ہم بطور معاشرہ سچ سہنے کی ہمت کھو چکے ہیں۔ سچ کا سامنا
کرنے، حالات کا مقابلہ کرنے، اپنے زمانے کے تقاضوں اور علوم کے حصول اور
ایک صحت مند مقابلے کے بجائے ہمارا سارا زور اس بات پر رہتا ہے کہ جو کچھ
میں نے بولا ہے وہی سچ ہے، جو کچھ میں دیکھتا ہوں وہی حقیقت ہے۔ تصور کا جو
رخ میں دیکھ رہا ہوں اس کے علاوہ تصویر کا کوئی دوسرا رخ ہی نہیں۔گزشتہ 70
سالوں میں معاشرے کے نبض شناس ہونے کے دعویدار افراد ہمیں یہی ایک انوکھا
علم سکھانے کی کوشش کرتے رہے ہیں اور آج بجا طور پر وہ اس میں کامیاب ہوئے
ہیں۔
اس بات سے انکار شاید نا ممکن ہے کہ مملکت خداداد کے حصول سے اب تک یہاں
ذہن سازی پر کوئی کام نہیں ہوا۔ بہت سارا کام ہوا ہے مگر مراعات یافتہ
طبقات کو عام انسانوں سے بڑھ کر کوئی مخلوق ثابت کرنے کے لئے ۔ کسی بھی
حکمران نے آج تک عام انسانوں کو یہ شعور دینے کی کوشش نہیں کی کہ انسان اور
جانور میں فرق کیا ہوتا ہے ۔ انسان کو انسان ہی بن کر کیوں رہنا۔ خالق نے
اگر آپ کو انسان بنایا ہے تو انسان رہنے کے کچھ اصول و ضوابط بھی ہوا کرتے
ہیں ان کو پورے کئے بغیر سوال و جواب کے دن ہم اﷲ تعالی کے سامنے سرخرو
نہیں ہوسکتے۔ سوال مگر پھر وہی ہے کہ کوئی حکمران عام انسانوں کو یہ سکھا
کر اپنے لئے مسائل کا انبار کیوں کھڑا کرے گا۔ پھر سکھانے کی ذمہ داری کس
کی بنتی ہے؟ذمہ داری کے تعین کی راہ میں ہزاروں رکاوٹیں حائل ہیں۔ یہ
رکاوٹیں نہ تو خالق نے پیدا کی ہیں اور نہ عام مخلوق کے پیدا کردہ ہیں۔ ان
رکاوٹوں کی اصل وجہ ہمارا ہر شعبے کے ساتھ وہ رویہ ہے جس کی وجہ سے ہر شعبہ
اور اس شعبے سے منسلک افراد ’’مقدس گائے‘‘ بن چکے ہیں۔
معاشرہ کا سب اہم ترین شعبہ ، شعبہ تعلیم اور اس سے وابستہ افراد ہیں کہنے
کو تو یہ سارے لوگ اپنے پیشے کو پیشہ پیغمبری کہتے ہیں اور ہے بھی یہ دنیا
کا سب سے معزز پیشہ۔ مگر ایک عام آدمی چھوڑیں حکومت وقت بھی ان سے ان کی
پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کے بارے میں باز پرس کرنے سے قاصر ہے۔ ان لوگوں کی
ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ معاشرے کے بچوں کو سوال کرنے کا ڈھنگ سکھائیں مگر
آپ خود ان سے ان کی ذمہ داریوں کے حوالے سے کوئی سوال پوچھنے کی جسارت کرکے
تو دیکھیں؟ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ معماران قوم ہیں مگر ایسے معمر جن کے گلے
میں ہمیشہ مزید کی تختی لٹکی ہوئی ہوتی ہے۔ مزید علم نہیں بلکہ مزید مراعات
اور مزید پیسہ۔ وہ اپنا ایک سیکنڈ بھی قوم کے نونہالوں کو بغیر معاوضے کے
دینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ اگر ذہنیت اور تربیت کا لیول یہی ہو تو ان کی
زیر نگرانی تربیت گاہوں سے فارغ و التحصیل افراد کیسے معاشرے میں تبدیلی کا
موجب بن سکتے ہیں۔
ہمارے علماء بھی اس میں کسی سے کم نہیں ہیں۔ سوال یہاں بھی کرنے کی اجازت
نہیں ہے۔ انسان خطا کا پتلا ہے اور پتلوں کے پاس علم کی کمی ہوتی ہے۔ علم
کی کمی یعنی نادانی ، اور نادان انسان سے آپ دانائی والے سوال کی توقع کیسے
رکھ سکتے ہیں۔ ہم نادان لوگوں کو نادانوں جیسے سوالات پوچھنے کی اجازت
نہیں۔ اگر سوال نہیں پوچھیں گے تو حق اور خالق تک پہنچنے کا دوسرا راستہ
