جب زندگی شروع ہوئی۔۔۔۔۔ حصہ ۲۷

 ہمارا پورا خاندان حوض کوثر کے وی آئی پی لاؤنج میں جمع تھا۔ میری تینوں بیٹیاں لیلیٰ، عارفہ اور عالیہ اور دونوں بیٹے انور اور جمشید اپنی ماں ناعمہ کے ہمراہ موجود تھے۔ جمشید کے آنے سے ہمارا خاندان مکمل ہوگیا تھا۔ اس لیے اس دفعہ خوشی اور مسرت کا جو عالم تھا وہ بیان سے باہر تھا۔ یوں اپنے خاندان کو اکھٹا دیکھ کر میں نے اپنے پہلو میں بیٹھے صالح سے کہا:
’’اپنوں میں سے ایک شخص بھی رہ جائے تو جنت کا کیا مزہ!‘‘
میری بات کا جواب جمشید نے دیا جس کی بیوی بچے اور سسرال والوں کے بارے میں جہنم کا فیصلہ ہوچکا تھا:
’’ہاں ابو! مجھ سے زیادہ یہ بات کون جان سکتا ہے۔ آپ بہت خوش نصیب ہیں۔‘‘
’’یہ خوش نصیب اس لیے ہیں کہ اپنے گھر والوں کی تربیت کو انھوں نے اپنا مسئلہ بنالیا۔ وہ تو تم ہی نالائق تھے ورنہ دوسروں کو دیکھو۔ سب کے ساتھ اچھا معاملہ ہوا۔‘‘، اس دفعہ ناعمہ نے کہا۔
’’امی آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں، مگر مجھے دنیا میں یہ خیال رہا کہ میرے ابو کی شفاعت مجھے بخشوا دے گی۔ دراصل میرے سسر کے ایک پیر صاحب تھے جن پر انھیں بہت اعتقاد تھا۔ وہ ہمیشہ میرے سسر سے کہتے تھے کہ میرا دامن پکڑے رکھو۔ میں قیامت کے دن تمھیں بخشوا دوں گا۔ بس وہیں سے مجھے یہ احساس ہوا کہ میرے ابو جیسا تو کوئی ہو نہیں سکتا۔ ان کی شفاعت میرے کام آئے گی۔‘‘
اس کی بات سن کر میں نے کہا:
’’بیٹا تم بالکل غلط سمجھے تھے۔ دیکھو تمھارے سسر کو ان کے پیر صاحب نہیں بچاسکے۔ حقیقت یہ ہے کہ شفاعت کو ذریعہ نجات سمجھنے کی دعوت نہ ہمارے نبی نے دی اور نہ قرآن مجید میں یہ کہیں بیان ہوا ہے کہ اسے ذریعہ نجات سمجھو۔ قرآن کریم تو نازل ہی اس لیے ہوا تھا کہ یہ بتائے کہ آخرت کے دن نجات کیسے ہوگی۔ اس نے بار بار یہ واضح کیا تھا کہ روز قیامت نجات کا پیمانہ ایک ہی ہے یعنی ایمان اور عمل صالح۔ نزول قرآن کے وقت سارے عیسائی اس گمراہی کا شکار تھے کہ حضرت عیسیٰ کی شفاعت انھیں بخشوا دے گی جبکہ مشرکین یہ سمجھتے تھے کہ ان کے بت خدا کے حضور ان کے سفارشی ہوں گے۔ اس لیے قرآن مجید نے بار بار اس بات کو واضح کیا کہ شفاعت کوئی ذریعہ نجات نہیں ہے۔ انسان کو وہی ملے گا جو اس نے کیا ہوگا۔‘‘

’’لیکن شفاعت کا ذکر قرآن میں آیا تو ہے اور حدیثوں میں بھی اس کا ذکر ہوا ہے۔‘‘، جمشید نے سوال کیا۔

میں نے اس کے سامنے ایک سوال رکھتے ہوئے کہا:
’’یہ بتاؤ کہ پورے قرآن یا کسی حدیث میں کہیں یہ کہا گیا ہے کہ شفاعت کو ذریعہ نجات سمجھ کر اس پر بھروسہ کرو یا اس کے لیے دعا کرو۔‘‘
’’نہیں ایسا تو کہیں بھی نہیں کہا گیا۔‘‘
جمشید کی جگہ انور نے پورے اعتماد اور وثوق سے کہا تو جمشید نے اس سے اختلاف کرتے ہوئے کہا:
’’نہیں بھائی ہم تو ہر اذان کے بعد شفاعت کی دعا کرتے تھے۔‘‘
میں نے جمشید کی بات کا جواب دیا:
