زندگی میں پہلی دفعہ سمجھ نہیں آ رہی کہ لکھوں تو کیا
لکھوں کہاں سے شروع کروں اور کیا کیا لکھوں ، لگتا لفظوں کا قحط پڑھ گیا ہے
حالانکہ ایسا کبھی نہیں ہوا،کون سا وصف تھا جو ان میں نہیں تھا،کس کو کیا
بتاؤں وہ کیا تھے اور خصوصا میرے لیے کیا تھے،وہ بیک وقت نوجوان تھے ،جوان
تھے اور بزرگ تھے، شیشے کی طرح صاف اور چاندنی کی طرح نرم سردی کی صبح کی
دھوپ کی طرح شفاف ،وہ خلوص کا پیکر تھے محبت کا سمندر تھے،اﷲ کے ولی تھے
اور صحیح معنوں میں غلام محمد ﷺتھے،خوبیاں ہی خوبیاں بہت کم لوگوں کو اﷲ نے
یہ وصف عطا کیا ہے کہ پہلی بار ہی ملنے سننے والا ان کی باتوں کا یوں
گرویدہ ہوتا کہ پھر یہ تشنگی جاتی ہی نہ تھی ان سے ملاقاتیں ان سے لی گئی
راہنمائی ان کا پڑھایا ہوا ایک ایک لفظ زندگی کا سرمایہ ہے ان کی تعلیمات
نے نہ صرف میری زندگی میں انقلاب برپا کیا بلکہ اگر ذرا جستجو کی جائے تو
شہر اور گردونواح میں سینکڑوں بلکہ ہزاروں ایسے نادر روزگارلوگ ملیں گے جو
انہی کی وجہ سے انسانی خدمت میں مصروف ہوں گے،اﷲ اور اس کے رسولﷺ کے ذکر
اور حوالے بنا نہ ان کی بات مکمل ہوتی اور نہ ہی لیکچر،پڑھاتے پڑھاتے اچانک
اﷲ کے رسولﷺ کا حوالہ دیتے کہ میرے رسول ایسے تھے ایسے یوں چلتے تھے یوں
بیٹھتے تھے یوں بولتے تھے یوں کھاتے تھے یوں مخاطب ہوتے تھے یوں ان کے بال
تھے یوں ان کا لباس تھا یوں ان کا رہن سہن تھا ہر بات میں اﷲ کے حبیب ﷺ کا
ذکر، اﷲ نے کن کن صلاحیتوں سے ا نہیں مالا مال کیا تھا جو ان سے نہیں ملا
وہ کبھی جان نہیں پائے گا، اپنے شاگردوں کے روھانی باپ تھے مگر شاگردوں کے
دل میں ان کا احترام سگے باپ جتنا، بولیں تو منہ سے پھول جھڑیں اور باتوں
سے خوشبو آئے،اتنی نفاست اور پاکیزگی کہ آس پاس کاماحول بھی معطر ، جو ان
سے ملتا انہی کے رنگ میں رنگ جاتا جی ہاں یہ تھے میرے استاد محترم جناب
حضرت اکبر خان نیازی صاحب،جیسی زندگی انہوں نے گذاری اﷲ تعالیٰ کی ذات سے
یقین واثق ہے کہ ان کے لیے رب کریم نے جہان ابدی میں بھی اتنی ہی عزت اور
تکریم تیار کر رکھی ہو گی جو انہیں اس فانی جہان میں عطا کر رکھی تھی،غالبا
ًنوے کی دھائی کے فوری آغاز کا وقت تھا ہم نے میٹرک کیا اور سیدھے ڈاکٹر
بننے کی ٹھانی ،کیوں کہ ایک تو تعلق خالصتاًگاؤں سے تھا دوسرا گاؤں کے
علاوہ فیملی میں بھی کوئی ایسا خاص پڑھا لکھا بندہ اس وقت نہیں پایا جاتا
تھاجو راہنمائی کرتا ہمیں لے دے کے دو ہی شعبوں کا پتہ تھا کہ کامیاب انسان
