اب شادی جہاں مرضی کروائیں ـ !

کیاہم نہیں جانتے کہ راہ سے بھٹکنے کا سبب کیا تھا،منزل تو دور کی بات ،کہیں نشان منزل ہی نہیں۔اصلاح چاہے اداروں کی ہو،معاشرہ یا پھرفردواحدکی،طویل ریاضت،صبر،اخلاص کے ساتھ مسلسل نگرانی اورتوجہ درکارہوتی ہے۔حد ہوتی ہے ،کسی بات کی،آخرایک ایپلیکشن ہی تومتعارف کروائی ہے،اس سے بڑی بات ہمارا میڈیا ،خیرمیڈیا کی توبات ہی نہ کریں،کہ خاوند،بیوی کے جھگڑے اوربیوی کا خاوندسے روٹھ کرچنگ چی پرسوارہونے کا پیکج ہیڈ لائن میں شامل کرنے والے میڈیا کا اس میں کیا قصورہے،پرنٹ میڈیا اس سے بھی دوہاتھ آگے۔ اس طرح کی کوریج سے حکومت کو اشتہارات کے ذریعہ سستی شہرت کی ترغیب دینابھی ہوسکتاہے ، جس کی قیمت عوام صدیوں اورنسلوں تک ادا کرتے ہیں۔ پاکستان پوسٹ کے پرانے نظام میں تبدیلی،پارسل بھیجنے دورکیوں جائیں؟ اب ڈاکخانہ ہی گھربلوائیں،پارسل کی ترسیل کے لئے محکمہ ڈاک کا"ایپ" استعمال کرنے کافیصلہ،پارسل کب ڈسپیچ ہوا؟ منزل تک پہنچ گیا یا نہیں؟ ایپ سب بتائے گی،"ٹریک ایند ٹریس ایپ ـ" پوسٹل صارفین کودستیاب ہوگی۔

اب 2019ہے،جبکہ پوسٹ آفس کاقیام اٹھارویں صدی کے دوران برطانوی دورمیں عمل میں آیا۔1947میں پوسٹ اورٹیلی گراف ڈیپارٹمنٹ کے طورپرکام شروع کردیا۔1962میں ٹیلی گراف اور ٹیلی فون کو پوسٹ آفس سے جدا کردیا گیا۔پاکستان پوسٹ کی خدمات اورکاکردگی کی بنا پراس ادارے کی جڑیں عوام میں مضبوط تھیں، عوام کی کثیرتعداد براہ ِ راست اس محکمہ سے مستفیدہوتی رہی۔پھراس ادارہ کا بھی وہی حشر ہوا، جودیگرمحکموں کا مختلف ادوار میں ہوتا رہا اورآج نوبت یہ ہے کہ ہرحکومتی ادارہ کی طرح پاکستان پوسٹ بھی تباہ حال، عوام کی پہنچ سے دور،اندرونی مسائل کاشکار اورعوامی شکایات کاانبار۔

اس محکمہ کوہمیشہ نظراندازکیاگیا،اسی لئے سابقہ ادوارکی حکومتوں کی ترجیحات میں یہ محکمہ کبھی شامل ہی نہیں رہا۔ بس جوبھی آیا اُس نے کچھ نہ کچھ فارمیلٹی پوری کی،پھریہ گئے،وہ گئے،کبھی اس طرف توجہ ہی نہیں دی گئی کہ اتنا بڑا اور اہم ادارہ تباہی کی جانب رواں ہے۔ اس کو سدھارا جائے۔ اس میں بہتری لائے جائے، اسے عوام کے لئے فائدہ مند اورسہولت کاذریعہ بنایا جائے۔

