تربیت میں تعلیمی اداروں کا کردار

تحریر:ایمن احمد
یوں تو اﷲ سبحانہ وتعالیٰ نے انسان کے دنیا میں پیدا ہوتے ہی اسے والدین جیسی نعمت سے بہرہ مند فرمایا جو اس کی پرورش اور تربیت میں کوئی کسر باقی رہنے نہیں دیتے لیکن جوں جوں انسان اپنی جوانی کی طرف قدم بڑھاتا جاتا ہے اور معاشرے کی رگ و پے سے واقف ہوتا جاتا ہے اس کے ساتھ ہی عمر کا تقاضا بھی بڑھتا جاتا ہے۔ خاص طور پر جب زندگی کا تعلیمی دور شروع ہوتا ہے اور انسان کے سماجی روابط بڑھتے جاتے ہیں تو تعلیم اور تربیت کے معاملے میں کچھ ذمہ داریاں اْن تعلیمی اداروں اور اس سماج پر بھی پڑ جاتی ہیں۔

معاشرے افراد سے وجود میں آتے ہیں اور اگر فرد اچھی تعلیم و تربیت کا حامل ہو تو معاشرے کے حسن کو چار چاند لگ جاتے ہیں۔ انسان کی زندگی کا بہترین دور تعلیمی اداروں اور طالب علموں کے سنگ گزرتا ہے اور انسان کی سیرت بنانے میں اس کی صلاحیتوں کو نکھارنے میں اور اس کا نصب العین بنانے میں تعلیمی ادارے اہم ترین کردار ادا کرتے ہیں بلکہ اگر میری رائے پوچھیے تو میں کہوں گی کہ والدین کے بعد انسان کی تربیت کی ذمہ داری اگرکسی پر عائد ہوتی ہے تو وہ اساتذہ اور تعلیمی ادارے ہیں۔ تعلیمی ادارے تربیت میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ اچھے برے کی پہچان اور ہر مادی و غیر مادی چیز کا خورد بینی مشاہدہ تعلیم و تعلیمی ادارے سکھاتے ہیں۔

لیکن افسوس صد افسوس کہ موجودہ صدی کے تعلیمی ادارے معاشرے میں علم کی شمعیں روشن کرنے کے بجائے علم کے راہیوں کو ترکِ سفر پر مائل کر رہے ہیں جن کی منزل سوائے ناکامی کے اور کچھ نہیں۔ تعلیمی ادارے جن کا کام معاشرے کو سنوارنا ہے اچھے معاشرے کو مزید نکھارنا ہے وہی تعلیمی ادارے امید کی قندیلیں روشن کرنے کے بجائے چار سو قنوطیت کی آگ جلا رہے ہیں، تاریک گھٹائیں پھیلا رہے ہیں۔ انسان کو حیوان کیا بنارہے ہے بلکہ نوجوان نسل کو سکھا ہی یہ رہے ہیں کہ انسان تو ہے ہی سماجی حیوان۔

آہ! وہ کیا دور تھا جب ’’دار الارقم‘‘ کے نام سے تعلیمی ادارہ قائم ہوا تھا جس نے غارِحرا سے پھوٹنے والی کرنوں سے چار سواجالا کیا تھا۔ جس نے ’’عمر ابن خطابؓ‘‘ جیسے شقی القلب انسان کے سینے کو کلامِ خداوندی کی تاثیر سے نرم کر دیا تھا اور وہاں سے ’’فاروقِ اعظم رضی اﷲ عنہ‘‘ بنا کر نکالا تھا۔ نبی کے شہر مدینہ میں ’’مسجدِ نبوی‘‘ کے نام سے تعلیمی ادارہ بنا تھا جہاں پر کھجور کی چھت اور چٹائی تھی۔ ایک جانب کو اصحابِ صفہ رضوان اﷲ علیہم اجمعین کے لیے چبوترہ قائم تھا۔ جہاں پر نو سال تک روشنی کا انتظام نہ تھا۔ نو سال بعد صحابہ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم تمیم داری رضی اﷲ عنہ نے چراغ جلوایا تھا۔ مگر وہاں سے تعلیم حاصل کرنے والے ’’ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ‘‘ بن کر نکلے۔ وہ طالب علم بعد میں روشنی کے مینار بنے اور کئی سینوں کو اسلام کی بہار سے مزین اور ایمان کی روشنی سے منور کیا۔ مایوس دلوں کو امید کی مہک سے رونق اور تازگی بخشی اور راہ ھدیٰ کی اطراف میں شجرِ سایہ دار بن کر کھڑے رہے جن کی جڑیں اتنی مضبوط تھیں کہ آندھی کی تیزی اور بجلی کی کڑک انہیں اکھیڑ نہ سکی۔
مگر آج تعلیمی ادارے صرف تعلیم دے رہے ہیں تربیت کے نام تک سے واقف نہیں۔ میرے قلم میں صرف یہ رقم کرنے کی سکت ہے کہ،
شکایت ہے مجھے یارب! خداوندانِ مکتب سے
سبق شاہیں دے رہے ہیں بچوں کو خاکبازی کا

ہمارے تعلیمی ادارے آج خوبصورت عمارات اور آرائش و زیبائش سے مزین ہیں مگر ہماری نوجوان نسل تعلیمی اداروں کو تفریح گاہ سمجھ چکی ہے۔ جنہوں نے مستقبل کا معمار بننا تھا وہ ابھی سے ملک و قوم میں انتشار پھیلا رہے ہیں۔ جنہیں مستقبل میں ملک کی باگ دوڑ سنبھالنا تھی وہ اپنی کشتیاں بھی پار لگانے سے رہے اور ہمارے تعلیمی ادارے اس تمام قصہ پارینہ کے قصور وار ہیں۔ انتہائی افسردگی کے ساتھ کہ ہمارے اساتذہ آج اپنی اْن روایات کو بھول چکے ہیں جو کبھی اْستاد جیسی مکرم ہستی کی آن بان شان ہوا کرتی تھی۔ مگر آج ’’مخلوط تعلیم‘‘ کی حمایت کرنے میں ہمارے یہ اساتذہ جن سے تعلیمی اداروں کا وقار نہ صرف بنتا ہے بلکہ بلند بھی ہوتا ہے وہ ہی اس کارِخیر میں پیش پیش ہیں۔

ہماری پاس ٹیلینٹ کی کمی نہیں، عقل و دانش کی کمی نہیں، عصری تعلیم اور تعلیمی اداروں کی کمی نہیں عمارتوں کی کمی نہیں صرف ’’تربیت‘‘ کی کمی ہے۔ المختصر یہ کہ عصرِحاضر میں تعلیم حاصل کرنا مشکل نہیں۔ تعلیم اور تعلیمی ادارے ہر جگہ اور ہر طرف ہیں اور علوم و فنون کے تمام لعل و یاقوت سے آراستہ ہیں لیکن
اے شیخ مکتب کی فضا اچھی ہے لیکن
بنتی ہے بیاباں میں فاروقی و سلمانی (اقبال)

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1194107 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.