوئے۔ ان میں 4نشستیں رکن سندھ اسمبلی بننے والوں نے خالی کیں تھی۔ تاہم ضمنی انتخاب سے قبل منتخب ہونے والے بلدیاتی نمائندے اختیارات اور فنڈ کی کمی و عدم دستیابی و موجودہ بلدیاتی نظام پر تحفظات کا اظہار کرتے نظر آئے ۔ حکومت کو بلدیات میں اختیارات و فنڈ دینے کی بھی ضرورت ہے ۔ کیونکہ نچلی سطح پر عوام ان ہی منتخب نمائندوں سے رابطہ کرتے ہیں ۔ اگر ان کے پاس اختیارات ہی نہ ہوں تو بلدیاتی انتخابات کا مقصد فوت ہوجاتا ہے ۔

رواں ہفتے سماجی ، ادبی و صحافتی تنظیموں کے انتخابات بھی ہوئے۔ وکلا برادری کے سالانہ انتخابات نے سٹی کورٹ کے ماحول کو تبدیل کردیا اور کراچی بار ایسوسی ایشن میں حصہ لینے والے امیدواران نے سٹی کورٹ کو کسی سیاسی جلسے گاہ کی طرح سجا یا دیاتھا ۔ وکلا ء عمومی طور پر سیاسی بنیادوں پر عہدے دارکامیاب ہوتے ہیں۔ سیاسی عمل دخل سے غیر جانب داری کا تاثر زائل ہوتا ہے ۔ ایسوسی ایشنز کو سیاسی اثر نفوذ سے دور رہنا چاہیے ۔امیدواروں کے سپورٹرز ہاتھوں میں وکلا ء کو ہینڈ بل اور کارڈ تقسیم کرتے سرگرم نظر آتے ہیں۔ کراچی بار ایسوسی ایشن (کے بی اے) کے سالانہ انتخابات میں ساڑھے پانچ ہزار سے زائد وکلا ووٹرز اپنے نمائندوں کا انتخاب کیا۔تاہم انتخابات کے بعد امیدواروں کے کارڈ سڑکوں پر پیروں تلے آتے رہے اس سے اچھا تاثر نہیں کیا گیا ۔ امیدواران ، ووٹرز کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ انتخابات کے بعد تمام ہینڈبل اور کارڈ محفوظ طریقے رکھ یا تلف کردیئے جائیں۔

کراچی آرٹس کونسل میں بھی نتخابات منعقد ہو ئے۔23 دسمبر بروز اتوار فنون لطیفہ سے وابستہ شخصیات انتخابی عمل میں شریک ہوکر فضا کو خوشگوار بنا دیتے ہیں۔ تاہم دیکھا گیا ہے کہ آرٹس کونسل میں سیاسی جماعتوں کا عمل دخل غیر معمولی حد تک بڑھتا نظر آتا ہے۔ اس کی وجہ ادبی پینلز اپنی حمایت کے لئے مختلف سیاسی جماعتوں کی حمایت لینے کے رجحان میں اضافہ ہے۔ سیاسی جماعتوں کی مداخلت کی وجہ سے آرٹس کونسل کے انتخابات میں سیاسی وابستگی کا اثر نمایاں طورپر دیکھا جاتاہے۔آرٹس کونسل کے آئندہ دو سال برائے 2019-2020 ء کی 17 نشستوں کے لئے کل 64 امیدواروں نے کاغدات نامزدگی جمع کرائے گئے تھے۔ رکنیت سازی کے حوالے سے کراچی آرٹس کونسل میں بھی تحفظات پائے جاتے ہیں اور ہر الیکشن کے بعد سیاسی مداخلت و مبینہ بدعنوانی کے الزامات عاید کرنا بھی روایت بنتا جارہا ہے۔
کراچی پریس کلب صحافت کی تاریخی پہچان رکھتا ہے ۔ کے پی سی میں گزشتہ کئی ہفتوں سے نئے اراکین کی رکنیت کے حوالے سے کچھ جرنلسٹ سوشل میڈیا میں اپنے تحفظات کا اظہار کررہے ہیں اور کراچی پریس کلب میں رکنیت سازی کے عمل پر عدم اطمینان کا اظہار اور اسکروٹنی کا مطالبہ کررہے ہیں ، ان اراکین کے مطابق انہیں دانستہ طور پر کراچی پریس کلب کی رکنیت سے محروم رکھا جا رہا ہے اور ایسے افراد کو بھی کلب کا ممبر بنایا گیا ہے جن کا عامل صحافت سے براہ راست واسطہ نہیں ہے۔ راقم کے استفسار پر متعدد سنیئر صحافی و رہنماؤں کا کہناتھا کہ ہر الیکشن کے بعد اس قسم کی آوازیں اٹھتی ہیں ۔ ان کے مطابق احتجاج ان کا حق ہے لیکن اخلاقی حدود اور لفظوں کا درست انتخاب اور پریس کلب کے تقدس کو پامال کرنا مناسب عمل نہیں ہے۔ کچھ صحافیوں پر کے پی سی میں داخلے پر پابندی بھی اسی لئے لگائی گئی کیونکہ ان کی شکایات آئیں اور خالقدینا ہال میں جس قسم کے لفظوں کا انتخاب کیا گیا اس پر کراچی پریس کلب کو حق حاصل تھا کہ وہ مناسب کاروائی کرے۔ بدقسمتی سے کئی گروپ جو ایک دوسرے پر اقربا پروری کے ساتھ ساتھ مخصوص سیاسی جماعتوں کے ساتھ وابستگی کا الزام بھی لگاتے رہتے ہیں۔ تحفظات کا اظہار کرنے والے صحافیوں نے سندھ اسمبلی سمیت کئی جگہوں پر احتجاجی مظاہرہ بھی کیا اور سوشل میڈیا میں کراچی پریس کلب کی رکنیت سازی اور موجودہ ممبران کی سیاسی وابستگیوں کے حوالے سے مقتدر حلقوں سے اسکروٹنی کا مطالبہ تواتر سے کیا جارہا ہے۔ اس حوالے سے احتجاج کا سلسلہ جاری ہے ۔صحافی کا غیر جانبدار رہنا ان کے پیشے کا تقاضا ہے۔ علاوہ ازیں اخلاقی حدود میں احتجاج اور تحفظات کو قانونی دائر ے میں رکھنا سب کے لئے بہتر ہے۔ صحافیوں کے حقوق کے لئے آواز مقتدر حلقوں تک پہنچانے کی ذمے داری صحافتی تنظیموں پر بھی عائد ہو تی ہے ۔ اگر ان میں گروپ بندی یا مخصوص لابی رہیں گی تو اس سے صحافی برداری کی مشکلات میں اضافہ ہوگا ۔