اس دنیا میں وہی ہے جو ڈاکٹر بن گیا یا انجنئیر،سو ہم نے حساب کتاب کا
معاملہ چھوڑ کر انسانی جان پہ تجربہ کرنے کی ٹھانی اور سیدھا پری میڈیکل
میں داخلہ لے لیا،کرنا خدا کا کہ جب میرٹ لسٹ لگی تو دس نمبر کم ہونے کی
وجہ سے ہمار نام کہیں دکھائی نہ دیا ،اس وقت ہم چونکہ خود مختار تھے کیوں
کہ بڑے بہن بھائی یا والدین نے ہمارے اسکول آنے یا چیک کرنے کی زحمت کبھی
بھی گوارا نہیں کی یا اس وقت ایسا کوئی رواج ہی نہیں تھا،ہم نے ایک وکیل
صاحب کے ذریعے پروفیسر یعقوب صاحب جو تاریخ پڑھاتے سے علیک سلیک بنائی اور
مدعا بیان کیا کہ ہم نے ہر صورت میں ڈاکٹر بننا ہے آپ کچھ کریں کہیں ایسا
نہ ہو کہ پاکستان ایک عظیم ڈاکٹر سے محروم ہو جائے،یعقوب صاحب ہمیں لیکر
پروفیسر ملک نور زمان (اﷲ انہیں غریق رحمت کرے)جو بذات خود ایک انتہائی
قابل اور نفیس انسان تھے کے پاس لے گئے اور ہماری سفارش کر دی پروفیسر صاحب
نے تھوڑے ترد دکے بعد ہماری درخواست قبول کر لی اور یوں ہماری وجہ سے ان دس
بارہ اور لوگوں کو بھی قوم کا مسیحا بننے کا موقع مل گیا جو لسٹ میں نہیں آ
رہے تھے مگر نمبر ہم سے زیادہ لے رکھے تھے،میڈیکل میں داخلہ مل جانے کے بعد
ہم خوشی خوشی آنکھوں میں مستقبل کے خواب سجائے اور اپنے آپ کو کسی ہسپتال
میں مریضوں کا چیک اپ کرتے کرتے گھر آگئے اگلے دو دن کے بعد جب دوبارہ کالج
پہنچے تو نوٹس بورڈ پر کلاسوں کا ٹائم ٹیبل اور پڑھانے والے استاتذہ کا نام
درج تھا،ہم نے ٹائم ٹیبل نوٹ کیا اور کمرہ نمبریاد کر کے پہلا پیریڈ جو آج
بھی یاد ہے اردو کا اور پروفیسر صدیق صاحب جو پنڈ سلطانی اٹک کے تھے ان کا
تھا ،اس کے بعد روٹین شروع ہو گئی آدھا دن گذر گیا،مشکل سے کچھ کمرے اور
پیریڈز ملے او ر کچھ نہ مل سکے غالباًساڑھے بارہ بجے کے بعد بائیو کا پیریڈ
تھا بائیو کا کمرہ سب کمروں سے الگ تھلگ تھا سو ادھر پہنچنے میں مشکل نہ
ہوئی مگر جب اندرجھانک کر دیکھا تو ایک نورانی صورت والے باریش بزرگ لیکچر
دے رہے تھے ہم نے وہیں سے یو ٹرن لیا اور واپس آگئے جاننے والا اور کوئی
تھا نہیں جس سے ہم پوچھتے کہ بائیو والے سر شاید چھٹی پر ہیں جوایک مولوی
صاحب غالباً اپنی کلاس کو اسلامیات پڑھا رہے ہیں،دوسرے دن پھر جب ادھر جانا
ہوا تو وہاں موجودلڑکے دیکھے جو اپنی کلاس کے ہی تھے اور فرکس کیمسٹری کے
پیریڈ میں ساتھ تھے ابھی پوری طرح بیٹھ نہ پائے تھے کہ وہی خوبصورت و سیرت
مولوی صاحب دوبارہ آ گئے ہم نے کھسکنے کی کوشش کی تو سر نے روک لیا کہ کیا