’’یہ تو لوگوں نے حضور کی بات میں خود اضافہ کیا تھا۔ حضور نے صرف اتنا کہا تھا کہ میرے لیے مقام محمود کی دعا کرو تو میری شفاعت واجب ہوجائے گی۔ یہ نہیں کہا تھا کہ شفاعت کے لیے بھی دعا کیا کرو یا اس پر بھروسہ کرکے عمل صالح چھوڑ دو اور مزے سے گناہ کرتے رہو۔‘‘
صالح نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا:
’’عبد اﷲ تم رکو میں انہیں شفاعت کا تصور تفصیل سے سمجھاتا ہوں۔ دیکھو اصل نجات کا ضابطہ ایمان اور عمل صالح ہے اور اس کے سوا کچھ اور نہیں۔ آج اگر کسی کو معافی مل رہی ہے تو دراصل وہ کسی کی شفاعت سے نہیں مل رہی بلکہ اﷲ تعالیٰ کے علم، قدرت اور رحمت کی وجہ سے مل رہی ہے۔ قرآن مجید میں اس بات کو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ اﷲ تعالیٰ بس شرک ہی کو معاف نہیں کریں گے۔ اس کے علاوہ جس گناہ کو چاہیں اور جس شخص کے لیے چاہیں بخش سکتے ہیں۔ چھوٹے موٹے گناہوں کو تو اﷲ تعالیٰ دنیا کی سختیوں اور نیکیوں کی بنا پر معاف کردیا کرتے تھے، لیکن جن لوگوں نے گناہ کا راستہ مستقل اختیار کیے رکھا اور توبہ نہیں کی انہیں تو بہرحال اس راہ پر چلنے کے نتائج آج بھگتنا پڑرہے ہیں۔ تاہم کوئی بندۂ مؤمن جب اپنے گناہوں کی کافی سزا بھگت لیتا ہے……‘‘، صالح نے یہیں تک بات مکمل کی تھی کہ جمشید نے لقمہ دیا:
’’جیسے میں نے بھگتی یا پھر لیلیٰ نے میدان حشر کی ابتدائی خواری اٹھائی تھی۔‘‘
’’بالکل……‘‘
صالح نے اس کی تائید کرتے ہوئے اپنی بات جاری رکھی:

’’میں یہ بتارہا تھا کہ جب بندۂ مؤمن اپنی خواری اور میدان حشر کی سختیاں جھیلنے کی بنا پر اﷲ تعالیٰ کے اپنے قانون عدل کے تحت نجات کا مستحق ہوجاتا ہے تو اﷲ تعالیٰ کچھ نیک لوگوں کی گواہی کو جو دراصل اس کے اچھے اعمال ہی کی گواہی ہوتی ہے، اس کی مغفرت کا بہانہ بنادیتے ہیں۔ جیسے تمھارے لیے تمھارے ماں باپ کی گواہی مغفرت کا ذریعہ بن گئی۔ یا لیلیٰ رسول اﷲ کی اس گواہی کے نتیجے میں نجات پاگئی جو آپ نے ابتدا میں دی تھی۔ لیکن دیکھ لو کہ اس میں بھی ذاتی ایمان اور ذاتی عمل کی موجودگی ضروری ہے اور سزا تو بہرحال انسان کو بھگتنی پڑتی ہے۔ تو یہ بتاؤ کہ سزا بھگت کر معافی کا راستہ بہتر ہے یا شروع ہی میں توبہ اور عمل صالح کا راستہ اختیار کرلینا اور بغیر کسی سختی کے نجات پاجانا بہتر ہے؟‘‘
’’ظاہر ہے کہ پہلا راستہ بہتر ہے، مگر یہ بتائیے کہ پھر حضور کی شفاعت کی کیا حقیقت ہے؟‘‘، اس دفعہ عارفہ نے جواب دیا اور ساتھ میں صالح سے ایک سوال بھی کرلیا۔
’’حضور کی شفاعت کا مطلب اگر یہ ہوتا کہ لوگوں کے پاس کوئی نیک عمل نہ ہو تب بھی حضور لوگوں کو بخشوادیں گے تو قرآن عمل صالح کی کوئی بات ہی نہیں کرتا بلکہ قرآ ن کریم میں اﷲ تعالیٰ حضور کی زبانی یہ کہلوادیتے کہ لوگوں بس مجھ پر ایمان لے آؤ، میں آخر کار تم کو بخشوا دوں گا۔‘‘
’’یہ تو عیسائیوں کا عقیدہ تھا اور اس کا انجام انھوں نے آج بھگت لیا۔‘‘، ناعمہ نے طنزیہ انداز میں کہا۔ صالح نے اس کی تائید میں کہا:
