تحریر: انیلہ افضال
کھانا خزانہ! جی ہاں کھانا ان لوگوں کے لیے خزانہ بن چکا جو ٹھیلوں سے لے
کر بڑے بڑے پانچ ستارہ ہوٹلوں میں اسے فروخت کر رہے ہیں۔ ذرا سوچیے! یہ جو
باہر کھانے کے نام پر ہم ہفتے میں ایک یا دو بار اور اختتام ہفتہ پر تقریباً
لازمی اپنے بچوں کو ہوٹلوں اور ریستورانوں میں لے جا کر اپنے ہاتھوں سے
سستا زہر کھلا رہے ہیں اس کا انجام کیا ہو گا۔
ایسا کھانا جسے مصنوعی رنگوں اور خوشبوؤں سے مزین کرکے اور مصنوی لذت اس
میں بھر کر ہمارے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ جسے ہم اپنے ہاتھوں سے اپنے بچوں
کے معدوں میں منتقل کر رہے ہیں۔ یہ کیسا کھانا ہے جس میں نہ تو ماں کے ہاتھ
کا ممتا بھرا لمس شامل ہوتا ہے اور نہ ہی باپ کی شفقت۔ ہم اپنے بچوں کو کیا
کھلا رہے ہیں؟ ’’برائلر مرغی‘‘ کہ جس کی پیدائش اور افزائش دونوں مشکوک ہیں
اور پھر جس کا حلال ہونا بھی شک کے زمرے میں آتا ہے۔ مزید یہ وہ تو سرے سے
مرغی ہے ہی نہیں وہ تو چکن ہے یعنی چوزہ۔
مٹن یا بیف: جس کے بارے میں آپ خود بھی یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ کس جانور
کا ہے۔ گدھا ہے یا؟؟ دل پر ہاتھ رکھ کر کہیے کیا یہ جھوٹ ہے؟ اب آتے ہیں
بیکری آئٹمز اور جنک فوڈ کی طرف۔ کھانے کے نام پر نری بیماری۔ میدہ اور
دیگر کیمیکل کے استعمال سے تیار ہونے والی غذا جسم کو طاقت اور توانائی کیا
فراہم کرے گی الٹا بیماری کا سبب بنے گی۔ قبض اور ڈائیریا دونوں کو دعوت
عام ہے جو پہلے آئے وہ پہلے پائے، ہماری نئی نسل کی صحت۔
سوفٹ ڈرنکس: جو کسی بھی لحاظ سے سوفٹ تو ہر گز نہیں ہیں۔ کاربونیٹڈ واٹر،
جو لوگ سائنس کا تھوڑا سا بھی علم رکھتے ہیں وہ بآسانی بتا سکتے ہیں کہ یہ
ایک مضر چیز ہے۔ اس پر اس میں واﷲ اعلم کیسا اور کتنا میٹھا شامل کرکے
فینائل اور ایک فیصد الکحل بھی شامل کیا جاتا ہے۔ اس پہ طرہ یہ کہ مضر صحت
رنگوں سے اسے مزین بھی کیا جاتاہے۔ جس سے دانت تو گلتے ہی ہیں گردوں کو بھی
یہ سوفٹ سا ڈرنک ویران کر جاتا ہے۔
خدارا! اپنے بچوں کو اپنے ہاتھوں سے زہر نہ کھلائیں اور جو پیسہ ان کی صحت
خراب کرنے میں خرچ کر رہے ہیں ان کا مستقبل بنانے میں لگائیں تاکہ ایک
بیمار، تھکی ہوئی اور کم ہمت نسل کی بجائے ایک صحت مند اور دلیر مسلمان قوم
تیار ہو اور یہ سراسر ماؤں کی زمہ داری ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے عورت پر ایک
واحد ذمہ داری ڈالی ہے کہ وہ اولاد کی نشوونما اور تربیت کی زمہ دار ہے۔
خدارا اسے احسن طریقے سے انجام دیں نہ کہ جان چھڑائیں۔ یاد رکھیں! جن کی
نقل میں ہم یہ سب کر رہے ہیں وہ بڑھاپے میں والدین کی خدمت کرنے کے بجائے
انہیں اولڈ ہوم میں چھوڑ آتے ہیں۔ یہ ہمارے دین کی تعلیم نہیں اپنی اولاد
کو مامتا کا لمس اور باپ کی شفقت کی عادت ڈالیے۔ |