پورے سوشل میڈیا پر اس وقت ایک ہی بریکنگ نیوز چل رہی ہے
نند کا بیٹا میرے بیٹے سے زیادہ خوبصورت کیوں؟
حسد کی وجہ سے ممانی کے ہاتھوں بھانجے کا قتل ، وغیرہ وغیرہ
کیا واقعی بات ایسی ہی ہے یا اتنی ہی ہے جیسی کہ سُرخیاں جمائی جا رہی ہیں؟
ایک جوان عورت جو کہ خود ایک ننھے بچے کی ماں ہے وہ کیسے اتنے بہیمانہ جرم
کا ارتکاب کر سکتی ہے اور یہ رسک اٹھا سکتی ہے کہ پکڑے جانے کی صورت میں اس
کی زندگی کا بیشتر حصہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے گذرے گا اور اس کا بچہ اس کی
ممتا سے محروم ہو کے نفرتوں اور ملامتوں کے سائے میں پلے گا ۔ مگر اس عورت
نے کچھ نہ سوچا اور ایک ننھے پھول کو زندگی کی خوشبو سے محروم کر دیا ۔ وہ
ایک انتہا درجے کا بھیانک جرم کر گذری جو یقیناً ناقابل معافی ہے لیکن کیا
یہ سوچنے کا مقام نہیں ہے کہ اتنی نوبت آئی کیسے؟ اور آئندہ پھر کسی ایسے
اندوہناک واقعے کی روک تھام کیسے کی جا سکتی ہے؟
ہمارے معاشرے میں عام طور پر بہت سے لوگ اپنی بیٹیوں کے بچوں پر مرتے ہیں
اور بہو کے بچوں کو نظرانداز کرتے ہیں جوائنٹ فیملی سسٹم میں اکثر ہی
بیٹیوں کے بچوں کو خصوصی توجہ حاصل ہوتی ہے اور بیٹوں کے بچے گھر کی مرغی
دال برابر ہوتے ہیں موقع بموقع ان کی طرح طرح سے حوصلہ شکنی کی جاتی ہے ان
کی ذرا سی بھی خطا کے اوپر ان کی ماں کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا جاتا
ہے اور بیٹی کے بچوں کی ہر نامعقول حرکت پر انہیں مہمان کہہ کر ٹال دیا
جاتا ہے خواہ ان کے آئے دن ننھیال میں ڈیرے ڈلے رہتے ہوں ۔ اکثر ہی شکل و
صورت اور رنگت کا تقابل کیا جاتا ہے کسی کم شکل لڑکی کا بچہ بھی اس جیسا ہی
ہو تو کہا جاتا ہے کہ اپنی ماں پر پڑا ہے جبکہ اس کا باپ بھی کوئی شہزادہ
گلفام نہیں ہے اگر ہوتا تو ظاہر ہے کہ کوئی حور پری ہی بیاہ کر لاتا ایک کم
شکل لڑکی کو کیوں قبول کرتا ۔ یہ جو کہیں کہیں مخمل میں ٹاٹ کے پیوند والے
کیس نظر آتے ہیں تو ان کے پیچھے بھی پوری ایک سیاست اور سازشی ذہنیت
کارفرما ہوتی ہے ۔ کم شکل یا کمزور بیک گراؤنڈ رکھنے والی بہو کی اکثر ہی
سسرال میں حیثیت دو کوڑی کی بھی نہیں ہوتی اس کا مقام ایک بے دام غلام والا
ہی ہوتا ہے اور اس کی کوکھ سے جنم لینے والے بچے بھی امتیازی سلوک کا نشانہ
بنتے ہیں اور نفسیاتی اذیت کا شکار بنتے ہیں ۔ اگر بیٹی کا بچہ پڑھنے میں
اچھا نہیں ہے اور بیٹے کا بچہ ذہین ہے تو کچھ لوگوں کو یہ تک ہضم نہیں ہوتا
۔
بیٹی کا بچہ خوبصورت ہو بہو کا بچہ خوبصورت نہ ہو اور بار بار ان کا موازنہ
کیا جائے تو ایک ماں کے لئے یہ کتنا تکلیف دہ اور اذیتنا ک ہے اس کا اندازہ
لگانا کوئی مشکل بات تو نہیں ہے ۔ کوئی ماں اتنی آسانی کے ساتھ دوسری ماں
کی کوکھ نہیں اجاڑ سکتی ۔ اگر کسی نے ایسا کیا ہے تو اس کے پیچھے پوری ایک
کہانی ہو سکتی ہے ۔ اس کے کم صورت بچے کو لے کر نہ جانے اسے کتنی ذہنی اذیت
پہنچائی گئی کس کس طرح سے اس کی دل شکنی کی گئی کہ وہ اپنے ہوش و حواس کھو
بیٹھی اور شدید اضطراری کیفیت میں ایک معصوم بیگناہ پھول کے خون سے اپنے
ہاتھ رنگ لئے کچھ نہ سوچا نہ صبر کیا نہ خدا کا خوف کیا بس اپنے زخمی جذبات
کی غلام بن گئی اور ہم سب عقل کے اندھوں کے لئے کچھ سوچ و فکر کے در کھول
گئی ۔ ان مردوں کو کچھ ہوش کے ناخن لینے چاہیئیں جو اپنے بیوی بچوں کے ساتھ
اپنے گھر والوں کی زیادتیوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے باوجود انجان بنے
رہتے ہیں ۔ ایکدوسرے سے شکایات ، اختلافات اور ناخوشگوار ماحول کے باوجود
بیوی کو زبردستی اپنے گھر والوں کے ساتھ رکھتے ہیں استطاعت رکھنے کے باوجود
اسے الگ رہائش فراہم نہیں کرتے ۔ بیوی کو میکے بھیجتے ہوئے انہیں موت پڑتی
ہے کہ ان کی منکوحہ اصل میں پورے گھر کی ماسی ہے میکے نَس گئی تو سب نظام
تہس نہس ہو جائے گا ۔ اور خود اپنی بہن اپنے پتی اور پول پٹی کے ساتھ جب جی
چاہے منہ اٹھائے چلی آ رہی ہے بھاوج سے خدمتیں کرا رہی ہے اور پھر بھی ناک
بھوں چڑھا رہی ہے آپ کے بچوں میں پائے جانے والے فضائل و مناقب بیان کر رہی
ہے اور آپ کی عقل گھاس چرنے چلی گئی ہے کم از کم اپنی اولاد کو تو طنز و
تضحیک کا نشانہ بننے سے بچائیں ۔ آپ میں اتنی اخلاقی جرأت تو ہونی چاہیئے
کہ بچوں کی صورت اور رنگت کے موازنے یا تقابل کی سختی کے ساتھ ممانعت کریں
۔ ورنہ پھر یہاں لاکھوں ماؤں میں سے ایک آدھ ایسی صبر و ضبط سے محروم ماں
بھی نکل آتی ہے جسے ایک خوبصورت بچہ ہی دنیا میں اپنا سب سے بڑا دشمن نظر
آنے لگتا ہے اور وہ اپنی پوری سسرال کی ہرزہ سرائیوں کا انتقام اسے فنا کے
گھاٹ اتار کر لے لیتی ہے ۔ (رعنا تبسم پاشا) |