’’ہم جانتے ہیں کہ قرآن میں ایسی کوئی بات بیان نہیں ہوئی ہے۔ اس کے برعکس ساری یقین دہانی اس بات کی ہے کہ ایمان لاؤ اور عمل صالح اختیار کرو اور سیدھا جنت میں جاؤ۔ باقی رہی حدیث تو حدیثوں میں جو کچھ شفاعت کے بارے میں آیا ہے اسے اگر قرآن کی روشنی میں دیکھا جاتا جو آخرت کے بارے میں حقائق بیان کرنے کی اصل کتاب ہے تو بات بالکل واضح تھی۔‘‘
وہ کیا بات ہے؟ جمشید نے پوچھا:
’’وہ یہی کہ آج کے دن گنہ گاروں نے اپنے اعمال کی پوری پوری سزا بھگتی ہے۔ اس کے بعد حضور کی درخواست وہ سبب بن گئی جس کی بنا پر لوگوں کی نجات کا امکان پیدا ہوا۔ یہ پہلی دفعہ اس وقت ہوا تھا جب حضور نے اﷲ تعالیٰ سے یہ درخواست کی تھی کہ انسانیت کا حساب کتاب شروع ہو۔ جس کے نتیجے میں لوگوں کو انتظار کی زحمت سے نجات ملی۔ دوسری دفعہ آپ نے اور دیگر تمام انبیا نے اپنی اپنی قوموں کو دی گئی اپنی تعلیم کی شہادت دی۔ یہ شہادت ان سب لوگوں کے لیے نجات کا باعث بن گئی جن کا عمل مجموعی طور پر اس تعلیم کے مطابق تھا۔‘‘
’’جیسے کے میں۔‘‘، لیلیٰ بولی۔
’’ہاں جیسے کے تم۔ اور اب تیسری دفعہ حضور اس وقت درخواست کریں گے جب کچھ لوگوں کا معاملہ مؤخر کردیا جائے گا۔ ان کا حساب کتاب آخری وقت تک نہیں کیا جائے گا اور وہ اپنے گناہوں کی پاداش میں حشر کے میدان میں خوار ہوتے رہیں گے۔ حضور ان کے لیے بار بار درخواست کریں گے۔ تاہم جب اﷲ تعالیٰ کی حکمت اور علم کے تحت ان کا فیصلہ کرنا مناسب ہوگا تب حضور کو اجازت دی جائے گی کہ وہ ان کے حق میں کوئی بات کریں۔ پھر حضور کی درخواست کے نتیجے میں ان کا حساب کتاب ہوگا جس کے بعد جاکر ان کی نجات کا کوئی امکان پیدا ہوگا۔ اور یہ ہوگا بھی سب سے آخر میں جب ایسے لوگ اپنے تمام اعمال کی بدترین سزا بھگت چکے ہوں گے اور توحید سے وابستگی اور اپنے اچھے اعمال کی بنا پر نجات کے مستحق ہوجائیں گے۔‘‘
’’میرا ایک سوال ہے۔‘‘، انور نے صالح کو مخاطب کرکے کہا۔
’’وہ یہ کہ اگر سب لوگ سزا بھگت کر ہی معافی کے مستحق بن رہے ہیں تو اس میں اﷲ کی رحمت کہاں سے آگئی۔ یہ تو بس عدل ہورہا ہے۔‘‘
’’بہت اچھا سوال ہے۔‘‘، صالح نے انور کی تحسین کرتے ہوئے جواب میں کہا۔
’’دیکھو! وہ اگر صرف عدل کرتے تو ایسے لوگوں کی اصل سزا جہنم کے عذاب تھے جو میدان حشر کی سختیوں سے ہزاروں لاکھوں گناہ سخت سزا ہے۔ عدل کے تحت ایسے تمام لوگوں کو جہنم کی سزا بھگتنی چاہیے تھی۔ مگر ان کی رحمت یہ ہے کہ وہ حشر کی سختی کو جہنم کے عذابوں کا بدل بنارہے ہیں۔ یوں اﷲ تعالیٰ کی صفت عدل اور صفت رحمت کا بیک وقت ظہور ہورہا ہے۔‘‘
صالح نے بات ختم کی تو جمشید نے کہا:
’’تو یہ ہے اصل بات۔ میں تو اس غلط فہمی میں رہا کہ شفاعت کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہم جتنے مرضی گناہ کرلیں حضور اور دیگر نیک لوگ ہمیں بخشوادیں گے۔‘‘