مسئلہ ہے ہم نے کہا وہ سر ہم بائیو پڑھنے آ گئے غلطی سے شاید اسلامیا ت کی
کلاس میں ، لڑکوں کا طنز بھرا قہقہ گونجا اور سر نے حکم دیا کہ بیٹھ جاؤ جب
حاضری لگی تو ہمارا رولنمبر بھی بولا گیا اور سر نے ابتدا اﷲ کے نام کے بعد
حدیث رسولﷺ بیان کر کے کی تو شک یقین میں بدل گیا کہ آج بھی بائیو کا پیریڈ
گیا مگر فوراً ہی جناح کیپ پہنے مولوی صاحب نے میڈیکل کی ہسٹری بتانا شروع
کر دی ہمیں شدید حیرانی ہوئی کہ سائنس کے پروفیسر ایسے تو نہیں ہوتے مگر
نیازی صاحب کی بات ہی کچھ اور تھی،ہم چونکہ اردو میڈیم سے پڑھ کے آئے تھے
جہاں اس وقت اے بی سی بھی چھٹی جماعت میں پڑھائی جاتی ہے آگے سے سارا سلیبس
انگلش میں تھا ہمارے اوسان خطا ہونے ہی ہونے تھے اولیاخان صاحب فزکس اور
ملک نور زمان صاحب (اﷲ دونوں کو غریق رحمت کرے) کیمسٹری کا لیکچر انگلش میں
دیتے جو ہمارے سر کے بہت ہی اوپر سے گذر جاتا ،نیازی صاحب ہماری مشکل
دیکھتے ہوئے زیادہ تر اردو کا سہار الیتے اور بار بار سمجھاتے کہ اگر کسی
کو سمجھ نہیں آئی تو سمجھ لے،ہم نے جیسے تیسے فرسٹ ائیر پاس کر لیا اس
دوران کچھ ٹیچرز اور لڑکوں سے بھی شناسائی ہو گئی ،ہمارا خاندانی پس منظر
کچھ ایسا تھا کہ نیازی صاحب ہمیں اور ہم انہیں بھا گئے مذہب سے ہم خود بھلے
دور ہیں مگر مذہبی لوگوں سے ایک خاس انسیت اپنے رگ و پے میں کوٹ کوٹ کر
بھری ہوئی ہے پروفیسر نیازی ہمیں بچوں کی دنیا کہہ کر پکارتے جواب میں
ہمارا جواب ہوتا سر بچوں کی دنیا نہیں نالائق بچوں کی دنیا،نیازی صاحب کہتے
نالائق کوئی نہیں ہوتا بس توجہ کا مسئلہ ہے کیا کمال کی باتیں ہوتیں ان کی
،فرماتے محنت اتنی خاموشی سے کرو کہ کامیابی خود شور مچا دے،امتحان میں
داخلے جانے کا وقت آیا تو ہم نے امتحانات سے قبل ہی شکست تسلیم کر لی،
اورکوئی ہمدرد تھا نہیں سیدھے نیازی صاحب کے پاس جا پہنچے او ر مدعا بیان
کیا سر نے بہت حوصلہ دیا تسلی دی موٹیویٹ کیا کہ جو شخص ناکام نہیں ہوتا وہ
کامیابی کا مزہ حقیقی معنوں میں اٹھا ہی نہیں سکتا مگر ہماری ضد پکی رہی کہ
سر یہ پتھر ہم چوم سکتے ہیں اٹھا نہیں سکتے میڈیکل اپنے بس کی بات نہیں اور
کوئی شعبہ ہے نہیں ریاضی ہمیں آتا نہیں ، زندگی برباد ہو گئی اپنی ،نیازی
صاحب اﷲ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے بجائے کہ ڈانٹ کہ بھگا دیتے ہماری
مایوسی اور ارادہ دیکھ کر فوراً بات ہی بدل دی کہا تم پاگل ہودنیا میں لوگ
