ضیاء کی سیاست کا ا حتساب ؟؟

ریاست کی کامیابی کا راز اس کے نظام احتساب میں مضمر ہوتا ہے۔ اگر احتساب کا صاف شفاف اور غیر جانبدار نظام موجود ہو تو ریاست کے ادارے آئین اور قانون کے مطابق چلتے ہیں اور عوام کو گڈ گورنینس فراہم ہوتی ہے۔ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے اس کے آئین میں درج ہے کہ ریاست کا کوئی قانون قرآن و سنت کے منافی نہیں ہوگا مگر عملی طور پر پاکستان کو اسلام کے بنیادی اسلامی اْصولوں کے منافی چلایا جارہا ہے۔ احتساب ریاست کو چلانے کا بنیادی اسلامی اْصول ہے مگر پاکستان میں ابھی تک احتساب کا صاف، شفاف اور غیر جانبدار نظام وضع نہیں کیا جاسکا جس کی ذمے داری مسلم لیگ(ن) اور پی پی پی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں پر عائد ہوتی ہے جو باری باری حکومت کرتی آرہی ہیں۔

تاریخ گواہ ہے کہ حضرت عمرؓ کے عہد خلافت میں اسلامی ریاست پھیل چکی تھی اس کا نظم و نسق آسان کام نہ تھا۔ حضرت عمرؓنے مشکلات کے باوجود ایک مثالی اسلامی فلاحی ریاست تشکیل دی جس کی بنیاد احتساب پر رکھی گئی۔ حضرت عمرؓ نے ارشاد فرمایا کہ امیر المومنین کی فقط یہ ذمے داری نہیں کہ وہ افسروں کا انتخاب میرٹ پر کرے بلکہ اس کی یہ ذمے داری بھی ہے کہ وہ نگرانی کرے اور دیکھے کہ کیا افسر عدل و انصاف کے مطابق اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔

مقام شکر ہے کہ مملکت خداداد پاکستان میں بہتری کی جانب سفر جاری ہے۔ ایک وقت یوں لگتا تھا کہ انصاف کا نظام تباہ ہو کر رہ گیا ہے۔ عدالتیں حکومتوں کے زیر اثرتھیں‘ پھر قدرت کو رحم آیا اور بتدریج عدلیہ نے انگڑائی لینا شروع کی۔بتایا جاتا ہے کہ ضیاء الحق نے اپنے دوراقتدارمیں بھٹو مخالفین کو چن چن کر اکٹھا کیا اور ان ہی کو اقتدار میں حصہ داربنایا اس طرح پاکستان کی سیاست میں مخالفت ذاتی دشمنی اور ذاتی اناء میں تبدیل ہوگئی ۔ مگرضیاء الحق کے پر وردہ نوازشریف کی سیاست کا مرکزومحوہی بھٹو دشمنی تھی ۔ایک اور ظلم جو ضیاء الحق نے کیا غیر جماعتی الیکشن تھے اس الیکشن میں گلیاں نالیاں بنانے والے مزاج سیاستدان مرکز میں آگئے تو انہوں نے بلدیاتی مزاج کو یہاں بھی رواج دیا اور محمد خان جو نیجو نے ترقیاتی فیڈز کے نام پر ایم این ایز کو کروڑوں روپے دیے ۔ اسطر ح مرکزی سیاست میں اس انداز میں پہلی دفعہ لوٹ مار کا بازارسجا۔ایم این ایز اور ایم پی ایز آنے والے حکمرانوں کو بلیک میل کرنے لگے ۔ اور یہ سلسلہ مسلسل 2018ء تک عروج پررہا۔2019ء کے بارے میں مختلف افواہیں گردش کررہی ہیں۔کہ سندھ اور پنجاب میں مختلف خاندانوں سے تعلق رکھنے والے 22ہزارافراد نے ضیاء الحق دورہ سے اب تک قومی خزانے پر راج کیا اور اپنے پیاروں کو نوازا۔سندھ سے تعلق رکھنے والے چند خاندانوں کے نام منظر عام پر آچکے ہیں اور پنجاب کی باری ہے ۔جس میں نارووال ، سیالکوٹ ، گجرات سمیت دیگر شہروں سے تعلق رکھنے والے سیاسی خاندان بھی جلد بے نقاب ہو جائیں گے ۔

اب یہ حکومت پر منحصر ہے کہ وہ اس پر عمل پیرا ہوتی ہے یا نہیں لیکن پارلیمنٹ کی سیاسی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ پارلیمنٹ جیسے ادارے نے اپنا احتساب کرنے کی ذرا سی کوشش بھی کی ہو۔ ہاں ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ اسپیکر قومی اسمبلی نے کسی گرفتار رکن اسمبلی کے پروڈکشن آرڈرز جاری کئے ہوں۔ بلکہ پہلے بھی کئی دفعہ یہ پروڈکشن آ رڈرز جاری ہوئے۔ متعدد اراکین اسمبلی بندوقوں کے سائے میں یہاں لائے گئے۔

حقیقت میں پاکستانی احتساب با اثر لوگ صرف اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں اور ایسا عرصہ دراز سے چل رہا ہے، پاکستانی حکومتیں ہمیشہ ان باثر لوگوں کے زیر اثر رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں احتساب کی قدر و قیمت ویسے ہی قائم دائم رہتی ہے اگر اﷲ کو حاضر ناظر جانتے ہوئے ایک دفع بھی ساری سیاسی جماعتوں کا حقیقی احتساب ہوجائے تو دوبارہ کوئی بدعنوانی پنپنے کا نام ہی نہ لے، اور لفظ احتساب کو عوام بھول جائے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیشہ عوام میں وہی چیز مقبول ہوتی ہے جسے وہ چاہے یعنی عوام عرصہ دراز سے حقیقی احتساب چاہتی ہے۔یعنی موسمی احتسابی روایت کے پس پردہ کچھ عناصر اپنے مفادات حاصل نہ کر سکیں۔
 

Ghulam Murtaza Bajwa
About the Author: Ghulam Murtaza Bajwa Read More Articles by Ghulam Murtaza Bajwa: 272 Articles with 201752 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.