اسلام جس طرح مسلمان کی جان کو تحفظ دیتا ہے اسی طرح غیر
مسلموں کی جانوں کو بھی تحفظ فراہم کرتا ہے۔ دینِ اسلام نے جتنا اقلیتوں کے
حقو ق پر زور دیا ہے اور ان کو تحفظ فراہم کیا ہے، دنیا کے کسی مذہب یا
قانون نے اتنا تحفظ نہیں دیا۔ قدیم مصر، یونان،روم، بابل ، عرب اور دیگر
ممالک کی تاریخ گواہ ہے کہ وہاں اقلیتوں کے ساتھ کس قدر انسانیت سوز سلوک
کیا جاتاتھا۔ دین اسلام ہی ہے جس نے مظلوم لوگوں کی داد رسی کی اور ان کے
تحفظ کے لیے قوانین وضع کیے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد
میں ایک دفعہ ایک مسلمان نے ایک غیر مسلم کو قتل کر دیا۔ حضور نبی اکرم صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قصاص کے طور پر اس مسلمان کے قتل کیے جانے کا حکم
دیا اور فرمایا: ’’غیر مسلموں کے حقوق کی حفاظت میرا سب سے اہم فرض ہے۔‘‘(مصنف
ابن ابی شیبہ:۲۷۴۵)۔اس روایت کی روشنی میں واضح ہوتا ہے کہ غیر مسلموں کے
حقوق کا تحفظ وقت کے حکمران کی ذمہ داری ہے۔ تاریخ اسلام بتاتی ہے کہ
مسلمان حکمرانوں نے اسی اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے غیر مسلموں کو تحفظ
فراہم کیا ہے اور انہیں آزادانہ زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کیے۔ اس کے
برعکس تاریخ کے تاریک واقعات اس بات کی گواہی بھی دیتے ہیں کہ جہاں مسلمان
اقلیت میں رہے تو ان کے ساتھ غیر انسانی رویہ اختیار کیا گیا ۔ بھارت کی
مثال لے لیں جو کہ ایک سیکیولر ریاست ہے لیکن وہاں بھی مسلمانوں پر ظلم و
ستم کیا جاتا ہے۔ انتہا ء پسند تنظیمیں گائے کا گوشت کھانے کے جھوٹے
الزامات کی آڑ میں وہاں کی اقلیتوں کو پھانسی چڑھانے بلکہ آگ میں جلانے کی
سزا تک دیتے ہیں۔ ریاست ایودھیہ میں بابری مسجد کی شہادت کا المناک واقعہ،
گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام اور سمجھوتہ ایکسپریس جیسے واقعات وہاں ہونے
والے مظالم کی مشہور مثالیں ہیں۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ اقلیتوں کے حقوق کے معاملے کو صرف وہاں اٹھایاجاتا ہے
جہاں غیر مسلم اقلیت میں ہیں، اور جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں ان کے حق میں
کوئی آواز نہیں اٹھائی جاتی۔ شام ، برما، کشمیر، مقبوضہ فلسطین وغیرہ وہ
ممالک ہیں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہونے کے باوجود انہیں جانوروں کی طرح
ذبح کیا جارہا ہے لیکن انسانی حقوق کے علمبردار خاموش تماشائی بنے ہوئے
ہیں۔پاکستان میں بھی اسی روش کو اختیار کیاگیا ہے اور آئے روز اقلیتوں کے
حقوق پر بحث ومباحثہ شروع کردیاجاتاہے۔ حالانکہ آئینِ پاکستان اقلیتوں کو
مکمل تحفظ فراہم کرتا ہے۔ یہاں تک کہ بانئ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح
نے بھی قیام پاکستان سے پہلے اسلامی ریاست کا تصور پیش کرتے ہوئے اقلیتوں
کے حقوق کے تحفظ کی مکمل یقین دہائی کرائی تھی۔
قائد اعظم محمد علی جناح کو اللہ تعالی نے بہت سی خوبیوں سے نوازا تھا ۔ آپ
انسانیت دوست سیاستدان تھے۔ آپ اس بات کو بخوبی جانتے تھے کہ ملک کو صحیح
معنوں میں خوشحال ،مضبوط اور پرامن بنانے کے لیے یہ اشد ضروری ہے کہ
پاکستان میں رہنے والے امن پسند شہریوں کے حقوق کی تسلی بخش انداز میں
حفاظت کی جائے۔قائد اعظم نے کئی مقامات پر پاکستان میں رہنے والے غیر
مسلموں کے ساتھ بہترین سلوک اور رواداری کی اہمیت پر زور دیا ہے۔اپریل
۱۹۴۱ء میں آل آنڈیا مسلم لیگ کے مدراس اجلاس سے صدارتی تقریر کرے ہوئے
فرمایا:’’اقلیتوں میں اعتماد اور تحفظ کا احساس پیدا کیے بغیر کوئی حکومت
بھی کامیاب نہیں ہوگی۔ اگر کسی حکومت کی پالیسی اور پروگرام اقلیتوں کے
بارے میں غیرمنصفانہ نامناسب اور ظالمانہ ہوں گے تو وہ حکومت کبھی کامیابی
و کامرانی سے ہمکنار نہیں ہو سکے گی۔۔۔۔۔۔ ہمارے ملک کی اقلیتوں کو معلوم
ہوجائے گا کہ ہماری روایات ہمارا ورثہ اور اسلامی تعلیمات ان کے لیے نہ صرف