پاکستان پوسٹ جس کے ملازمین کی تعداد کم بیش 44ہزار کے لگ بھگ ہے۔پاکستان بھرمیں 13,000 پوسٹ آفس کا وسیع نیٹ ورک موجودہے۔پاکستان پوسٹ عوام کو ترسیل، لاجسٹک اورمکمل خدمات فراہم کرنے کے لئے خودمختار"پوسٹل سروسز مینجمنٹ بورڈ"کے تحت روایتی کردار کے علاوہ پوسٹل لائف انشورنس ،پاکستان پوسٹل سیونگ بینک، ٹیکس اوریوٹیلٹی بلزکی ادائیگی جیسی سہولیات صوبائی اوروفاقی حکومتوں کے تحت خدمات پیش کرتاہے۔خط میل (عام اوررجسٹری)،پارسل پوسٹ،پوسٹنگ سر ٹیفکیٹ،پوسٹ بکس کے علاوہ مختلف ادوار میں عالمی معیار کی سروسزمتعارف کرائی گئیں۔جیساکہ ایئر ایکسپرس1986(Airex)،فیکس میل سروس(ایف ایم) 1988،فیکس منی آرڈر(ایف ایم او)1988،انٹرنیشنل سپیڈ پوسٹ(آئی ایس پی ) 1986،مقامی ایکسپریس ترسیل (ایل ای ایس)1987،پوسٹل گیروسروس 1988،بچت بینک موبائل اکاوٗنٹ 1988،فوری میل سروس (یو ایم ایس) 1987،فوری رقم آرڈر سروس(یو ایم او ) 1988،الیکڑانک منی آرڈرسروس اور گھر جاکریوٹیلٹی بلز کی وصولی جیسے اقدامات کا اعلان 2007میں کیا گیا تھا۔بے نظیرسپورٹ پروگرام کے تحت ادائیگی،انکم ٹیکس،کسٹم ڈیوٹی،کمپیوٹرائز قومی شناختی کارڈ کی ترسیل،فوڈ سپورٹ پروگرام اوردیگر فلاح وبہبود پروگرام کے تحت مالی امداد کی ترسیل،پاکستان مسلح افواج پنشنروں کی ادائیگی کے معاملات، ہائی وے اورموٹروے سیفٹی کتابوں کی فروخت سمیت دیگربے شمار خدمات کا حامل ادارہ یوں ہی راتوں رات تباہ حال نہیں ہوگیا۔مذکورہ سروسز کوئی معمولی سہولتیں نہیں،مگراس سب کے باوجوداسے اس حال تک پہنچانے میں اس ادارے کے ارباب ِ اختیار کے علاوہ ماضی میں ہرحکومت کی بے پرواہی اوراس ادارے کوترجیحات میں شامل نہ کرنے کا نتیجہ ہے۔

یہاں تک کہ اکنامک کارپوریشن آرگنائزیشن(ECO) کے تحت اسلام آباد میں موجود "ECO Postal Staff College" افغانستان،آذربائیجان،ایران،قازستان،کرغیزستان،پاکستان،تاجکستان،ترکی،ترکمانستان اورازبکستان کے آفسران اورسٹاف کودور جدیدکے تقاضوں کومدنظررکھتے ہوئے مشترکہ ٹریننگ دی جاتی ہے،مگرنتیجہ آپ سب کے سامنے ہے۔اس کی وجہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔نااہلی،بدتمیزی،سائل کے ساتھ ناروا سلوک، باہربیٹھو،انتظارکرو، دودن بعدآنا، ابھی صاحب مصروف ہیں۔کہاں سے منہ اُٹھا کر آجاتے ہیں، پہلے مطلوبہ ریکوائرمنٹ اورفارمیلٹی پوری کرکے لائیں۔ باہرسے درخواست لکھوا کرلا ؤ۔باہربھی ان کے اپنے ہی لوگ موجود ہوتے ہیں، جوباقاعدگی سے انہیں کمیشن دیتے ہیں۔ جو یقینا پوسٹ آفس میں آنے والے سائلین کی جیب سے نکلوائے جاتے ہیں۔ ایک چالان فارم بھرنے کی فیس توبہ۔ یہ حال تومحکمہ ڈاک کے بڑے دفاترکا ہے۔ باقی یونین کونسل اورمحلہ کی سطح پرآفس اوروہاں کے عملہ کی توبات ہی کیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ پوسٹ آفس یعنی محکمہ ڈاک نام کی کوئی چیزہمارے ملک میں ہے کیا؟ شاید نئی نسل اس سے واقف ہی نہ ہو۔سوائے مسلح افواج ،پی ٹی سی اور دیگر سرکاری اداروں کے پنشنرزکے علاوہ عوام میں سے کبھی کسی نے اس کی طرف رخ ہی نہیں کیا۔

موجودہ حکومت نے اس قومی اثاثے کی بحالی کی طرف توجہ دی،"ٹریک ایند ٹریس ایپ ـ" متعارف کروائی۔بہت اچھی بات ہے اوروقت کی ضرورت بھی، ڈراس بات کا ہے،کہ کچھ عرصہ بعدماضی کی طرح اس ادارے کوپھرنظراندازنہ کردیا جائے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ ایپ صرف عوام میں مقبولیت حاصل کرنے کا ذریعہ بنانے کی بجائے،اس کی مکمل نگرانی اورفالواپ کیا جائے اورمحکمہ ڈاک کی دیگر سروسز جو یقینا عالمی معیار کی ہیں۔ان تمام سروزکی بحالی پربھی بھرپورتوجہ دی جائے۔جب عوام کوسہولت اورفائدہ ہوگا تولوگ خودبخودقومی ادارے کی بحالی میں اپنا کرداراداکرنے پرآمادہ ہوجائیں۔ بلکہ عوام کی تو خواہش ہے محکمہ ڈاک کامیاب ہو،سوشل میڈیا پراس کے حق میں کافی عرصہ سے آواز بلند کی جارہی ہے۔مگر ایسے ناکام اداروں کوبحال کرنے کے لئے انتھک محنت اور مسلسل توجہ درکارہے۔مردہ گھوڑے میں جان ڈالنے میں وقت لگے گا، اس کے تن آسانی میں مبتلاملازمین جوکچھ کئے بغیر تنخواہ اورمراعات حاصل کررہے ہیں،اُنہیں کام پرآمادہ کرنا پڑے گا،اُنہیں وہ وسائل مہیاکرنے ہونگے جوپرائیوٹ سیکڑاپنے ملازمین کو دے رہاہے۔