’’یہ تصور اﷲ تعالیٰ کی صفت عدل کے خلاف ہے۔ یہ بس ایک غلط فہمی تھی جو قرآن کریم کو سمجھ کر نہ پڑھنے کی وجہ سے لوگوں کو لگی۔ نجات تو صرف ایمان اور عمل صالح سے ہوتی ہے۔ باقی رہی معافی تو وہ اﷲ تعالیٰ کی رحمت سے ملتی ہے۔ اﷲ تعالیٰ بس یہ کرتے ہیں کہ اس معافی کا اعلان اور سبب کسی نیک بندے کی گواہی یا درخواست کو بنادیتے ہیں۔ اس سے اﷲ تعالیٰ کا مقصود اپنے محبوب و برگزیدہ بندوں کی عزت افزائی ہوتی ہے۔ نجات تو اپنے اصول پر ہوتی ہے۔ اور تم سے بہتر اب یہ کون جانتا ہے کہ انسان جہنم میں نہ بھی جائے تب بھی گناہوں کی کتنی سخت سزا حشر کے میدان کی سختی کی شکل میں بہرحال بھگتنی پڑتی ہے۔‘‘
’’کیا جہنم میں جانے کے بعد بھی نجات کا کوئی امکان ہے؟‘‘، عالیہ نے سوال کیا تو ایک خاموشی چھاگئی۔ کچھ دیر بعد اس سکوت کو صالح نے توڑتے ہوئے کہا:
’’قرآن کہتا ہے نا کہ اﷲ تعالیٰ بس شرک ہی کو معاف نہیں کریں گے۔ اس کے علاوہ جس گناہ کو چاہیں اور جس شخص کے لیے چاہیں بخش سکتے ہیں۔‘‘
’’مطلب؟‘‘، انور نے پوچھا۔
’’مطلب یہ کہ کچھ گناہ جہنم تک پہنچاسکتے ہیں، لیکن ان گناہوں کے باوجود جن لوگوں میں ایمان کی کوئی رمق باقی تھی، انھیں آخرکار معافی مل سکتی ہے۔ مگر یہ معافی کس کو ملے گی، کب ملے گی، یہ باتیں اﷲ کے سوا کوئی جانتا ہے اور نہ کوئی اور طے ہی کرے گا۔ اور میرے بھائی جہنم تو ایک پل رہنے کی جگہ نہیں ہے۔ جو لوگ وہاں سے نکلیں گے وہ نجانے کتنا عرصہ گزارنے کے بعد اپنی سزا بھگت کر نکلیں گے۔ یہ مدت اتنی زیادہ ہوگی کہ اربوں کھربوں سال بھی اس حساب میں چند لمحوں کے برابر ہیں۔ اس بارے میں تو نہ سوچنا ہی بہت بہتر ہے۔‘‘
’’میرے خدایا!‘‘، انور لرز کر بولا۔
’’جہنم تو دور کی بات ہے، حشر کے میدان میں ایک پل کھڑے رہنا بھی ناقابل برداشت عذاب ہے۔‘‘، جمشید نے اپنے تجربے کی روشنی میں کہا۔
لیلیٰ نے اس پر مزید اضافہ کیا:
’’یہ گناہ کتنی بڑی مصیبت ہوتے ہیں۔ کاش یہ بات ہم لوگ دنیا میں سمجھ لیتے۔‘‘
صالح نے بحث ختم کرتے ہوئے کہا:
’’انسانوں کی دو سب سے بڑی بدنصیبیاں رہی ہیں۔ ایک یہ کہ حشر کے دن کا مرکزی خیال حساب کتاب تھا، مگر لوگوں نے اسے شفاعت کا موضوع بنادیا۔ دوسری یہ کہ انسانی زندگی میں مرکزی حیثیت ارحم الراحمین، رب العالمین کی تھی، جبکہ لوگوں نے غیر اﷲ کو مرکزی خیال بنادیا۔‘‘
میں نے صالح کی تائید کرتے ہوئے کہا:
’’کتنی سچی بات کہی ہے تم نے صالح! کاش لوگ یہ بات دنیا میں جان لیتے۔‘‘
پھر میں نے اپنے بچوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:
’’میرے بچوں! اب دنیا کی زندگی قصۂ ماضی ہوچکی ہے۔ اب تمھاری منزل ختم نہ ہونے والی جنت کی بادشاہی ہے۔ سکون، آسودگی، آسانی، محبت، رحمت، لطف و سرور…… تمھیں یہ سب مبارک ہو۔ دیکھا تم نے ہمارا رب کتنا کریم و رحیم ہے۔ آؤ ہم سب مل کر اپنے رب کریم کی حمد کریں اور مل کر کہیں ’الحمد ﷲ رب العالمین‘۔‘‘
سب نے مل کر ’الحمد ﷲ رب العالمین‘کو ایک نعرے کی شکل میں بلند کیا۔
Owais
About the Author: Owais Read More Articles by Owais: 27 Articles with 28528 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.