کیا ہوسکتا ہے۔ ادیان میرے کم علم کے حساب سے انسانیت کی بقا اور حفاظت کے
لئے آئے ہیں۔ ہمارے علم کا کمال دیکھئے کہ ہم دین کے ذریعے انسانیت کی
حفاظت کرنے کے بجائے بطور انسان خود دین کی حفاظت کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔
گنگا ہی الٹی بہہ رہی ہے اب اس الٹی گنگا میں اشنان بھی الٹے ہو کر کرنی
پڑتی ہے۔ ذہن میں کتنے سوالات ایسے ہیں جن کے جوابات سادہ مگر جواب دینے
والے چالاک۔ سوال کرنے کا حق ہی موجود نہیں۔
ہمارے سیاست دان ان دونوں سے بھی زیادہ مقدس ہیں۔ لوگ ان کا انتخاب کرتے
ہیں کہ ملک میں قوانین بنائے جائیں چونکہ سیاست دان عام عوام میں سے ہوتا
ہے (جب تک ممبر بن کر اسمبلی تک نہ پہنچے) اس لئے ان پر عام آدمی کو بھروسہ
بھی بہت ہوتا ہے کہ وہ اسمبلیوں تک جانے کے بعد ان کے مفادات کے پیش نظر
قوانین بنائیں گے تاکہ معاشرہ ترقی کی راہ پر گامزن ہو۔ ملک ترقی کرے اور
عوام خوشحال ہو۔ مگر ہمارے سیاست دان جس دن پارلیمنٹ ہاؤس پہنچ جاتے ہیں وہ
عام نہیں رہتے۔ ان کے آگے پیچھے ’’ہٹو بچو‘‘ والی بیوروکریسی آجاتی ہے اور
وہ ان کو کچھ ایسا سونگھا دیتی ہے کہ پھر ان کو عام آدمی کے مفادات کے
بجائے اپنے مفادات زیادہ عزیز ہوتے ہیں۔ وہ معاشرے کو ترقی کی راہ پر گامزن
کرنے کے بجائے اپنے لوگوں کو ترقی دینے میں لگ جاتے ہیں۔ عوام کی خوشحالی
کے بجائے اپنی کئی نسلوں کے لئے خزانے بھرنے میں لگ جاتے ہیں۔ ایسے میں عام
آدمی سے سوال کرنے کا حق سیاست دان بھی چھین لیتے ہیں اور بہت بری طرح چھین
لیتے ہیں۔
سب سے زیادہ تکلیف دہ رویہ عام آدمی کا ہوتا ہے وہ آج ایک پارٹی کے لئے
زندہ باد کے نعرے لگا رہا ہوتا ہے تو کل دوسری پارٹی کا ڈھول گلے میں ڈالے
بھنگڑا ڈال رہا ہوتا ہے۔ تیسرے دن چوک پر کھڑے ہوئے کسی مداری کو اپنا
مسیحا سمجھ لیتا ہے۔وجہ وہی نا۔ اوپر مذکورہ تربیت کرنے والے تینوں ادارے
اور ان سے وابستہ افراد اپنے لوگوں کی تربیت صحیح طور پر نہیں کرپاتے۔ آپ
جب تک عوام کو یہ ذہن نشین نہیں کرائیں گے کہ لیڈر خاموشی سے کام کرتے ہیں
وہ مجمع نہیں لگاتے۔ وہ عوامی اور ملکی فلاح کے کام اتنی خاموشی کرجاتے ہیں
کہ عوام کو بھی سالوں بعد پتہ چلتا ہے کہ ہمارے لیڈر نے ہمارے لئے یہ
کارنامہ انجام دیا تھا اب ہم اس کے پھل کھا رہے ہیں۔ جو لیڈر مجمع اکھٹا
کرنے کا شوق رکھتا ہو وہ لیڈر نہیں مداری ہوتا ہے۔ وہ وقتی فائدے کا متمنی
ہوتا ہے اس کو نا تو ملک اور نہ ملک کے افراد کی ترقی یا خوشحالی سے کوئی
سروکار ہوتا ہے اور نہ ہی وہ کبھی اس نہج پر عام آدمی کی تربیت کرے گا جس
سے شعور اجاگر ہو۔
اب نئے سال میں کیوں نہ ہم عہد کریں کہ جو جس شعبے سے وابستہ ہے وہ کماحقہ
انصاف کرنے کی کوشش کرے گا۔ وہ سوال کرنے کی اجازت دے گا، چاہے وہ معلم ہے،
عالم ہے یا ملک کا وزیر اعظم۔ ان تینوں سے زیادہ ضروری سوال کرنے کا رواج
گھر سے شروع کریں، دوستوں سے شروع کریں۔ اپنی خامیوں کو تسلیم کرنے کا ہنر
سیکھیں۔اس کے بغیر یہ خوش فہمی پالنے کی کوئی ضرورت نہیں کہ کوئی اور مسیحا
بن کر آپ کے مسائل حل کرنے کے لئے آئے گا۔ یا تو اپنی ذات کو مکمل طور پر
تبدیل کرنے کی کوشش کریں یا پھر وہی پرانی منافقت پرچلتے رہیں ملک تبدیل
کرنے کا خواب بھول جائیں۔
|