جتنی بہترین زندگی آرٹس پڑھ کر گذار رہے ہیں سائنس والے سوچ بھی نہیں سکتے
ہم ہونقوں کی طرح سر کا چہرہ دیکھنے لگے جنہوں نے ایک ہی سانس میں بے شمار
ایسے محکمے گنوا دیے جو اس وقت ہمارے وہم وگمان میں بھی نہیں تھے مگر مسئلہ
یہ تھا کہ ہم کیا کریں اسی اثناٗ میں وہاں انگلش کے پروفیسر غلام فرید صاحب
بھی آن پہنچے معاملہ دونوں بڑوں کے درمیان ڈسکس ہوا اور نیازی صاحب نے تین
مضامین کا نام لکھ کر کاغذ ہمارے حوالے کر دیا کہ ان کا امتحان دے دو داخلے
بند ہو چکے تھے ہم نے غنیمت جان کر ڈبل فیس کے ساتھ داخلہ بھیجا اور بعد
میں پتہ چلا کہ سر نے ہم پر کتنا بڑا احسان کیا تھا کہ تینوں مضامین ہسٹری
شہریت اور اسلامیات اور مطالعہ پاکستان تقریبا سب کا بیانیہ ایک ہی ہے ،ہم
نے امتحان دیا اور رزلٹ دیکھ کہ خود پر یقین نہ آیا کہ ہمار رزلٹ ایسا بھی
آ سکتا ہے اور خا ص کر اس صورت میں جب ہم نے پڑھنا تو دور کی بات کتابیں
بھی امتحان کے دنوں میں ادھار مانگیں، رزلٹ لیکر سیدھا خدمت میں حاضر ہوئے
جواب میں زبردست شاباش ملی اور حکم بھی کہ کالج آتے رہو اور اب رکنا
نہیں،آگے کے معاملات آرٹس والوں کے حوالے ہو گئے،تاہم اﷲ کا شکر کہ آگے بھی
ہمت اور حوصلے کی جب بھی ضرورت پڑھی نیازی صاحب نے پیپلز کے درخت کی طرح
ٹھنڈی اور گھنی چھاؤں فراہم کی ،تعلیم کے بعد جب عملی زندگی میں قدم رکھا
تو پھر بھی گاہے ملاقات ہوتی رہی اور ہمیں فیض حا صل ہوتا رہا ،بہت عرصے
بعد جب استاد محترم کالج کی پرنسپل کی سیٹ پر براجمان تھے تو کالج میں کسی
سیاسی جماعت کے بڑے نے آنا تھا ہم وقت سے بہت پہلے تلہ گنگ پہنچ گئے کالج
کے قریب پہنچ کر میں نے اپنے سنئیرز سے کہا آؤ آپ کو آج اپنے مرشد سے
ملواؤں وہ حیران ہوئے کہ تمارا مسلک تو ،،،،میں نے کہا آؤ ملو پھر بتانا ہم
کالج پہنچے دربان کو چٹ پر نالائق بچوں کی دنیا لکھ کر اندر بھیج دی،فوراً
ہی بلاوا آ گیا اندر گئے تپاک سے ملے اور بیٹھتے ہی کہا کہ کہاں دھکے کھا
رہے ہو آجکل، میں نے کہا سر آپ کا شاگرد اور دھکے کیا ایسا ہو سکتا ہے عینک
کا شیشہ صاف کرتے ہوئے بولے تبھی توپوچھا ہے کہ میرے جو شاگرد ہو،محفل کشت
زعفران بن گئی جتنی دیر بیٹھے سب لوگ ان کو سنتے رہے،میں نے ان سے اس بہت
بڑے قبرستان کے بارے میں پوچھا جو میانوالی جائیں تو پہاڑ اترتے ہی شروع ہو
جاتا ہے مگر ساتھ دور دور تک کوئی آبادی نہیں،میرااراداہ اس پر رپورٹ بنانے
کا تھا سر نے کہا کہ ابھی نماز کا وقت ہونے والا ہے وقت نکال کے آنا تفصیل