وسائل کی فراہمی اورسنجیدگی کے بعد سب سے ضروری بات جوکہ تقریباََ ناممکن ہے، وہ ہے سائلین کے ساتھ اخلاق سے پیش آنا۔آئیں تشریف لائیں، آپ کی تشریف آوری کا شکریہ، ہمیں آپ کی خدمت سے خوشی ہوگی،ہم آپ کی کیاخدمت کرسکتے ہیں۔آپ تشریف رکھیں ، جی پلیزآپ بس ذراانتظارفرمائیں، ہم ابھی آپ کو آگاہ کرتے ہیں۔ آپ کے وقت اوریہاں تک پہنچنے میں آپ کو جودقت ہوئی ،ہمیں اس کا پورا احساس اورقدر ہے،ہماری کوشش ہوگی ، آپ کا مسئلہ ابھی حل ہوجائے تاکہ آپ کودوبارہ اس حوالہ سے زحمت نہ اُٹھانی پڑے۔ایسی خوش اخلاقی کی عوام کو خواہش ہے نہ ہی اُمید۔ عوام توصرف اتنا چاہتے ہیں،حکومتی ادارے اُنہیں عزت نہ دے سکیں توبھی چلے گا، مگرکم از کم اپنے ادارے میں آنے والے ضرورت مندوں کی عزت نفس مجروح نہ کریں۔انہیں بیشک بیٹھنے کی جگہ نہ دیں،مگرانہیں دھکے دے کر باہرنہ نکالیں۔ ان کا کام اگرنہیں کرسکتے ،ان کا مسئلہ حل نہیں کرسکتے ،تو انہیں مسئلہ حل نہ ہونے کاسبب اور وجہ تو مہذب طریقہ سے سمجھا دیں۔

حکومت سے گزارش ہے کوئی ایسی ایپ بھی متعارف کروائے، جوعوام کے مسائل،تکالیف اورمحرومیوں کی نشاندہی کرسکے،ان کی شکایت اورمشکلات کا حساب اہل اقتدار تک پہنچا سکے،جو جذباتی حکمرانوں کو احساس دلا سکے کہ وہ پولیس کی اصلاح،صحت کی سہولتیں،جہالت وبیروزگاری کے خاتمہ کے وعدے اوردعوے کیا ہوئے ،جو انتخابی مہم کے دوران کئے گئے، ان میں سے کتنے وعدے وفاہوئے اورکتنے باقی ہیں۔ضرورت ایسی ایپلی کیشن کی ہے جوموجودہ اورسابقہ حکمرانوں کی کارکردگی میں فرق واضح کرسکے ۔ہماری دعا ہے،پاکستان میں استحکام اورترقی ہو، موجودہ حکومت اپنی مدت کامیابی کے ساتھ پوری کرے اورعوام کی اپنے نئے حکمرانوں سے وابستہ توقعات پوری ہوں،ملک آگے بڑھے ، مہنگائی ، صحت ،تعلیم ،بے روزگاری سمیت عوام کے تمام مسائل ترجیجی بنیادوں پر حل ہوں،جرائم کا خاتمہ ہواورحویلیاں میں تین سالہ معصوم بیٹی کے ساتھ ہونے والی درندگی جیسے واقعات کاسد ِباب ہو۔لیکن فی الحال واضح تبدیلی کے کوئی آثارنہیں، لہٰذابراہ ِکرم فی الحال " شادی جہاں مرضی کروائیں،مگرکارڈہمارے پرنٹنگ پریس سے چھپوائیں" جیسی مشہوریوں سے پرہیزہی بہترہے۔اصلاح چاہے اداروں کی ہو،معاشرہ یا پھرفردواحدکی،طویل ریاضت،صبر،اخلاص کے ساتھ مسلسل نگرانی اورتوجہ درکارہوتی ہے۔

MUHAMMAD AKRAM AWAN
About the Author: MUHAMMAD AKRAM AWAN Read More Articles by MUHAMMAD AKRAM AWAN: 99 Articles with 92420 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.