تحریر: مشعل اسلام
داغ داغ کرتے ہو سبھی داغ دار ہیں
بے داغ تو وہی ہے جو پروردگار ہے
اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو عیب جوئی کو با قاعدہ قصہ گوئی کا درجہ دے دیا
گیا ہے۔ جہاں دو چار خواتین ملیں باتوں باتوں میں اپنے غم غلطاں کرنے کے
بہانے کتنی ہی دیر غیبت، چغل خوری و عیب جوئی میں مشغول ہوگئیں۔ ہم دوسروں
کی عیب جوئی اور غیبت کرنے کے اس قدر عادی ہوگئے کہ افسوس اب ہم اسے گناہ
یا غیر اخلاقی حرکت بھی گمان نہیں کرتے بلکہ یہ دلیل دیتے ہیں کہ ہم تو سچ
بیان کر رہے ہیں۔ اکثر و بیشتر خواتین اسی فعل میں محو نظر آتی ہیں۔ الا
قلیل کہ کچھ عقل و فہم سے کام لے کر کام کی باتیں کرلیں گی۔ شادی بیاہ کی
تقریبات ہوں یارنج و غم کا وقت دیکھ لیں کچھ دیر نہ گزرے گی کہ سوچنے لگیں
گی کہ اب کس کو موضوعِ سخن بنایا جائے حالانکہ دیکھا جائے تو ہمارا دین اس
مکروہ فعل سے روکتا ہے۔ مسلمانوں کے عیوب پر پردہ ڈالنا شریعت کو مطلوب ہے
اور عیب پوشی کا عمل اﷲ کو راضی کرنے کا سبب ہے۔
عیب پوشی ایک ایسا عمل ہے جو روز قیامت جب اول انسان سے لے کر آخر تک تمام
بنی بشرو اولاد آدم کے سامنے نامہ اعمال پڑھنے کو کہا جائے گا تب ہر انسان
چاہے گا کہ اس کے عیوب سامنے نہ آئیں۔ ہر ایک یہ خواہش کرے گا کہ کاش! اﷲ
مالک الملک کائنات کا خالق دونوں جہانوں کے چپے چپے کا مالک شہنشاہ اعظم جو
اﷲ اکبر ہے وہ اس حقیر فقیر کمزور انسان پہ رحم کھائے اور اس کے عیب و
کمزوریاں کسی کے سامنے نہ لائے بس عفو کا معاملہ فرمائے۔ وہ دن اتنا سخت
ہوگا کہ انسان شدت سے چاہے گا کہ کاش! رسوا ہونے سے بہتر ہے وجود عدم کا
شکار ہوجائے۔ میری ہستی نیستی میں بدل جائے، میں ہوا میں تحلیل ہوجاؤں یا
خاک کا ذرہ بن جاؤں، دھول بن جاؤں مگر رسوائی و ہزیمت سے بچ جاؤں۔
ایک ایسا دن بھی اگر اس کے نامہ اعمال میں ہوگا جس دن انسان نے دنیا کی اس
ساٹھ ستر برس کی انتہائی مختصر سی زندگی میں اپنے مسلمان بہن بھائیوں کے
عیوب پہ پردہ ڈالتا رہا ہوگا اس کے بدلے میں روز محشر اﷲ مالک الملک اسے یہ
انعام دے گا کہ اس کے تمام عیوب پہ اپنی رحمت سے عفو کا معاملہ فرماکر
ستاری فرماکر اسے خوش کردے گا ۔
جی ہاں! یہ تو بہت سستا سودا ہے۔ اکثر تجسس کی عادت عیب جوئی تک رسائی کی
وجہ بنتی ہے۔ اچھا یہ بتاؤ کہ اب تمہاری بہو کیسی ہے؟ آگے سے ساس صاحبہ بہو
کی برائیوں کی وہ فہرست بیان کرین گی کہ الامان بلکہ دو چار اپنی بد ظنی کے
سبب باتیں گھڑ کے تہمت جیسے کبیرہ گناہ کی مرتکب تک ہوجائیں گی جس کا انہیں
احساس تک نہیں ہوتا۔ یہی حال بہو کا بھی ہے۔ اگر اس سے پوچھا جائے سنو!
تمہاری ساس اب ٹھیک ہیں؟ پھر سے تو کوئی نیا ہنگامہ نہیں کھڑا کیا؟ اب جو
بہو دس دس ان دیکھے آنسو پونچھے گی وہ الامان۔ الغرض! تجسس کی عادت بد ہمیں
عیب بینی کا عادی بنا دیتی ہے جس کے باعث ہم اپنے عزیزوں کے عیب بیان کرکر
کے اپنہ ہی آخرت تباہ کررہے ہوتے ہیں۔
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ،’’جو بندہ دنیا میں کسی بندے کی
پردہ پوشی کرتا ہے اﷲ تعالی قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی فرمائے گا ‘‘۔ جس
طرح ہم چاہتے ہیں کہ ہم اپنے عیبوں کو چھپائے رکھیں کسی کو معلوم نہ ہونے
دیں بعینہ اسی طرح ہمیں اپنے اوپر لازم کردینا چاہیے کہ ہم کبھی بھی اپنے
مسلمان بہن بھائیوں کے عیوب نہ اچھالیں بلکہ ہمیشہ عیب پوشی کرکے اﷲ کے
محبوب بندے بن کر رہیں۔
حدیث پاک میں آتا ہے کہ،’’مومن مومن کا آئینہ ہے‘‘۔(ابو داؤد کتاب الادب)
اگر کسی انسان کے چہرے پر کوئی داغ دھبہ لگ جائے تو وہ آئینہ کے سامنے جا
کھڑا ہوتا ہے۔ اب آئینہ چپکے سے اس کے عیب تک رسائی دے دیتا ہے اور وہ حضرت
انسان بھی مطمئن سا اس عیب، داغ دھبہ کو دور کردیتا ہے۔ کسی کو کانوں کان
خبر نہیں ہوتی۔ گو یا آئینے نے اس کے عیب نہایت رازداری کے ساتھ اسے بیان
کردیے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک مسلمان کو تمام مسلمانوں کے ساتھ ایسا ہی
سلوک کرنا چاہیے کہ اگر کسی عیب کا علم ہو بھی جائے تو اسے پیار و محبت سے
اس پہ تنہائی میں بیان کردے اور اس عیب کو دور کرنے میں اس کا معاون بن
جائے نہ کہ ڈھول بجاکے اسے سر عام رسوا کرے ۔
ہمیں چاہیے کہ ہم ہمیشہ دوسرے بہن بھائیوں کو بھی اتنی ہی عزت دیں جتنی
خودچاہتے ہیں۔ جو اپنے لیے پسند کریں وہی تمام انسانوں کے لیے پسند کریں اس
کا فائدہ یہ ہوگا کہ ہم لاتعداد گناہوں سے بچ جائیں گے۔ یاد رکھیے! چند عیب
بہت سی خوبیوں کو نہیں مٹا سکتے۔ مرحوم الطاف حسین حالی فرماتے ہیں:
موجود ہنر ہوں ذات میں جس کی ہزار
بد ظن نہ ہوں عیب اس میں اگر ہوں دو چار
طاؤس کے پائے زشت پر کرکے نظر
کر حسن و جمال کا نہ اس کے انکار |