بتاؤں گا مگر افسوس ،،اب شاید ان کے بھائی ڈاکٹراجمل نیازی سے کبھی ملاقات
ہوئی تو پوچھیں گے ہم وہاں سے جب نکلے تو میرے صحافی دوست حیران ہو گئے کہ
کیا کمال کی شخصیت سے ملاقات کروائی ہے،جب کبھی تلہ گنگ جانا ہوا کوشش کی
کہ ملاقات ہو جائے اور کبھی کبھا ر ہو بھی جاتی ہر دفعہ کوئی نہایت ہی
خوبصورت بات ہمارے علم میں اضافہ کرتی، مسجد اور نبی کریم ﷺ کی محبت ان کا
عشق تھا،سچی اور کھری بات کبھی نہ چھپاتے جو ظاہر تھے وہی باطن میں بھی تھے
،ایک بار زمانہ طالب علمی میں ہم دو چار دوستوں کو چند دینی مسئلوں میں کسی
صاحب علم شخص سے رجوع کی ضرورت ہوئی ہم نے سوالات کاغذ پر لکھے اور اس وقت
پرنسپل فتح شاہ صاحب تھے سیدھے انکے دفتر جا پہنچے سلام کیا کاغذ ان کے
سامنے رکھا فتح شاہ صاحب نے سوالات پڑھے اور گویا ہوئے یہ اختلافی نوعیت کے
ہیں ان کا جواب اپنی مسجد کے امام سے جا کر لوہم نے کہا سر وہ اتنی اہلیت
کے حامل نہیں ہمیں مستند رائے درکار ہے جواب ملا سوری میں ان کا جواب نہیں
دے سکتا ہم ادھر سے نکلے اور سیدھا جناب نیازی صاحب کے پاس حاضر ہوئے گذارش
کی سر آپ کے نالائق بچوں کی دنیا کو مسئلہ درپیش ہے بڑی محبت اور توجہ سے
پوچھا بتاؤ ہم نے جھٹ کاغذ سامنے رکھ دیا سر نے ایک ایک سوال کا نہایت مدلل
جواب دیا جو آج تک ازبر ہے اور یقینادنیا کے ساتھ ساتھ آخرت میں بھی آسانی
کا سبب بنے گا ،شاید شاد عظیم آبادی نے انہی کے بارے میں کہا تھا کہ ڈھونڈو
گے ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم،لوگ کہتے ہیں کہ نیازی صاحب کو
تلہ گنگ نے بہت عزت دی بالکل غلط ہے میں کہتا ہوں نیازی صاحب نے تلہ گنگ کو
عزت دی وہ تلہ گنگ کے لیے وجہ افتخار تھے،ان کی رحلت کی خبر اس دن ملی جس
دن محترمہ فوزیہ بہرام کے گھر صحافیوں کی دعوت تھی ،خبر ملتے ہی دعوت بھول
گئی ہم نے تلہ گنگ کا قصد کیا اور وہاں جا کر دیکھا کہ اﷲ جنہیں عزت اور
مرتبہ دیتا ہے ان کا سفر آخرت بھی ان کی زندگی کی طرح اتنا ہی شاندار ہوتا
ہے،میں وہاں بہت سے لوگوں سے ملا جس میں ان کے قریبی عزیز بھی ہوں گے بیٹے
بھی اور بھائی بھی مگر میں تو اب تک سمجھ رہا ہوں کہ سب سے قریبی عزیز تو
ان کا میں ہوں اور وہ میرے،ان کی باتیں ان کی یادین دل کرتا ہے ان کی قبر
کے سرہانے کھڑے ہو کر پوچھوں کہ سر آپ یوں اچانک چھوڑ کر چلے گئے اب اگر آپ
کی نالائق بچوں کی دنیا کو کوئی مسئلہ درپیش ہو ا تو وہ کدھر جائے گی،،،،،
|