10برس کے وقفے کے بعد کرائم رپورٹرز ایسوسی ایشن کے سالانہ انتخابات 22 دسمبر 2018 بروز ہفتہ کراچی پریس کلب میں منعقد ہوئے۔ 2008میں کرائم رپورٹرز ایسوسی ایشن کی بنیاد رکھ کر ایڈ ہاک کمیٹی بنائی گئی تھی ۔ کرائم رپورٹرز ایسوسی ایشن یقیناََ اُن معاملات کا خیال رکھے گی جس سے منفی اختلاف پیدا ہو اور اراکین کے مسائل کے حل کے لئے موثر و بھرپور انداز میں بلا امتیاز سیاست سے بالاتر ہوکر اپنی پہچان کو رول ماڈل بنائے گی۔ گو کہ ناگزیر وجوہات کی بنا پر دس برس بعد انتخابی عمل ہورہا ہے لیکن اس بات کی توقع کی جاسکتی ہے رکنیت سازی میں اضافے ساتھ یہ سلسلہ جاری رہے گا اور ایڈہاک ازم کا دوبارہ شکار نہیں ہوگا ۔

کراچی ایکسپو سینیٹر میں ملک کے سب سے بڑے بین الاقوامی کتب میلے کاانعقاد کیا ہے۔ میلہ 21دسمبرسے شروع ہوکر25دسمبرتک جاری رہے گا، میلے میں 1330اسٹالز لگائے گئے،ان میں غیرممالک کے اسٹالزبھی شامل ہیں جن میں برطانیہ، ترکی چین، ملائیشیاء، نیوزی لینڈ،جرمنی، انڈیا اورسنگاپورشامل ہیں۔ کتب میلے کے پانچ دن میں پانچ لاکھ لوگ شرکت کرتے ہیں، میلے میں 140انٹرنیشنل وزیٹرزاور پاکستان سے 110وزیٹرزشرکت کررہے ہیں ، پاکستان دنیا کی سب سے بڑی مارکیٹوں میں سے ہر ایک کی کتابوں کے پبلشروں کے لئے میزبانی کرتا ہے۔ ہر سال ’’ بین الاقوامی کتب میلے ‘‘نے شہریوں اور ملک کے سب سے بڑے تجارتی حب میں محبت کرنے والوں کو کتاب دینے کے لئے خصوصی موقع فراہم کیاہے. یہ بین الاقوامی بک پبلشرز کے لئے ایک پلیٹ فارم بھی فراہم کرتا ہے جو پاکستان کی صنعت کاروں کے ماہرین سے ملنے اور اس اعلی ممکنہ مارکیٹ میں کاروباری امکانات کو تلاش کرنے معاونت فراہم کرتا ہے۔دنیا اس وقت دیجیٹل گوبل ویلج میں تبدیل ہوچکی ہے اور انٹرنیٹ کی فراونی اورکتب بینی کے رجحان میں نوجوانوں کی کمی واضح طور پر محسوس کی جاسکتی ہے۔ ان حالات میں کراچی جیسے شہر میں عالمی کتب میلے کا تواتر سے انعقاد صحت مندانہ رجحان کی نشان دہی کرتا ہے۔ کراچی سمیت ملک بھر کے نوجوانوں اور تعلیم و تربیت سے وابستہ افراد و اداروں کو کتب بینی کی جانب رغیبت دلانے کے لئے اہم کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے اس سلسلے میں عالمی کتب میلے کی کوششیں قابل تعریف ہیں۔تاہم عالمی کتب میلے کو اُن علاقوں میں بھی لے جانے کی ضرورت ہے جو شدت پسندی سے متاثر ہوئے ہیں۔ عالمی کتب میلے میں اردو زبان پر مشتمل علمی خزانہ وافر دستیاب ہوتا ہے جس سے علم و ادب سے شغف رکھنے والے احباب بھرپور استفادہ حاصل کرسکتے ہیں۔
 

Qadir Khan Yousuf Zai
About the Author: Qadir Khan Yousuf Zai Read More Articles by Qadir Khan Yousuf Zai: 399 Articles with 263386 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.