مذہبی تقریبات کے نمائشی پہلو اور فضول خرچی کی مسابقتی معرکہ آرائی : لمحہ فکریہ

قومِ مسلم کو بے راہ روی کا شکار بنانے میں جدّت و لادینیت کا بڑا ہاتھ ہے- افسوس کہ ہم بہت جلد باطل کے فتنے اور مکر و فریب میں آ جاتے ہیں- اِس طرح فکری و نظری تباہی کے دہانے پر پہنچ جاتے ہیں- مال کا اسراف الگ ہوتا ہے-

بینر بازی:
پہلے بینرز اور ہورڈنگز عموماً سیاسی جماعتوں کی دکھائی دیتی تھی- ہمارے مذہبی یا معاشرتی پروگراموں کے بینرز ہوتے بھی تو سادگی و سنجیدگی کا نمونہ؛ لیکن اب وہ متانت رُخصت ہوئی- نمائش باقی رہ گئی...... رہ گئی رسم اذاں روحِ بلالی نہ رہی؛
1- مذہبی ہورڈنگز پر اگر اعلانات، مقدس مقامات کے گنبد وغیرہم ہوتے تو ٹھیک تھا؛ لیکن اب ان پر بھی جاندار کی تصاویر، لیڈروں کے فوٹو عام ہو گئے ہیں- جس سے تشہیر کے مقاصد نظر انداز ہو گئے اور شخصی تشہیر غالب آئی-
2- ہم نے ایک پروگرام شراب کی مذمت میں ملاحظہ کیا، اس کے بینر میں ایسے لیڈروں کی تصاویر ڈالی گئی تھیں جن کے بارے میں مشکل سے ہی یقین ہوگا کہ شاید شراب نوشی سے دور ہوں گے- گویا اصلاح کا ٹائٹل ہے اور مقصد محض نام نمود-
3- بارہا کا مشاہدہ ہے کہ بینرز تصاویر سے بھرے ہوتے ہیں اور اسی پر کعبہ شریف یا گنبد خضرا کا طغرا ہوتا ہے؛ اولیائے کرام کے مزارات کے عکس ہوتے ہیں؛ بسا اوقات انسانی تصویر اوپر اور مقدس طغرے نیچے ہوتے ہیں- یہ بے حسی ہے اور افراط و تفریط کہ ہماری بصیرت بھی رُخصت ہوئی کہ تقدس کے معاملات بھی نظر انداز کر دیے-

مفاد پرستی کو ترجیح دی جا رہی ہے؛ جبھی مذہبی جماعتوں کے پروگراموں میں اس طرح کی خرافات راہ پا چکی ہیں، کم از کم پروگرام کی نوعیت پر غور کیا ہوتا تو ایسی صورت حال واقع نہ ہوتی؛ تشہیر کی جائے لیکن اسلامی تعلیمات کے مطابق، مال کی ہوس اور فنڈ کی بازیابی کیلئے کیا ضروری ہے کہ مذہبی حِس کھو دی جائے! اِس میں اصلاح کا آغاز کیا جائے تو اختتام بھی پُر مغز ہوگا اور نتیجہ خیز بھی- یوں ہی دینی تقاریب کے بینرز میں اصلاح کی جائے؛ انھیں تصاویر سے پاک رکھا جائے؛ انھیں محض شہرت کیلئے نہیں بلکہ تشہیر و دعوت کیلئے استعمال کیا جائے؛ سیکڑوں بینرز میں مال کے اسراف کی بجائے چند بینرز سے مطلوبہ مقاصد حاصل کیے جائیں- ویسے بینرز کی شہرت کی عمر کم ہوتی ہے؛ اللہ کی عطا کردہ مقبولیت میں عروج ہی عروج ہے-

بے اثری کے اسباب:
برائیوں کو اِس زمانے میں جس قدر عروج ہے وہ باعث تردد ہے- لیکن ان کے مقابل جو کوششیں کی جارہی ہے ہیں؛ ان کے نتائج بھی مایوس کُن ہیں، جس کے اسباب پر غور کیا جانا چاہیے- مثلاً:
1- مصلحین کی تعلیم یہ ہوتی ہے کہ مالِ حرام سے بچو؛ اور بعض چندہ کے لیے حرام ذرائع کے حاملین کے یہاں چلے جاتے ہیں؛ ان کی دعوتیں بسرو چشم قبول کر لیتے ہیں- الا ماشاءاللہ،
2- جن نکات پر اصلاحی ٹائٹل شو کیا جاتا ہے اسی رُخ سے ملوث سیٹھ جی یا صاحب خیر کی اصلاح مال کے انبار میں نظر انداز کر دی جاتی ہے- الا ماشاءاللہ-
3- اصلاح کی دعوت نوکِ زبان ہوتی ہے اور عمل سے دوری؛ جیسا کہ بعض جلسوں کا معاملہ ہے کہ بعض مقررین جذبات سے کھیلتے ہیں اور عمل کی بات آتی ہے تو معاملہ صفر ہوتا ہے- الا ماشاءاللہ-
4- غربا و مساکین کی امداد فوٹو بازی سے بچ کر کی جائے تاکہ اللہ تعالٰی کی رضا حاصل ہو-
5- برائیوں سے بچا جائے اور اگر ارتکاب ہو جائے تو برائی کی تائید نہ کی جائے کہ: بجا ہے میرا فرمایا ہوا؛ بلکہ غلطی تسلیم کر کے اپنی اصلاح کی جائے-
5- نسلی امتیازات کی دیوار گرا دی جائے؛ بعض مذہبی حلقوں میں شخصیت پرستی کا رجحان سخت افسوسناک ہے؛ اس سے بچا جائے اور شریعت کے فیصلے قبول کیے جائیں-
6- علمائے کرام کا احترام کیا جائے؛ اگر علما تقوی' کی راہ اپناتے ہیں تو ان کی تضحیک نہ کی جائے بلکہ ان کا احترام کیا جائے کہ اس عہدِ قحط الرجال میں وہ دین پر استقامت کا مظاہرہ تو کر رہے ہیں،
7- توسع و جدت کی آڑ میں اپنا چہرہ فروخت نہیں کیا جا سکتا؛ جیسا کہ حال ہی میں ایک کتاب ایسی شائع کی گئی جس میں علمائے اسلام کے شعبے میں قادیانیوں کو بھی شامل کیا گیا؛ یہ مغرب کے مطلوبہ اہداف کو پاور فل بنانے کے مصداق ہے اور چور دروازے سے اسلام کے دامن تقدیس میں قادیانیت اور اس جیسے عقائد کو داخل کرنے میں مدد دینے سے تعبیر کیا جا سکتا ہے-

بہر کیف ضرورت اس بات کی ہے کہ مذہبی پروگراموں میں تصنع و بناوٹ اور ریا کاری سے بچا جائے تا کہ ہماری شبیہ محفوظ رہے؛ ہمارے قومی تفردات کا تحفظ ہو- دین کی پاکیزہ فضا دل و دماغ کو معطر معطر کر دے-

Ghulam Mustafa Rizvi
About the Author: Ghulam Mustafa Rizvi Read More Articles by Ghulam Mustafa Rizvi: 277 Articles with 281538 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.