مناسب اور انصاف پسندانہ ہوں گی بلکہ ان کے ساتھ فیاضانہ سلوک بھی کیا جائے
گا‘‘۔۴ ۲ اپریل ۱۹۴۳ء کو آل انڈیا مسلم لیگ دہلی کے اجلاس میں خطبۂ صدارت
دیتے ہوئے فرمایا:’’اقلیتوں کی بدرجہ اتم حفاظت ہونی چاہیے ۔۔۔۔۔۔۔ ہمارے
پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے غیرمسلموں کے ساتھ نہ صرف عادلانہ بلکہ
فیاضانہ سلوک کرکے واضح ترین ثبوت پیش کیا ہے‘‘۔۱۵ نومبر ۱۹۴۲ء کوآل انڈیا
مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن جالندھرکے سالانہ اجلاس سے تقریر کرتے ہوئے
فرمایا:’’ہماری مذہبی تعلیم ہمیں یہ حکم دیتی ہے کہ مسلمان حکومت میں ہر
غیر مسلم اقلیت کے ساتھ عدل و انصاف کا برتاؤ کیا جائے‘‘۔قائداعظم نے یکم
فروری۱۹۴۳ء کو اسماعیلی کالج بمبئی سے تقریر کرتے ہوئے کانگریس کے ہندو
رہنماؤں سے مخاطب ہوکر کہا تھا کہ : ’’ہم تمہاری اقلیتوں کے ساتھ مہذب
حکومتوں سے بھی زیادہ بہتر انداز میں سلوک کریں گے کیونکہ اقلیتوں کے ساتھ
ایسا برتاو کرنے کا ہمیں قرآن نے حکم دیا ہے‘‘۔۲۴ دسمبر ۱۹۴۳ء کو کراچی میں
آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں صدارتی تقریر کرتے ہوئے فرمایا:ہندوستان
اور پاکستان کا یہ مقدس فرض ہے کہ وہ اپنے اپنے علاقے کی اقلیتوں کے ساتھ
عدل اور انصاف کا برتاؤ کریں اور ان کی حفاظت بھی کریں۔ ۲۵ اکتوبر ۱۹۴۷ء کو
رائٹر کے نامہ نگار کو انٹر ویو دیتے ہوئے فرمایا:پاکستان ہر ممکن طریق سے
ان کے اندر تحفظ اور اعتماد کا احساس پیدا کرنے کی پالیسی اختیا رکرے گا۔
۱۴ جولائی ۱۹۴۷ء کو پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:’’اقلیتوں کا
خواہ کسی بھی جماعت سے تعلق ہو وہ محفوظ رہیں گی ،ان کے مذہب اور عقیدے کی
حفاظت کی جائے گی اور ان کی آزادئ عبادت میں کسی قسم کی مداخلت ہرگز نہیں
ہوگی۔ انہیں ان کے مذہب ، عقیدے ، زندگی اور ثقافت کے بارے میں تحفظ دیا
جائے گا۔ وہ ہر لحاظ سے بلاامتیاز عقیدہ و ذات پاکستان کے شہری ہوں گے۔ اس
میں کوئی شک نہیں کہ انہیں حقوق اور مراعات حاصل ہوں گے مگر اس کے ساتھ
انہیں شہریت کے فرائض کا بھی احساس کرنا ہوگا۔۔۔۔۔۔ جب تک اقلیتیں اس ریاست
کے ساتھ وفادار رہیں گے انہیں کسی قسم کا خوف رکھنے کی ضرورت نہیں۔۔۔۔۔۔آپ
اس اقلیت کو جگہ نہیں دے سکتے جو وفادار نہ ہو اور ریاست کو سبوتاژ کرنے کا
کردار ادا کریں ایسی اقلیت ریاست کے لیے ناقابل برداشت بن جاتی ہے‘‘۔
(بحوالہ قائد اعظم کے اسلامی افکار)
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق محفوظ ہیں اور انہیں
تحفظ بھی فراہم کیاجاتا ہے۔ وہ آزادانہ اپنی مذہبی و معاشرتی رسومات ادا
کرتے ہیں ۔ بلکہ یہاں یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ پاکستان میں اکثریت کے حقوق
مار کر اقلیتوں کو حقوق دیے جاتے ہیں۔ اس ملک میں جہاں کہیں غیر مسلم رہتے
ہیں وہ بالکل محفوظ ہیں۔ان پر کوئی جبر و تشدد نہیں ہوتا۔ غیر مسلم اپنے
مذہبی تہوار بھی بلاخوف و خطر جوش و خروش سے مناتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ
پوری دنیا کی بہ نسبت پاکستان میں اقلیتیں سب سے زیادہ محفوظ ہیں۔ غیر
مسلموں اور اقلیتوں کے حقوق کو تحفظ دینے کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہوتاکہ ان
کی مذہبی رسومات کو حکومتی سطح پر منایا جائے اور ان کے اکثریت کے برابر
لانے کی کوششیں کی جائیں۔ تمام مذاہب اور قوانین میں اقلیتوں کو سب سے
زیادہ تحفظ اسلام نے دیا ہے اور جتنا تحفظ اسلام نے دیا ہے اس کے مطابق
یہاں اقلیتیں بالکل محفوظ ہیں۔ لہٰذا خوامخواہ غیر مسلموں کو مظلوم ثابت
کرنے کی کوشش نہ کی جائے نیز ان کو آزادی اور ان کے حقوق کو تحفظ دینے کی
آڑ میں پاکستان کو سیکیولر ریاست بنانے کی کوشش نہ کی جائے۔ مزید یہ کہ
اقلیتوں کے حقوق کے فوبیا سے باہر نکل کر انسانی حقوق کی بات کی جائے تاکہ
اس میں اکثریت بھی شامل ہوجائے۔ |